بلدیاتی اداروں کی بحالی


بالآخر پی ٹی آئی کی نا اہلی نے اس کو ایک مرتبہ پھر شرمندگی سے دو چار کر دیا ہے۔ ملک بھر میں سینکڑوں بلدیاتی ادارے سپریم کورٹ نے بحال کر دیے ہیں۔ ان اداروں کی سربراہی زیادہ تر مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔ تحریک انصاف کے پاس بلدیاتی اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبے میں موجود چھتیس ضلع کونسلوں میں سے صرف ایک ضلع کونسل پی ٹی آئی کے پاس ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کو سن کر سابقہ بلدیاتی ممبران بھی ہکا بکا رہ گئے۔ کوئی بھی اس فیصلے کی امید نہیں کر رہا تھا مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے اس فیصلے کو ممکن بنایا۔ عدالت کے معزز جج صاحبان بار بار الیکشن کمیشن سے نئے الیکشن کی تاریخ مانگتے رہے۔ الیکشن کمیشن حکومت کو لکھتا رہا کہ نئے قانون کے تحت حدبندیاں مکمل کی جائیں مگر حکومت آئیں بائیں شائیں کرتی رہی۔ الٹا معزز عدالت کو تاریخ پر تاریخ دی جاتی رہی۔

بہانے بازیاں کر کر کے ججز صاحبان کو زچ کیا گیا۔ نئے بلدیاتی قانون کے تحت الیکشن کرانے میں مجرمانہ غفلت کی گئی۔ حالانکہ دو سال تک عدالت نے معاملہ نظر انداز کیے رکھا۔ پیٹیشنر بھی تھک ہار کر نئے الیکشن کے منتظر تھے۔ مگر گورنمنٹ کے اور بہت سے بلنڈرز اور ناکامیوں کی طرح اس معاملے میں بھی کسی ذمہ دار کا تعین نہیں ہو گا۔ ذمہ داران اپنے اعلی عہدوں پر بدستور براجمان رہیں گے۔ اور اس طرح کا کوئی نیا معرکہ سر کریں گے۔

ایسے موقع پر سابقہ چیف منسٹر یاد آتے ہیں جو ایسے بلنڈرز کرنے والوں کو چن چن کر ٹھکانے لگاتے تھے۔ اب تو لگتا ہے وزیر اعظم کے علاوہ کسی سیاسی یا بڑے سول سرونٹ کو اس حکومت کی نیک نامی سے کوئی غرض نہیں ہے اور ایسے ایسے فیصلے کروائے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے وفادار ترین کارکن بھی انگلیاں دانتوں میں دبائے بیٹھے ہیں۔ یہ فیصلہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا ہو یا پرائیویٹ سیکٹر کو ویکسین کی درآمد کی اجازت دینے کا، کسانوں پر ناروا بجلی ٹیکس لگانے کا یا حفیظ شیخ کو الیکشن لڑوانے کا۔

الیکشن نہ ہو سکنے کا ایک سبب خود نیا بلدیاتی ایکٹ دو ہزار انیس بھی تھا۔ اس کو تیار کرنے والے ارسطو وں نے ایک عجیب قسم کا نظام تخلیق کیا۔ بلدیات کا سب سے بڑے ادارے ضلع کونسل کو سرے سے غائب کر دیا گیا جہاں ضلع کے تمام علاقوں کے نمائندے منتخب ہو کر ضلع کی مربوط ترقی پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ یہ ایک سو ساٹھ سالہ ادارہ ختم کر کے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تحصیل کونسلیں بنا دی گئیں۔ مگر ضلع کونسل کے اثاثوں کی تقسیم دو سال تک نہ کی جا سکی۔

اس طرح دیہاتوں سے یونین کونسلیں ختم کر کے ویلیج کونسلیں بنا دی گئیں جو تعداد میں تین چار گنا ہونے کی وجہ سے نہ تو دفاتر حاصل کر پائیں نہ ہی عملہ۔ اس طرح مئیر کے الیکشن کو ڈایئریکٹ ووٹنگ کے تحت مشروط کیا گیا اب لاہور کے لارڈ مئیر کو ایک کروڑ ووٹرز میں کمپین چلانی تھی جو انتہائی غیر حقیقت پسندانہ ہوتا۔ ان معاملات کا نوٹس سپیکر اور سابق وزیراعلی چوہدری پرویز الہی نے لیا اور وزیراعظم کو باور کرایا کہ اگر الیکشن کروانے ہیں تو اس قانون میں فوری ترامیم درکار ہیں۔

وزیراعظم اور وزیر اعلی کی ہدایات کے باوجود پنجاب کی ٹیم اس کام کو بروقت پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی۔ ڈسکہ میں شرمندگی سے دوچار کرنے والی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر ایک نیا چاند چڑھا دیا ہے۔ دو سال تک الیکشن نہ کرانا آئینی ذمہ داری سے پہلو تہی تھی۔ وزیراعظم کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ الیکشن کو ٹالنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ حکومت کو خوف زدہ رکھا گیا کہ الیکشن کی صورت میں پی ٹی آئی ہار جائے گی حالانکہ پی ٹی آئی کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔

اس ڈراوے کے پیچھے کچھ لوگوں کے مفادات تھے۔ پارلیمینیٹیرین نہیں چاہتے تھے کہ ترقیاتی کام ان کے ہاتھ سے نکل کر بلدیاتی نمائندوں کے پاس چلے جائیں۔ پاکستانی سیاست میں کامیابی کے لئے اس طرح کے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح سول سرونٹس بھی ان اداروں کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ انتظامیہ کے کافی اختیارات جو پہلے ہی عدلیہ اور پولیس کو منتقل ہو چکے ہیں اب ان اداروں کے ہاتھ سے جانے کے بعد ضلعی انتظامیہ ایک بے اثر ادارہ بن سکتا ہے۔

تاہم گورنمنٹ کے لئے ابھی کچھ تسلی کا سامان بھی موجود ہے۔ ایک تو یہ ادارے دسمبر دو ہزار اکیس کو اپنی مدت پوری کر کے تحلیل ہو جائیں گے۔ دوسرا مسلم لیگ نون نے دو ہزار تیرہ کا ایکٹ بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ ان اداروں کو کمزور اور بے وقعت رکھا جائے۔ ان اداروں سے کافی سارے اختیارات لے کر خودمختار کمپنیاں اور اتھارٹیاں بنا دی گئی تھیں جن میں بلڈنگ کنٹرول، صفائی، ایڈورٹائزمنٹ، پارکس اور ہارٹیکلچر، حتی کہ مویشی منڈیاں لگانے تک کی کمپنیاں بنا دی گئیں۔ جن کے سربراہ یا تو ایم پی ایز کو بنا یا گیا یا سول سرونٹس کو۔ مسلم لیگ نون کے اپنے دور میں بھی یہ بلدیاتی نمائندگان اختیارات اور فنڈز سے محروم رہے تھے اور اب بھی ان کو کچھ نہیں مل پائے گا۔ مگر گورنمنٹ کو اپنی نالائقی کی وجہ سے جو سبکی اٹھانی پڑی ہے اس کی مثال لانا بہت مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments