داؤد اور ثنا: لاہور کے محبت کرنے والے جوڑے کی کہانی میں نئی پیش رفت، کیا داؤد کو مصنوعی بازو لگانا ممکن ہو گا؟


لاہور

لاہور کے رہائشی داؤد شفیق گذشتہ برس ایک ایسے حادثے کا شکار ہوئے جس نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دی تھی۔ قینچی کے علاقے میں واقع اپنے گھر پر کام کے دوران انھیں بجلی کی تاروں سے اس قدر شدید جھٹکا لگا تھا کہ ان کا جسم آگ کی لپیٹ میں آ کر جھلس گیا تھا۔

ان کی زندگی بچانے کے لیے ڈاکٹروں کو ان کے بازو کاٹنے پڑے۔ پہلے ان کی ٹانگ گھٹنے سے نیچے اور بازو کہنیوں تک کاٹے گئے تاہم بعد ازاں ان کے بازو مکمل کاٹ دیے گئے۔

حال ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے داؤد نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے ان سے کہا تھا کہ ’بازو تو پھر بھی لگ سکتے ہیں، ہم اس کے جسم میں جان نہیں ڈال سکتے۔‘ بازو کٹ جانے کے بعد خود کو دیکھ کر داؤد سخت مایوس ہوئے تھے۔

انھیں یہ لگتا تھا کہ اب وہ ثنا مشتاق کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ تاہم ثنا اپنے خاندان کی مخالفت اور داؤد کے سمجھانے کے باوجود سب کچھ چھوڑ چھاڑ ان کے پاس چلی آئیں اور اب وہ دونوں شادی کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’دونوں بازو، ٹانگ کٹ گئی تو میں نے سوچا کیا وہ مجھے چھوڑ دے گی؟‘

سال بدلا، دن بھی کچھ بدلے، لیکن مٹھو کی مٹھی کے لیے محبت نہیں بدلی

’اللہ پاک نے لاکھوں میں ایک دی ہے میری بیوی‘

ایک ہندو اور مسیحی عورت کی دوستی، جو ایک ہی شخص سے پیار کرتی تھیں

ثنا اور داؤد کی عمریں 20 اور 21 برس کے لگھ بھگ ہیں۔ وہ دونوں داؤد کے لیے ایک ایسی زندگی چاہتے ہیں جس میں وہ نہ صرف روزمرہ کے کام خود کر سکیں بلکہ اپنے خاندان کے لیے روزگار بھی کما سکیں۔

لاہور

اس بات کے کتنے امکانات موجود ہیں کہ داؤد کو ایسے بازو ملیں جن کی مدد سے وہ اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار پائیں؟

اس کے حصول کے لیے ان کی امیدیں اس یقین سے وابستہ ہیں کہ داؤد کو ایسے مصنوعی بازو لگائے جانے ممکن ہیں جن کو حرکت دے کر وہ اپنے کام کر پائیں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے داؤد کے پہلو میں بیٹھی ثنا نے کہا تھا کہ ’داؤد کے بازو لگ جائیں اور یہ میرے آس پاس رہیں، بس مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘ تاہم اس بات کے کتنے امکانات موجود ہیں کہ داؤد کو ایسے بازو ملیں جن کی مدد سے وہ اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار پائیں؟

پاکستان ہی میں بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جن کے بازو کرنٹ لگنے یا مشینوں میں آ جانے جیسے حادثات کے باعث کٹ گئے تھے۔ ان میں سے کئی افراد مصنوعی بازو حاصل کرنے کے بعد آج کچپ موٹر سائیکل چلا رہے ہیں تو کچھ رکشہ چلا رہے ہیں۔

پاکستان کے شہر کراچی میں ’بائیونکس‘ کے نام سے کام کرنے والی ایک کپمنی کے بانی انس نیاز نے حال ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان افراد کے لیے بازو مقامی طور پر تیار کیے گئے تھے۔ ان بازوؤں کو بائیونک آرمز یا حیاتی مصنوعی بازو کہا جاتا ہے۔

مصنوعی بازو

بائیونک بازو کیا ہیں، کیسے کام کرتے ہیں؟

انس نیاز کے مطابق ’بائیونک بازو انسان کے دماغ کے ساتھ مطابقت میں کام کرتے ہیں اور دماغ کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کے مطابق حرکت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘

جسم پر بازوؤں کے جس حصے تک دماغ سے پیغامات موصول ہو رہے ہوتے ہیں اس مقام پر مصنوعی سینسر لگائے جاتے ہیں۔ یہ سینسر پیغام موصول کر کے ایک خاص قسم کے آلے تک پہنچاتے ہیں۔

مصنوعی بازو میں نصب اس آلے کی مدد سے ایک مخصوص پروگرام کے ذریعے یہ پیغامات ان موٹروں تک پہنچتے ہیں جو بازو سے جڑے ہاتھ اور ان کی انگلیوں وغیرہ کو حرکت دیتی ہیں۔ یوں دماغ سے موصول ہونے والے پیغامات کے ردِ عمل میں بازو مطلوبہ حرکت کرتا ہے۔

مصنوعی بازو

بائیونک بازو کتنے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں؟

بائیونکس کراچی کے بانی انس نیاز کے مطابق یہ مصنوعی بازو صد فیصد قدرتی بازو جیسا کام تو نہیں کر سکتے تاہم یہ متاثرہ شخص کی زندگی کافی حد تک آسان بنا دیتے ہیں۔ ’یہ بنیادی طور پر ایک آلہ ہے جسے استعمال کر کے آپ روزمرہ زندگی کے کئی کام کر سکتے ہیں۔‘

انس کے مطابق اس آلے کو مشقوں کے ذریعے کئی کام کرنے سکھائے جا سکتے ہیں۔ یہ متاثرہ شخص پر منحصر ہے کہ وہ اس کا کس حد تک استعمال کرتا ہے اور اس سے کس قسم کے کام کرنا سکھا سکتا ہے۔

’پوری طرح سے انسانی بازو کی طرح اس مصنوعی بازو کو بنانا اس لیے ممکن نہیں کہ یہ اس قدر وزنی ہو جائے گا کہ اس شخص کے لیے اس اٹھانا بھی مشکل ہو گا۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اب تک 80 سے زائد افراد کو ایسے بازو دے چکے ہیں اور وہ اب ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

تاہم تاحال انھوں نے جتنے افراد کو بائیونک بازو لگائے ہیں وہ تمام ایسے افراد تھے جن کے بازو کہنی سے نیچے سے کٹے تھے یعنی ان کے بازوؤں پر کہنیوں کے جوڑ موجود تھے۔ جبکہ داؤد اور ان جیسے دیگر افراد کے بازو کندھوں سے ہی نہیں تھے۔

مصنوعی بازو

کہنی نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟

بائیونکس کے بانی انس نیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ بائیونک بازوؤں میں سب سے بڑا مسئلہ انگلیوں کو حرکت دینا ہوتا ہے۔ تاہم وہ پہلے ہی سے اس کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی حاصل کر چکے تھے۔ ‘داؤد کے لیے مصنوعی بازو پر انگلیوں حرکت دینا مشکل نہیں ہے، وہ تو ہم دوسرے روز ہی کر سکتے ہیں۔’

مسئلہ یہ ہے کہ ان کا کہنی کا جوڑ ہی موجود نہیں ہے۔ ان کے لیے کہنی کا جوڑ بھی بنانا پڑے گا جس کے لیے پاکستان میں پہلے سے کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔

‘کہنی کا جوڑ تیار کرنا ایک انتہائی تحقیق طلب کام تھا۔ پاکستان میں کوئی بائیونک بازو ہی نہیں بنا رہا تو پاکستان میں کہنی کے جوڑ والا مصنوعی بائیونک بازو بنانا تقریباً نا ممکنات میں سے تھا۔’

پاکستان میں کس قسم کے مصنوعی اعضا مل سکتے ہیں؟

پاکستان میں مقامی طور پر ایسے بیشمار ادارے موجود ہیں جو اعضا سے محروم ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔ تاہم ان میں زیادہ تر ادارے ایسے ہیں جو متاثرہ افراد کو مصنوعی اعضا کے بغیر زندگی گزارنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

حکومت اس نوعیت کی جدت کو مقامی طور پر فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات لے رہی ہے، اس حوالے سے بی بی سی نے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔

چند ادارے مصنوعی اعضا کے حصول میں ایسے افراد کی مدد کرتے ہیں جن کے لیے ان کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پاکستانی افواج کا ایک اداراہ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف ریجینیریٹو میڈیسن یعنی اے ایف آئی آر ایم موجود ہے۔

اے ایف آئی آر ایم کے شعبہ مصنوعی اعضا کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ادارے میں ایسے افراد کو مصنوعی اعضا لگائے جاتے ہیں جو حادثات کا شکار ہوئے ہوں۔ ان میں پاکستان کی افواج سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ عام افراد بھی شامل تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس کے لیے ڈاکٹروں پر مشتمل ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے جو انفرادی طور پر مریض کو درپیش مسئلے کا جائزہ لیتا ہے اور اس کے مطابق اسے اعضا لگانے کا فیصلہ کرتا ہے۔‘

وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے اس لیے انھوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے معذرت کر لی۔ وہ یہ بھی نہیں بتا پائے کہ کیا لگائے جانے والے اعضا مقامی طور پر تیار کیے جاتے تھے یا باہر سے منگوائے جاتے تھے۔

مصنوعی بازو

تو کیا داؤد اور ان جیسے افراد کے لیے بائیونک بازو ممکن نہیں تھے؟

بائیونکس کے بانی انس نیاز کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ داؤد کے لیے پاکستان کے اندر ہی بائیونک بازو تیار کیے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا ادارہ گذشتہ کئی برس سے کہنی کا جوڑ بنانے یا پورا بائیونک بازو بنانے کے امر پر تحقیق کر رہا تھا جو اب تکمیل کے قریب تھی۔

’ہمیں لگھ بھگ ایک ماہ کا عرصہ مزید درکار ہو گا جس میں ہم یہ ٹیکنالوجی حاصل کر لیں گے اور کہنی کا جوڑ بنا کر بائیونک بازو تیار کیا جا سکے گا اور اس کے بعد ہم داؤد اور ان جیسے کئی افراد کی مدد کر سکیں گے جو اس کے منتظر ہیں۔‘

انس نیاز کے مطابق اس کے بنانے کے لیے جن موٹروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ مقامی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے درکار پرزہ جات کا حصول پاکستان میں قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔’

ان کی شکایت تھی کہ پاکستان کی حکومت اس حوالے سے ان جیسے ہنر مند افراد کی مدد نہیں کرتی جو ایسے جدید آلات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=xMXuoLpeFVs

‘باہر سے بائیونک بازو منگوانا ایک طریقہ ہے مگر۔۔۔’

داؤد اور ان جیسے افراد کے لیے بائیونک بازو حاصل کرنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ یہ بازو بیرونی ممالک سے منگوا لیے جائیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں انتہائی اچھی نوعیت کے مصنوعی اعضا دستیاب ہوتے ہیں۔

تاہم انس نیاز کے مطابق ان اعضا کی قیمت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ ’زیادہ تر پاکستان میں جو بازو لگتے ہیں وہ باہر سے منگوائے جاتے ہیں تاہم ایک عام سے مصنوعی بازو کی قیمت کئی ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘داؤد جیسے شخص کے لیے تو یہ اور بھی زیادہ مہنگے ہوتے ہیں اور ان کی قیمت 50 ہزار ڈالر تک جا سکتی ہے۔‘ اس کے مقابلے میں وہ جو بازو مقامی طور پر تیار کر سکتے ہیں اس کی قیمت دس سے بیس لاکھ روپے تک ہو گی۔

ان کا دعوٰی ہے کہ ان کے تیار کیے گئے مصنوعی بائیونک بازو باقی دنیا میں میسر بازوؤں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہلکے پھلکے تھے۔

ایسا بازو لگوانے والے کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟

بائیونکس کراچی کے بانی انس نیاز کے مطابق کیونکہ تاحال وہ صرف کراچی میں موجود ہیں تو زیادہ تر افراد انھیں واٹس ایپ کے ذریعے اپنی ویڈیو بھیجتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کیا اس شخص کو مصنوعی بازو لگایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔

اس کے بعد انھیں کراچی آنے کا وقت دیا جاتا ہے۔ کراچی میں ان کی پیمائش وغیرہ لی جاتی ہے اور ان کے پٹھوں کی ہیت وغیرہ کو جانچا جاتا ہے۔ ’ہم نے ایسے سینسر بنا رکھے ہیں جنھیں لگانے کے لیے سرجری درکار نہیں ہوتی۔‘

تقریباً دو ہفتے تک مریض کو کراچی میں رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اس دوران اس کی جسمانی ساخت کے مطابق اس کو بائیونک بازو لگایا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے اس بازو کو استعمال کرنے کی بنیادی تربیت دی جاتی ہے۔

انس کے مطابق ہر دو برس کے بعد اس کے بازو کا معائنہ کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں لائی جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp