بنوں میں چار کم عمر دوستوں کا قتل: مظاہرین کا اسلام آباد کی جانب مارچ، پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم


خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر چار نو عمر لڑکوں کے قتل کے خلاف سات روز سے جاری دھرنے کے منتظمین نے اتوار کی صبح دارالحکومت اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تاہم اسلام آباد روانہ ہونے والے قافلے کا دو کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد ہی دریائے تونچی کے مقام پر پولیس کے ساتھ تصادم ہوا ہے۔

آخری اطلاعات آنے تک مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے بنوں شہر سے آگے نکل کر کوہاٹ روڈ تک پہنچ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ چار لڑکے تقریباً 27 روز قبل شکار کے لیے گئے تھے اور لاپتہ تھے لیکن گذشتہ اتوار کے روز ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔ ان لڑکوں کو قتل کرنے کے بعد ندی کے قریب قبرستان میں دفن کر دیا گیا تھا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور صوبائی وزرا بھی بنوں پہنچ چکے ہیں اور مظاہرین اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے بنوں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلینج ہے لیکن ’ہم اس چیلینج سے منھ نہیں موڑیں گے اور فورینزک اور تفتیشی ماہرین کے ذریعے واقعے کی تحقیقات کروائیں گے اور اس مقصد کے لیے تمام ذرائع اور وسائل بروئے کار لائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت کا عزم ہے کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ’تحقیقات میں وقت لگتا ہے لہٰذا متاثرین سے درخواست ہے کہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جانی خیل محب وطن اور ملک کے وفادار لوگ ہیں اور وہ جانی خیل قوم کے مشران کو مکمل اعتماد میں لیں گے۔ محمود خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ جانی خیل قوم کے مشران اس واقعے کو کسی اور مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

چار کم عمر دوستوں کا قتل: ’نظام اللہ سے کہا تھا جلدی واپس آجانا بہت دور نہ جانا‘

شکار پر گئے چار کم عمر دوستوں کی ’قتل شدہ لاشیں زمین میں دفن ملیں‘

بنوں میں اس وقت کیا صورتحال ہے؟

بنوں سے مقامی صحافی ضمیر عالم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب مظاہرین نے دریائے تونچی سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے انھیں روکا جس پر لانگ مارچ میں شامل بچوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ جواب میں پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

ضمیر عالم کے مطابق جانی خیل دھرنے کے مظاہرین بنوں کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے تو بنوں پولیس نے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے راستہ بند کر دیا تھا جس کے بعد پولیس کی جانب سے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور صوبائی وزرا کے علاوہ لکی مروت اور وزیرستان کے عمائدین اور مشران کا ایک جرگہ بھی مظاہرین سے مذاکرات کے لیے دنبے لے کر پہنچا ہے۔

بنوں سے صحافی محمد نعمان کے مطابق شہر میں کئی مقامات پر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان مظاہرین نے آج صبح نو بجے اپنے اعلان کے مطابق اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ شروع کیا تھا۔

محمد نعمان کے مطابق مظاہرین نے قتل کیے جانے والے لڑکوں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پر رکھی ہیں اور اس قافلے میں تقریباً 10 ہزار افراد کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہیں اور کئی افراد قافلے کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں۔

بنوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں کچھ مقامات پر موبائل نیٹ ورک کے علاوہ انٹرنیٹ سروسز بھی بند ہیں اور صارفین مشکلات کے شکار ہیں۔

دوسری جانب کوہاٹ پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا جب وہ مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے تھے۔

اطلاعات کے مطابق کرک پولیس نے ایم این اے محسن داوڑ کو بھی کرک ٹول پلازہ پر روک لیا ہے۔ محسن داوڑ بھی بنوں جانی خیل امن مارچ میں شرکت کے لیے آ رہے تھے۔

ڈپٹی کمشنر بنوں محمد زبیر نیازی نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ امن و امان کو بحال رکھے۔ ’ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ یہ کسی ایک مقام پر رک جائیں اور ان سے مذاکرات کیے جائیں۔‘

محمد زبیر نیازی نے دعویٰ کیا کہ ایک دو جو ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں وہ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے شرکاء کی طرف سے کیے گئے حملوں کے جواب میں امن و امان بحال رکھنے کی کوشش میں ہوئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر بنوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی مقام پر رکاوٹ نہیں کھڑے کر رہے ہیں۔

بی بی سی نے بنوں پولیس سے رابطے کے لیے بارہا کوشش کی ہے تاہم ہمیں ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

حکومت ہمارا راستہ نہ روکے

مظاہرین کی قیادت کرنے والے ایک مشر ملک موید خان وزیر نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بنوں پولیس کی جانب سے سڑکوں پر لگائی گئی کچھ رکاوٹیں ہٹائی ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اس وقت پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو روکا ہوا ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جاری ہے۔

ان کہنا تھا کہ قبائل پولیس ایکشن کے سبب سخت غصے میں ہیں اور مشران نے ان کو قابو کیا ہوا ہے۔ ’ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ نہ روکے، ہم پر امن لوگ ہیں اور احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے، یہ حق ہم سے نہ چھینا جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ مشران، حکومتی اور انتظامیہ کے نمائندے پہنچ چکے ہیں اور ان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ’جرگہ کامیاب ہوگا یا نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

ملک موید کا کہنا تھا کہ ’سات دن سے ہم لاشیں رکھ کر بیٹھے تھے اور ہمیں قتل ہونے والے لڑکوں کے بدلے پیسے لینے کا کہا جا رہا تھا لیکن ہم نے ان سب کو انکار کیا ہے کیونکہ ہمیں پیسے نہیں امن چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2009 سے اب تک ہم نے تقریباً 1000-1100 لاشیں اٹھائیں ہیں ’ہمارے نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کبھی کسی بہانے سے اور کبھی کسی بہانے سے مارا جا رہا ہے۔۔ ہم آئے روز لاشیں اٹھا رہے ہیں۔‘

ملک موید خان کا کہنا تھا کہ جانی خیل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور یہاں فوج کی 9-10 چیک پوسٹیں بنائی گئی لیکن امن پھر بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مطالبات بڑے واضح ہیں۔ ہمیں گڈ اور بیڈ طالبان کی ضرورت نہیں ہے یہ سب ایجنسیوں کی پیداوار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے سے فوج کی چیک پوسٹیں ختم کی جائیں پھر ہم خود اپنے علاقے میں امن قائم کر لیں گے۔‘

’چار قتل شدہ لاشیں زمین میں دفن ہوئی ملیں‘

پولیس کے مطابق چاروں لڑکوں کی عمریں تیرہ سال اور سترہ سال کے درمیان تھیں اور ان کی لاشیں جانی خیل کے علاقے میں ایک ندی کے قریب قبرستان سے ملی تھیں۔

ان لڑکوں کی شناخت احمد اللہ خان، محمد رحیم، رفعام اللہ اور عاطف اللہ کے ناموں سے کی گئی تھی۔

احمد اللہ کے چچا سبحان ولی نے بی بی سی کو بتایا کہ چاروں لڑکے شکار کے لیے گئے تھے، ان کے ساتھ کتے بھی تھے۔ لیکن لڑکے واپس گھروں کو نہیں آئے۔ ان لڑکوں کے رشتہ داروں اور علاقے کے لوگوں نے ان کی تلاش کی لیکن کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر ایک چرواہا اس علاقے میں مویشی لے کر گیا تو وہاں آوراہ کتوں نے زمین میں لاشوں کی نشاندہی کی جس پر اس بارے میں علاقے کے لوگوں کو بتایا گیا۔ اس اطلاع پر ان افراد کے اہل خانہ اور دیگر مقامی لوگ موقع پر پہنچے اور لاشوں کی شناخت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی ‘کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی انھیں معلوم ہے کہ ان لڑکوں کو کس نے مارا ہے’، اس لیے وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان قاتلوں کو منظر عام پر لایا جائے۔

ان لڑکوں کے بارے میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان لڑکوں کو شکار کرنے اور مقامی کھیل کھیلنے کا شوق تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ لڑکے اکثر چڑیا اور خرگوش کے شکار کے لیے چلے جاتے تھے۔

ان لڑکوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ایک کے والد کراچی میں اور دو کے والد مقامی سطح پر مزدوری کرتے ہیں۔ جبکہ ایک کے والد کی وفات ہوچکی ہے اور ان کے ایک بھائی روزگار کے لیے بیرون ملک کام کرتے ہیں۔

مقامی پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں ایسی اطلاع موصول ہوئی تھیں کہ مقامی لوگوں کو علاقے میں ایک قبرستان میں چار قتل شدہ لاشیں زمین میں دفن ہوئی ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق ‘ایک لاش کا سر نہیں ہے’ اور ‘باقی کی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔‘

پولیس نے احمد اللہ کے چچا کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور اب تک انھیں پتا نہیں چل سکا کہ لڑکوں کو کس نے قتل کیا ہے۔

’ہمارے علاقے میں اب یہ خون کا کھیل بند ہو جانا چاہیے‘

ضلع بنوں صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی سرحد پر واقع ہے۔ جانی خیل بنوں شہر سے کوئی 25 کلومیٹر دور واقع ہے اور اس کی سرحد شمالی وزیرستان سے ملتی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ‘اچھے اور برے شدت پسندوں کی اصطلاح کا استعمال عام ہے۔’

ان کے مطابق اچھے شدت پسند وہ ہیں جو ‘حکومت کے ساتھ’ ہیں جبکہ برے شدت پسند ‘حکومت کے خلاف’ بتائے جاتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ‘گُڈ طالبان اینڈ بیڈ طالبان۔‘

جانی خیل کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں تشدد کے واقعات ایک عرصے سے پیش آ رہے ہیں اور انھیں شکایت ہے کہ حکام اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے۔

ہلاک ہونے والے لڑکے احمد کے چچا ڈاکٹر سبحان ولی کا کہنا ہے کہ ‘اب یہ خون کا کھیل بند ہو جانا چاہیے۔’

انھوں نے کہا کہ 10 سال کے عرصے سے آئے روز کسی نہ کسی کے قتل کی اطلاع ملتی رہتی ہے لیکن اب ان ‘چار معصوم بچوں کے قتل نے پورے علاقے میں کہرام برپا کر دیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ جانی خیل میں ہر فرد غمزدہ ہے اور ہر انسان کی آنکھ میں آنسو ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس احتجاج میں ‘پورے علاقے کے لوگ پہنچ گئے ہیں۔’

خیال رہے کہ رواں سال فروری میں شمالی وزیرستان میں ان چار خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جو ایک غیر سرکاری تنظیم کے لیے کام کر رہی تھیں اور مقامی خواتین کو مختلف ہنر سکھاتی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp