رمضان میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پھر عروج پر؟


پاکستان اس وقت ایک ایسے نازک دور سے گزر رہا ہے جب مہنگائی نے ہر طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی مشینری افراط زر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور ساکت و جامد دکھائی دیتی ہے۔ مہنگائی کے بھونچال کو کم کرنے کے لیے کوئی نظم و نسق قائم نہیں کیا جا سکا ہمارے وزیر اعظم کا یہ ریکارڈ بن چکا جس چیز پر ایکشن لیتے اس کا بحران مزید بڑھ جاتا ہے اور اس کے دام میں مزید اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔

جہاں ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہے وہیں اشیاء خورونوش عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ گراں فروشی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی پرسان حال نہیں حالات کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ منافع خور تاجروں نے اکتناز و ذخیرہ اندوزی کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان ہی تاجروں کو مہنگائی سے گلہ ہے اور چاہتے ہیں کہ ان کی غم گساری بھی کی جائے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ حلال طریقے سے رزق کمانے والوں کی خوشحالی کو جمود لگانے والا بھی یہ ہی ذخیرہ اندوز مافیا ہے۔

نبی آخر زمان ﷺ نے اکتناز و احتکار سے منع فرمایا ہے اور معاشی اعتدال کا درس دیا ہے۔ رحمت العالمین نے تو رزق کے حصول کے طیب اصول بتلائے ہیں اور امت کو خرابی میں پڑنے سے روکا۔ تجارت ایک مستحسن پیشہ ہے لیکن مافیاز نے اس شعبے کو پراگندہ کر دیا ہے۔ میں مستنبط ہوں کہ اگر یہ تجارت میں بے ایمانی و دھوکہ دہی سے کام لینے والے عدل سے چلیں تو مہنگائی کا جن با آسانی قابو آ سکتا ہے۔ یہ بات درست کے عالمی ادارے بھی مہنگائی میں اضافے کا موجب بنے ہیں لیکن کیا ہم خود اپنے ساتھ مخلص ہیں؟

آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2021 ء میں گلوبل جی ڈی پی کو 9 ہزار ارب ( 9 ٹریلین) ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے جبکہ پہلے ہی اعداد شمار کے مطابق 5.8 فیصد عالمی معیشت سکڑ سکتی ہے۔ اس نازک دور میں جب دوا بھی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے اور امراء اور اشرافیہ ذخیرہ اندوزی کرتے چلے جا رہے ہیں اور متوسط طبقہ پستا چلا جا رہا ہے۔ تجارت ایک مستند پیشہ ہے جس کو بنی نوع انسان کے لیے منفعت بخش ہونا چاہیے۔ من حیث القوم میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

عدل کے ساتھ تجارت و ترسیل کرنے والے اگر امانت داری کو شعار بنا لیں تو ان کے لئے سرور کونین ﷺ نے بہت خوبصورت بشارت دی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا“ ۔ ترمذی، السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار، 3 : 515، رقم: 1209۔ من حیث القوم ہم اتنی اخلاقی تنزلی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمیں بڑے سے بڑا جرم بھی کوئی بڑی بات نہیں لگتا۔ مافیاز رمضان کے دنوں میں کورونا وبا کی تیسری لہر کا لحاظ کیے بغیر مہنگائی کو انگیخت دلانے کا منصوبہ تیار کیے بیٹھے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کر کے اشیا ء خورونوش کو عوام کی پہنچ سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی تاجروں کے متعلق سخت و عیدیں موجود ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تاجر فاسق و فاجر اٹھیں گے مگر یہ کہ جنہوں نے پرہیزگاری ’بھلائی اور سچائی سے کاروبار کیا ہو (تو وہ اس حالت میں نہیں اٹھیں گے ) ۔ ”۔ ابن حبان، الصحیح، 11 : 277، رقم: ( 4910 )

جہاں تاجروں کو کوئی خوف خدا کرنا چاہیے وہیں حکومت کا بھی فرض ہے کہ عوام کو سبسڈی دے اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کورونا کہ پیش نظر رمضان بازار لگانے ہیں یا نہیں۔ میں یہ وقت کی ضرورت سمجھتا ہوں کہ حکومت کو ریلیف مہیاء کرنے کا کچھ متبادل ذریعہ نکالنا چاہیے یہ ناگزیر ہے کیونکہ عوام الناس پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آچکے ہیں عوام کا دو وقت کی روٹی کی فکر نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔ پر تعیش محلات میں بیٹھے حکمرانوں کے اغراض و مقاصد میں یہ بات سرے سے شامل ہی نہیں کہ غربت سے نبردآزما عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ معاشرتی امتیازات سے باہر آ کر ملت کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے کیونکہ مجموعی کوششیں کرنے سے ہی ان مشکلات سے چھٹکارا ممکن ہے۔

بقول شاعر منظر بھوپالی
مہنگائی سجی ہے دکانوں پر
بھوک چھائی ہے مکانوں پر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments