راگنی کی کھوج


”راگنی کی کھوج“ نجیبہ عارف جیسی بلند پایہ ادیب اور شاعرہ کے کمال فن کا شاہکار ہے۔ کتاب کوئی تین ماہ پہلے ملی۔ سچی بات ہے نام کچھ کچھ پراسراریت لیے ہوئے تھا۔ گو میں اس عنوان کے تحت مبین مرزا کے جریدے ”مکالمہ“ میں اس کی دو قسطیں پڑھے بیٹھی تھی۔ ایک آپ بیتی سے متعلق دوسرے میں نجیبہ کے اندر کی بے چینی اس کا اضطراب، تجسس اور کھوج کی خواہش نمایاں تھی۔ میری پرورش وہابی گھرانے کی تھی مگر ایک تو میں بڑی باغی قسم کی لڑکی دوسرے گھر والوں میں بھی کچھ معاملات میں کٹر پن نہیں تھا۔

تاہم بابوں وابوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ ”شہاب نامہ“ میری پسندیدہ ترین کتاب ہوتے ہوئے بھی اس کا نائٹی والا قصہ مجھے ہمیشہ ایک افسانہ ہی لگا۔ ہاتھ نے جب کتاب تھامی۔ ٹائیٹل متوجہ کرنے والا تھا۔ کچھ سوال اٹھاتا تھا۔ پشت پر بلند قامت ادیب کی تحریر تھی۔ ”قوسین“ نے اسے چھاپا تھا۔ کاغذ طباعت ہر چیز بولتی تھی کہ اندر کچھ بہت خاص ہے۔ میری ایک گندی عادت ہے کہ میں کتاب کو مرحلوں میں پڑھتی ہوں۔

پہلے پھولا پھرولی، اس عمل میں اگر کسی عنوان نے پکڑ لیا تو بس لم لیٹ ہونا پہلی شرط۔ غرق ہونا دوسری، بشرط کہ وہ غرق کرنے والی ہو۔ یہاں ہر چیز غرق کرنے والی نظر آتی تھی۔ آلاپ اور سلیم الرحمن کی تحریر نے واضح کر دیا تھا کہ کتاب بڑی وکھری ٹائپ کی ہے۔ اسی لیے تمہید کے بعد عادت کے برخلاف پہلا باب ’ڈگر پنگھٹ کی‘ لیٹ کر پڑھنا شروع کیا۔

بابوں سے چاہت اور ان کا ظہور خیر سے پہلی لائن سے ہی ہو گیا تھا۔ ممتاز مفتی بھی اسی قبیلے سے ہیں۔ دوسری لائن سے وہ بھی بڑی شان سے اندر آ دھمکے تھے۔ سوال جواب جاننے کی تڑپ، تحریر کی چاشنی، رنگینی اور شگفتگی میں کیا غضب کا بانکپن تھا کہ سارا وجود جیسے سرشاری میں بھیگنے لگا۔ بھیگتی چلی جا رہی تھی کہ یک دم جیسے کرنٹ لگا۔ کتاب ہاتھ سے گری اور سینے پر پڑی۔ اٹھارہ لفظوں پر مشتمل نجیبہ کے شوہر عارف کا صرف ایک جملہ سارے کمرے میں گونجنے لگا تھا۔

”میں تو تمہیں خدا کے حوالے بھی نہ کروں اور تم کسی انسان سے بیعت کر آئی ہو۔“ ساتھ ہی سوچوں کا در بھی کھل گیا تھا۔ خدا بڑا ڈاہڈا ہے مگر انسان بھی کیا شے ہے؟ محبت کے جنون میں اسے بھی چیلنج کر بیٹھتا ہے۔ مگر عارف نجیبہ کا شوہر ہے اور کیا کوئی شوہر بیوی سے ایسی شدید محبت کا دعوے دار بھی ہو سکتا ہے۔ عارف سے مل چکی تھی۔ نجیبہ کو جانتی ہوں۔ سچائی سے انکار کی گنجائش کہاں تھی؟ کتاب تو ہاتھ سے چھٹ گئی تھی اور جملہ چہار جانب رقصاں تھا۔

اس سے آگے پڑھا ہی نہیں جا رہا تھا۔ آنکھیں بند کیں بس تو کب نیند میں چلی گئی نہیں جانتی۔ رات کے تیسرے پہر آنکھ کھلی تو کتاب کو دائیں بائیں دیکھا۔ سارا کمرہ پاگلوں کی طرح چھان مارا۔ کتاب غائب تھی۔ دونوں بیٹے پڑھنے کے شوقین ہیں۔ بڑا والا تو خیر سے بابوں کا بھی بڑا دلدادہ ہے۔ وہ لے گیا ہوگا۔ اب رات کے تین بجے اس کے پورشن میں جاکر اسے جگاؤں اور اس کی بیوی سے سنوں ”اے ہے بڈھی پاگل ہو گئی ہے کیا؟“ ۔ نہیں ایسا تو ہر گز نہیں کرنا۔ چلو خیر صبر کرتی ہوں ایک آدھ دن میں مل ہی جائے گی، مگر کتاب آگے سے آگے چلنے لگی تھی بچپن کی مزیدار کہانی ”جوں“ کی طرح۔

پورے ڈھائی ماہ بعد اس ماہ رخ کو میں کن جتنوں سے گھر لائی اس کی تفصیل چنداں خوشگوار نہیں۔ اس کے پڑھنے والے پرستاروں نے اسے جیسے چوم چوم اور چاٹ چاٹ کر یوں بے حال کر دیا تھا کہ آخری حصہ جابجا زخموں سے نڈھال ٹیپ کی پٹیوں سے جکڑا پڑا تھا۔ تپ چڑھ گئی تھی مجھے۔ بیٹے کو بے نقط سنائیں۔ وہ زیر لب مسکرایا اور بولا ”اس کتاب کا پڑھنا خاص و عام کے لیے کار ثواب ہے۔ نجیبہ کوئی عام مصنفہ نہیں، سچی اور خالص لکھاری ہے۔

فہم و ادراک کی دولت سے لبالب بھری ہوئی۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں عجیب سا تاثر بکھرا ہوا تھا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ بہت چھوٹی سی عمر سے اس نے انگریزی اور اردو کا سنجیدہ ادب پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اردشیر کاؤس جی سے پیار کرنے والا۔ مجھے یاد ہے جس دن وہ فوت ہوئے وہ یوں ہاتھ ملتا تھا جیسے اس کے ہاتھ میں پکڑا کوئی قیمتی ہیرا زمین پر گر گیا ہو۔ فکر نہ کریں ریڈنگز سے نئی لے آؤں گا یہ تو ہماری لائبریری میں ہونی چاہیے۔ ”کہتے ہوئے وہ باہر نکل گیا تھا۔

کتاب کو کھولا۔ قاضی احمد سعید کے کلینک کا احوال، ان کی شخصیت کار نیکی کی تفصیلات اور خود اس میں نجیبہ کا شامل ہونا۔ اللہ کے پسندیدہ لوگوں میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہوتا ہے وہ سب اس شخصیت میں موجود تھے اور جنہیں نجیبہ نے عقیدت کے رنگ میں گھل کر نہیں سچائی اور حقیقت کی روشن آنکھ سے۔ لکھا اسی حق سچ کی آنکھ سے اس نے اپنے والد کو دیکھا۔ کہیں نشتر ان کی ذات میں اتارا اور کہیں محبت و پیار کے ساگر میں نہلایا۔ میرے بیٹے کا خیال ہے کہ وہ تو جماندرو ( یعنی بچپن ہی سے ) بابا تھے۔

پڑیاں باندھنے کے عمل میں خلق خدا کی خدمت کا جذبہ خود نجیبہ کے اندر تھا یا درانی سلسلے کی یہ اپنے معتقدین کے نفس کی تربیت کا جزو تھا۔ اس کا مجھے تب علم نہیں تھا۔ ہاں البتہ اب سیما پیروز سے معلوم ہوا کہ اس کے بھانجے بھی یہ کام کرتے تھے۔ روبینہ قزلباش اپنے اور اپنے خاندان بارے، درانی صاحب کی حیاتی تفصیلات، ان کے افکار، زندگی کی گھمن گھیریوں میں خدا اس کے برگزیدہ بندوں کے معجزات سب ایک سحر زدہ سی کیفیات میں سے انسان کو گزارتے ہیں۔

درانی صاحب کو خط لکھنے والے کام کا ذکر کرنے سے پہلے نجیبہ نے اپنے اسکول کے زمانے میں سہیلی کو رقعہ لکھنے کی جو دلچسپ تفصیل لکھی ہے وہ قاری کو احساس دلاتی ہے کہ مصنفہ اپنی سرگزشت کو حسین بنانے کے فن پر کامل دسترس رکھتی ہے۔

کتاب ایک منجھی ہوئی تخلیق کار کا شاہکار ہے۔ حد درجہ دلچسپ ذات اور سماج کے چھوٹے چھوٹے دلچسپ واقعات کے ساتھ چلتی، روانی کی طرح بہتی، کہیں آپ کو مسکرانے پر مجبور کرتی، کہیں آپ کو غمگین کرتی، کہیں خود آپ کو الجھن میں ڈالتی، کہیں آپ سے اختلاف کرتی، فہم و دانش اور اسرار کے جہان آپ پر کھولتی ہے۔

سلیم الرحمن جیسے مایہ ناز ادیب کے اس بیان کی مکمل تائید کرتی ہوں کہ میں نے بھی نجیبہ کی کتاب کو ناول کی طرح پڑھا ہے اور واقعی یہ جانی ہوں کہ اس کے پرسرار کردار اور واقعات اپنی انفرادیت کے باعث بے حد انوکھے اور سچے ہیں۔ روشنی اے روشنی نے مجھے ایک بار پھر چونکایا تھا۔ ذہن میں جیسے کھلبلی سی مچ اٹھی تھی۔ 1963 اور 64 کے دن جیسے سامنے آ کر ناچنے لگے تھے۔

باغبان پورہ کی معروف میاں فیملی کی بیٹی شوکت مطلوب جو ایک کنڈر گارڈن سکول چلاتی تھیں اور جہاں میں نے ایک سال ملازمت بھی کی تھی۔ سیما پیروز کی ممیری بہن، ان کے اسکول میں درانی صاحب کا دنوں کیا ہفتوں ٹھہرنا، آخری بڑے ہال نما کمرے میں ذکر کی محفل کا منعقد ہونا۔ لاہور کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایلیٹ کلاس خواتین کا وہاں آنا اور اس محفل میں شامل ہونا سب منظر ایک کے بعد ایک آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے تھے۔ لاہور کالج کی ایک پروفیسر کا ”میرا پیا گھر آیا“ گنگناتے ہوئے برآمدے میں سے گزرتے ہوئے جانا تو آج بھی نظروں کے سامنے ہے۔

کرید مجھے بھی بہت رہتی تھی۔ مگر یہ نجیبہ کی کرید سے بہت مختلف تھی۔ احساس کمتری کی ماری ہوئی لڑکی جس کے ہاں شعور اور فہم و ادراک کی شدید کمی تھی جو اندر کے حسن کی بجائے ظاہر کو دیکھتی تھی۔ میری کرید دنیا داری والی کرید تھی۔

عبید اللہ خان درانی سانولے رنگ کے درمیانی قامت کے ایک غیر متاثر کن شخصیت کے حامل انسان تھے۔ جنہیں میں نے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا تھا۔ میری توجہ کا مرکز تو وہ ماڈرن خواتین اور مرد تھے اعلیٰ ملبوسات، خوشبوؤں اور شان بے نیازی کے خول میں لپٹے ہوئے۔ میری ملازمت بس یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے تک ہی تھی۔ مگر بعد میں گاہے گاہے خبریں تو ملتی رہتی تھیں۔ عشق و محبت، طلاق، شادی و محبت میں ناکامیوں کی خالص دنیا داری کے چسکے والی خبریں۔ یہ راز تو کہیں بہت بعد میں خود پر کھلے کہ یہ سب تو انسانی جبلتیں ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں ظہور پذیر ہونا ہی ہے۔ دین داری کی محفلوں کو ان سے جوڑنا تو ذہنی کم مائیگی اور پس ماندگی کی علامت ہے۔ نبیوں ولیوں کی مثالوں کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ تاہم اس بیچ والے معاملے پر دل کبھی راضی ہی نہیں ہوا۔

ادھر ادھر انسانوں کی اس رنگا رنگی میں نجیبہ جیسے لوگ جو مضطرب روح کیا؟ کیوں؟ کیسے؟ کہاں؟ اور کیونکر؟ جیسے سوالوں کے گرداب میں الجھے تلاش حق کی تگ و دو میں سچے دل اور سچی تڑپ کے ساتھ مصروف رہتے ہیں اور برگزیدہ منتخب لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ مگر یہاں تو توولے (سر کے بال) چٹے ہونے کے باوجود اس نوعیت کی گہرائی نصیب ہی نہیں ہوئی۔ میرا حال تو سیدھا سیدھا نامور پنجابی شاعر صوفی مشتاق جیسا ہے جو اپنی چھت ٹپکنے، دال روٹی کی مہنگائی اور نانکی شک بنانے پر روپے پیسے کی کمیابی پر سیدھے سیدھے للکاریں مارتا ہوا پکارتا ہے۔

”آ اللہ میاں تھلے آ“ ۔ اور دکھڑوں کی پنڈ کھول دیتا ہے۔ سوال کرتا ہے کہ تمہیں یہ سب بھگتنا پڑے تو بتاؤ کیا کرو گے؟ اقبال کے تو چلو گلے شکوے بڑے مہذب اور اونچی سطح کے تھے پر صوفی مشتاق تو سب کچھ تہس نہس کر دیتا ہے۔ میں تو بڑی تھڑ دل بڑی کمینی اور شودی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ آخر رشتہ تو اس اوپر والے سے ہی استوار کرنا ہے تو پھر بھئی سیدھے سیدھے اس کے حضور پہنچ جاؤ۔ خیر ڈال ہی دے گا۔ یہ بیچ کے بکھیڑوں میں کیا پڑنا۔

ہاں البتہ بیٹے کا کہنا ہے یہ اللہ کی بر گزیدہ ہستیاں اس کے کس قدر قریب ہیں اور اس کے ساتھ کس تعلق میں گندھی ہوئی ہیں۔ اس دنیا کی کتنی پرتیں، کتنے اسرار، کتنے بھید ہیں آپ نہیں جانتی ہیں۔ وہ ٹھیک ہی کہتا ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نجیبہ کے ساتھ اس کے تار فوراً جڑ گئے ہیں۔

کتاب کا آخری حصہ عبید اللہ خان درانی کی ”حیات اور کہاں چلے سادھو رے“ ان کے افکار کا نمائندہ ہے۔ خدا گواہ ہے آپ کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں۔ یہاں مجھ جیسی ناقص العقل بونگیاں مارنے اور اپنی دانائیاں گھولنے کی بجائے ان کی تحریر کاوہ ٹکڑا پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتی ہے۔ جسے نجیبہ نے ترجمہ کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔

” وہ بے مثال ہے۔ اس ظاہری حقیقت کی دنیا میں اس جیسی، اس سے ملتی جلتی یا اس سے ماورا کوئی شے موجود نہیں۔ ہم صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا نہیں ہے۔ یہ نہیں بتا سکتے کہ کیا ہے۔ مکان پھیل کر اتنا لطیف ہوجاتا ہے کہ معدوم ہوجاتا ہے اور زمان اس طرح جی اٹھتا کہ صرف حیات باقی رہ جاتی ہے، زمان نہیں۔ لہذا نہ کہیں جانا ہے نہ کچھ کرنا ہے نہ کوئی منزل ہے۔ برہمن کا وہ مرکزی نقطہ جو میں ہے اور جس سے سفر کا آغاز ہوا تھا کہیں باقی نہیں رہتا اور جو باقی بچتا ہے اس کا کوئی نام نہیں ہوتا، بے شک تم اسے ہزاروں ناموں سے پکارو اور وہ سب نام سچے بھی ہوں۔ میں بالکل لاعلم ہوں لیکن پھر بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے ہم ایک ہیں۔“

یہ وہی بات ہے جو لیری ڈوسی نے اپنی کتاب ”ذہن واحد“ میں ثابت کرنی چاہی ہے۔ یا genetics میں نوبل انعام جیتنے والی باربرامیک کلنٹوک نے کہی ہے :

”بنیادی طور پر ہر شے واحد ہے۔ کوئی طریقہ ہی نہیں جس کے ذریعے سے آپ چیزوں کے مابین لکیر کھینچ سکیں۔ یہ ہم ہیں جو ان ذیلی تقسیموں کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ تشکیلات حقیقی نہیں ہیں۔“

یا جیسے معروف سائنس داں شروڈنگر کا قول ہے :

”میں یہ کہنے کی جرات رکھتا ہوں کہ ذہن کو ملیامیٹ کرنا ممکن ہی نہیں کیوں کہ اس کا خاص نظام اوقات ہے یعنی ذہن ہمیشہ اب ہے۔ ذہن کے لیے درحقیقت نہ کوئی شے پہلے ہے نہ بعد میں۔“

نجیبہ تمہاری کتاب نے مجھے بہت رلایا ہے۔ مگر ہوں میں بھی بڑی ڈھیٹ ہڈی۔ تمہارے سسر کی طرح۔ تیسرے کو بیچ میں ڈالنے پر راضی ہی نہیں۔ پیروں فقیروں پر دل ہی نہیں آتا۔ متھا پھوڑ لینا ہے اسی کے در پر اس کے عشق میں نہیں ہائے اولاد کی محبت میں وہ بے شک جوتیاں مارے۔

٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments