محمد انور: پاکستانی نژاد اوبر ایٹس ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد خاندان کی جانب سے بنائے گئے ’گو فنڈ می‘ نے سات لاکھ ڈالر اکٹھے کر لیے


امریکہ

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک پاکستانی نژاد اوبر ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد ان کے خاندان کی جانب سے بنائے گئے ‘گو فنڈ می‘ پیج کے ذریعے ایک لاکھ ڈالر کے ہدف کے عوض اب تک سات لاکھ ڈالر سے زیادہ جمع ہو چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والے پاکستانی نژاد محمد انور ڈلیوری کمپنی اوبر ایٹس کے لیے ڈرائیور تھے اور کھانے کی ڈیلیوری کیا کرتے تھے۔ وہ چند روز قبل واشنگٹن کے علاقے نیشنل پارک کے قریب ایک کار چوری کے واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔ دو کم عمر لڑکیاں، جنھوں نے ان کی گاڑی چھیننے کی کوشش کی تھی، ان کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

گو فنڈ می صفحات کے ذریعے لوگ مختلف مقاصد کے لیے عوام سے عطیات اور مالی امداد طلب کرتے ہیں۔ محمد انور کی فیملی نے ان کی ہلاکت کے بعد ان کی اسلامی طرز سے تدفین اور آخری رسومات سمیت دیگر اخراجات کے لیے امداد مانگی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

’لوگ سمجھتے ہیں کہ والدین مسلمان ہیں اس لیے ہم بھی اسلام پر عمل پیرا ہوں گے‘

موت کے منھ میں مسکرانے والی فاطمہ علی کون تھیں؟

پاکستانی نژاد پولیس اہلکار کے لیے ‘آفریں آفریں’

محمد انور کی ہلاکت ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ان کے آخری لمحات کے دردناک مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔

انور کی موت کیسے ہوئی؟

متعدد مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ ہفتے محمد انور واشنگٹن ڈی میں نیشنل پارک کے قریب ایک اوبر ڈلیوری کر رہے تھے جب پندرہ اور تیرہ سالہ دو لڑکیوں نے ان کی گاڑی چوری کرنے کی کوشش کی۔

قریب میں کھڑے ایک عینی شاہد نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر شیئر کی۔

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چوری کے دوران دونوں لڑکیاں گاڑی کے اندر پہنچ چکی تھیں، جب محمد انور نے واپس لوٹ کر انھیں روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران لڑکیوں نے محمد انور کو ٹیزر کے ذریعے بیہوش کرنے کی کوشش کی۔

محمد انور گاڑی کو پکڑے کھڑے تھے جب لڑکیوں نے گاڑی دوڑا دی اور مقتول گاڑی کے ساتھ لٹکے رہے۔ چند سو گز کے بعد گاڑی فٹ پاتھ سے جا ٹکرائی اور الٹ گئی جبکہ محمد انور کئی فٹ دور جا گرے تھے۔

جائے حادثہ پر موجود نیشنل گارڈ کے اہلکاروں نے لڑکیوں کو گاڑی سے نکالا تاہم اس سے قبل کہ وہ وہاں سے فرار ہوتیں، ویڈیو بنانے والے عینی شاہد نے سب کو خبردار کیا کہ وہ گاڑی چوری کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں لڑکیوں نے اس واقعے سے قبل گاڑی کو چوری کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان لڑکیوں کے خلاف قتل، قتلِ خطا، کار کی چوری اور غیر قانونی ہتھیار (ٹیزر) رکھنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

دونوں لڑکیوں کو نابالغ کے طور پر مقدمات کا سامنا ہے اس لیے ان کی شناخت کو حکام ظاہر نہیں کر رہے۔

اوبر ڈرائیور انور کون ہیں؟

66 سالہ محمد انور 2014 میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ اور انھیں ایک پیار کرنے والے شفیق انسان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

محمد انور کی دردناک ہلاکت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور سارے واقعے کے مختلف پہلوؤں پر تنقید گی۔

کچھ صارفین نے اس عنصر پر بات کی کہ محمد انور ایک ایسے شخص تھے جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر مستقبل کے لیے وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں آ کر محنت کر رہے تھے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران کھانا پہنچانے کا انتہائی اہم کام کر رہے تھے۔

ان کی ہلاکت کے وقت واشنگٹن ڈی سی کی میئر میریئل باؤزر نے ایک ٹوئیٹ کی تھی جس میں انھوں نے گاڑی چوری کو روکنے کے حوالے سے ایک ویڈیو شیئر کی۔

تاہم بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے اسے وکٹم بلیمنگ (یعنی متاثرہ شخص کو ہی قصوروار ٹھہرانا) قرار دیا۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ گاڑی چوری واشنگٹن ڈی سی میں ایک وبا بن گئی ہے اور اس سے تحفظ کے لیے شاید ایک ہی راستہ ہے کہ آپ گاڑی نہ چلائیں۔

اس کے علاوہ ایک صارف نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اوبر ڈرائیور اگر اپنے لیے موت کی صورت میں انشورنس لینا چاہیں تو اوبر کو انھیں زیادہ پیسے دینا پڑتے ہیں۔ اوبر ڈرائیور کو قانونی طور پر کنٹریکٹ ملازم تصور کیا جاتا ہے اسی لیے اوبر پر لازم نہیں کہ وہ ان ڈرائیورز کو دیگر ملازمین کی طرح مکمل مراعات دے۔

اوبر کی جانب سے تاحال انور کی ہلاکت پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

لوگوں نے اس بات پر بھی تنقید کی ہے کہ واقعے پر کھڑے نیشنل گارڈ کے اہلکاروں نے محمد انور کی مدد کیوں نہیں کی۔

بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ انور جیسے افراد عالمی وبا کے دوران اصل ’ہیرو‘ ہیں اور ان جیسے لوگوں کی مدد سے کورونا وائرس سے متاثرہ شہروں میں بھی ڈیلیوری کا کام جاری رکھا جاسکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp