نواز شریف کی جارحانہ تقریریں اور ن م راشد کی نظم



پاکستانی سیاست انٹرٹینمنٹ کے سارے اصولوں پہ پورا اترتی ہے۔ اس میں نون لیگ کی فنکاریاں ہیں، پیپلز پارٹی کی قلابازیاں ہیں، جمیعت علمائے اسلام کی سخت مزاجیاں ہیں، اور تحریک انصاف کی کارکردگی کی ”نشانیاں“ ہیں۔ آئے روز سیاسی درجہ حرارت بدلتا رہتا ہے۔ یوں تو اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کو قائم ہوئے چھ ماہ بیت چکے ہیں لیکن تین مارچ کے سینیٹ انتخابات کے بعد حالات نے اتنی تیزی سے کروٹ لی کہ سیاسی منظرنامے کا ہر سین کلائمیکس محسوس ہونے لگا۔

یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ کا انتخاب جیتنا، پھر عمران خان کا اعتماد کا ووٹ لینا، پھر صادق سنجرانی کا چیئرمین سینیٹ بننا اور اس کے بعد یوسف رضاگیلانی کا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نامزد ہونا ، یہ سب واقعات ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ پاکستانی سیاست کو فالو کرنے والوں کو محو رکھے ہوئے ہیں۔ اس سیاسی منظرنامے میں ایک کے بعد ایک رونما ہوتے کلائمیکس میں جو چیز کسی حد تک توجہ حاصل نہ کر پائی وہ نواز شریف کا گزشتہ ہفتے رائیونڈ میں مسلم لیگ نون کے یوتھ ونگ کنونشن سے خطاب تھا۔ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا نے اسکوکوئی خاص کوریج نہیں دی۔ جبکہ سوشل میڈیا پہ بھی سنجیدہ حلقوں میں یہ زیر بحث نظر نہیں آیا۔

نواز شریف کا پاکستانی سیاست میں متحرک کردار چالیس سال سے زیادہ کا ہے۔ نواز شریف کی سیاست کی ابتدا سے اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ نوے کی دہائی کی سیاسی آنکھ مچولی بھی سب کو ازبر ہے۔ البتہ ننانوے کے مارشل لاء کے بعد سے نواز شریف کے لہجے میں کسی حد تک تلخی در آئی تھی۔ جس کا ثبوت اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دیے گئے چند انٹرویوز اور جلسوں کی تقریریں ہیں۔ البتہ 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دو تہائی اکثریت رکھتے ہوئے بھی نوازشریف وہ سب کچھ نہ کر سکا جن کا اظہار وہ اس سے پہلے تقریروں اور انٹرویوز میں کر چکا تھا۔

مشرف کا ٹرائل قصۂ پارینہ بنا۔ ڈان لیکس پہ ”ان کے“ کہنے پہ اپنے دیرینہ ساتھی کو وزرات سے فارغ کیا، مشاہد اللہ جیسے ساتھی اور وزیر کو محض ایک بیان کی وجہ سے وزرات سے رخصت ہونا پڑا۔ لیکن عدالت سے معزول ہونے کے بعد مجھے کیوں نکالا سے لے کر پی ڈی ایم کے گوجرانولہ والے جلسے تک نواز شریف کا لب و لہجہ یا تو ترش رہا یا وہ بالکل خاموش رہے۔ نواز شریف جب تک جیل نہیں گئے تھے تب تک پوچھتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا، جیل جانے جے بعد اور کلثوم نواز کی وفات سے نواز شریف کی خاموشی کو جواز فراہم کیا گیا۔

البتہ ملک سے جانے کے بعد پی ڈی ایم کے گوجرانولہ کے جلسے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی ساری کشتیاں جلا دی ہیں۔ جس طرح وہ ببانگ دہل نام لینے لگے اس سے پہلے اس ملک میں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں اور حاضر سروس جرنیلوں کا کا نام لینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ماسوائے وقت کے کسی آمر حکمران کے۔ حتیٰ کہ ایک بار زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کے چکر میں ڈیڑھ سال دبئی میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھے رہے تھے۔ لہٰذا نواز شریف کا لب لہجہ اس سیاست میں، اس معاشرے میں بالکل نیا ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چالیس سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم رہنے والا تین بار کا وزیراعظم نواز شریف بھولا ہے تو یہ بات کہنے والا غالباً خود بھولا ہو گا۔ نواز شریف کا ملک سے نکلنا یقیناً کوئی خدائی فیصلہ نہ تھا ، البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف کے ملک سے نکلنے کے بعد کچھ ایسی وعدہ خلافی ضرور ہوئی ہے جس کے بعد نواز شریف نے اپنی کشتیاں جلا دیں اور نواز شریف نے ایک جارحانہ انداز اپنا لیا۔ رائیونڈ کے حالیہ جلسے میں نواز شریف کا خطاب اور لب لہجہ شدید جارحانہ تھا۔

البتہ نواز شریف نے کسی جرنیل کا نام لیے بنا سب کچھ ایسے بیان کر دیا کہ کسی کے لیے کچھ سمجھنا مشکل نہ رہا۔ اس پہ مستزاد کیپٹن صفدر نے باقاعدہ نام لے کر نہ صرف نعرے لگوائے بلکہ ”ان کی“ مبینہ کرپشن پہ کھل کر اظہار خیال کیا۔ نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے ایک مقام پہ کہا کہ ”یہ ملک کسی کی ذاتی جاگیر نہیں جو پلاٹ تقسیم کرتے پھریں یہ ملک اگر کسی کی جاگیر ہے تو وہ آپ بائیس کروڑ عوام کی جاگیر ہے“ ۔ اس کے بعد کسی شخص یا ادارہ کا نام لینے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

لوگوں کے خیال میں تین بار کے وزیراعظم نے ایک تقریر کی اور سارے میڈیا چینلز نے بلیک آؤٹ کیا تو وہ سمجھے کہ شاید لوگوں کو خبر ہی نہ ہوئی ہو کہ نواز شریف نے کیا کہا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا لوگوں کو خبر ہوئی اور خوب خبر ہوئی، اسی لیے گزشتہ چند دن سے ہر طرف ڈی ایچ اے ملتان کی ہاہا کار مچ گئی۔ سمجھنے والوں کے لیے اس میں بیشک سمجھ کا سامان موجود ہے۔

نواز شریف گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد سے جو باتیں کہہ رہا ہے، ان باتوں کو سوشل میڈیا کے دور میں محدود رکھنا ممکن نہیں۔ نواز شریف کا لب لہجہ بتاتا ہے کہ اب سیز فائر بھی اتنا سستے میں نہیں ہو گا اور مجھ سے کج فہم تو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کی جنگ اب نواز شریف ہی لڑے گا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار پھر ڈیل ہو جائے گی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے۔ جس لب و لہجے میں، جس شد و مد سے میاں صاحب جرنیلوں کے نام لے رہے ہیں اس کے بعد ڈیل کی گنجائش کیسے بچتی ہے؟ ادارے کا تو اصول ہے کہ وہ اپنے ریٹائرڈ بندے (مشرف) کو بھی مکھن سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں تو نواز شریف کا حاضر سروس جرنیلوں کے خلاف کھولا محاذ کیسے کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے؟ مجھ ایسا کم فہم اس سوال کا ہی جواب ڈھونڈ رہا ہے۔

رائیونڈ مسلم لیگ نون یوتھ ونگ کنونشن سے خطاب سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ نواز شریف اب محض بیان بازی نہیں کر رہا۔ وہ محض شہ سرخیوں میں نہیں رہنا چاہتا۔ بلکہ وہ ان مسائل پہ قوم کو ویسے ہی ایجیوکیٹ کر رہا ہے جیسے ایک دور میں عمران خان کیا کرتا تھا۔ لیکن عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو اس طرح عوامی سطح پہ ڈسکس نہیں کیا۔ نواز شریف کے خطابات ایک عام ریڑھی بان، مزدور، کسان، خوانچہ فروش کو ایجوکیٹ کر رہے ہیں۔

نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص کرداروں کو ”ٹاک آف دی ٹاؤن“ بنا دیا ہے۔ نواز شریف نے اسٹیبلشنٹ کے ان کرداروں کو ویسے ہی کرپشن کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے جس کرپشن کے کٹہرے میں اسٹیشلمنٹ نے نواز شریف کو رکھا ہوا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اتنی نالائق نہیں کہ وہ ان تقریروں کے مضمرات کو نہ سمجھ سکے۔ البتہ مجھ ایسے لوگ جو جمہوریت کو اصل روپ میں بحال دیکھنے کے خواہاں ہیں ان کی امیدوں کے چراغ ایسی تقریروں سے جلتے رہتے ہیں۔ جبکہ باقیوں کا خیال ہوتا ہے کہ نواز شریف سٹھیا گیا ہے۔ ممکن ہے نواز شریف سٹھیا گیا ہو۔ وہ محض اپنی ذات اور اپنے جماعت کو بچانے کے لیے اس نہج تک جا رہا ہو۔ لیکن میں یہ کیسے مان لوں کہ ان تقاریر کے مضمرات سے نواز شریف بے خبر ہو گا یا خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ سب ہضم کرنا کیسے آسان ہو گا؟

چند روز قبل ن م راشد کی ایک نظم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ تحریر اس نظم کی دین ہے۔ اگر یہ نظم میں نے نہ پڑھی ہوتی تو شاید اس تحریر کا خیال نہ آتا۔ نظم کا عنوان ہے ”سپاہی“ ۔

تو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
موت کا لمحہ مایوس نہیں،
قوم ابھی نیند میں ہے!
مصلح قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے،
میں تو اک عام سپاہی ہوں، مجھے
حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا
اور اس سعی جگر دوز میں جاں دینے کا
تو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟
تو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
راہ میں اونچے پہاڑ آئیں گے
دشت بے آب و گیاہ
اور کہیں رود عمیق
بے کراں، تیز و کف آلود و عظیم
اجڑے سنسان دیار
اور دشمن کے گرانڈیل جواں
جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ
عزت و عفت و عصمت کے غنیم
ہر طرف خون کے سیلاب رواں
اک سپاہی کے لیے خون کے نظاروں میں
جسم اور روح کی بالیدگی ہے
تو مگر تاب کہاں لائے گی
تو مرے ساتھ مری جاں، کہاں جائے گی؟
دم بدم بڑھتے چلے جاتے ہیں
سر میدان رفیق،
تو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟
عمر گزری ہے غلامی میں مری
اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!
زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ
اس سے اے جان پر وبال میں آتا ہے جمود
میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست
آسمانوں سے بھلا آئے گی؟
دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول
میرے محبوب وطن کو یہ نکل جائیں گے؟
ان سے ٹکرانے بھی دے
جنگ آزادی میں کام آنے بھی دے
تو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments