عزت مآب نوجوان


انسان کو ہر لحاظ سے مثالی مخلوق کا درجہ حاصل ہے۔ کوئی مخلوق بھی انسان کی قدرت اور اختیارات کا انکار نہیں کر سکتی۔ خدا نے انسان کے اندر بیش بہا خصوصیات رکھیں ہیں۔ جن خصوصیات میں سے ایک خاصیت ہے ”احساس“ کی یا ”محسوس“ کرنے کی۔ انسان کے اندر احساس کی حس رکھ دی گئی کہ وہ اپنے انداز سے محسوس کرے۔ اس احساس کی حس کے ساتھ خدا نے عزت اور بے عزت کا احساس بھی جوڑ دیا۔ اور یہ معاملہ بھی انسان کو در پیش ہے کہ ہر انسان با عزت اور بے عزت کا احساس اپنے ظرف کے مطابق رکھتا ہے۔

ایک ہی وقت میں، ایک ہی جگہ پر، ایک ہی چیز دو انسانوں کے لیے الگ درجہ رکھتی ہے۔ ممکن ہے ایک انسان اس کو عزت کی وجہ سمجھے اور دوسرا بے عزتی کا سبب تصور کرے۔ خیر یہ مسئلہ ہر ایک کے اپنے ظرف کا ہے جس کے پیمانے میں وہ اس کو تولے اس کی اپنی مرضی ہے۔ در حقیقت احساس کی حس کا معاملہ ذرا نازک ہے۔ لہذا اس کے اثرات ہر شخصیت پر مختلف پائے جاتے ہیں۔ خیر احساس خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

یوں تو انسان کی زندگی کو بہت سارے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے مگر یہ تین ادوار قابل ذکر ہیں بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ ہر دور کی اپنی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر جوانی کی اہمیت و کردار نمایاں ہے۔

یہ وہ دور ہوتا ہے جس میں آپ کے ایک ایک عمل کو ایک خاص نگاہ سے دیکھ کر ایک خاص ترازو پر تولا جا رہا ہوتا ہے۔ اس حصے میں آپ کے اندر خداداد صلاحیتیں نمودار ہوتی ہیں جن کے بل بوتے پر آپ ہر قدم پر کچھ خاص کام سرانجام رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جب انسان اپنے جذبات کو مرکز و محور بنا کر چیزوں کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ ہر لمحہ جذبات جاگ رہے ہوتے ہیں اور احساس کی حس کو پیغام دیتے ہیں کہ یہ چیز یا یہ بات میرے ظرف کے مطابق ہے لہذا اس کا احساس خوشگوار ہو اور یہ بات میرے ظرف کے خلاف ہے لہذا اس کا احساس ناخوشگوار ہو اور اس نا خوشگواری کا رد عمل ہونا چاہیے۔

جوانی کے دور میں انسان مسلسل تخلیق کاری کے عمل سے بھی گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ تخلیق کسی قسم کی بھی ہو سکتی ہے ممکن ہے کہ وہ خواب تخلیق کرے، کوئی مقصد تخلیق کرے، معنوی شے تخلیق کرے، مادی شے تخلیق کرے وغیرہ وغیرہ۔ یہ اس کے ظرف کی مرضی کہ کیا شے وجود میں آتی ہے۔ اور یہ تخلیق ہر صورت وجود میں آتی ہے جس کا راستہ اور صورت ظرف کے ذمہ ہوتا ہے۔

عزت و بے عزت کا احساس ہی انسان کے ہر عمل کی بنیاد ہوتا ہے۔ آپ اس احساس کا کسی کام میں مداخلت کا اندازہ اس مثال سے لگا سکتے ہیں کہ اگر انسان کا ظرف کسی جگہ پر پانی پینے میں بھی بے عزتی محسوس کر رہا ہو تو انسان شدید پیاس کے باوجود اس مقام سے پانی کا بھی انکار کر دیتا ہے۔

یہ احساس عزت ہی ہے کہ جس نے انسان کو خوددار بنایا۔ اسی احساس نے انسان کو یہ طاقت بخشی کہ وہ اپنے لحاظ سے فیصلے کر سکے۔ لوگوں کے ساتھ رشتے نبھانے کی رسم، زبان پر پورا اترنے کا رواج، اپنے غیرت مند ہونے کی شدت وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں اسی عزت کے احساس کی وجہ سے موجود ہیں۔

ہر فرد کو یہ اقرار ہے کہ عزت کے احساس کی شدت سب سے زیادہ جوانی کے حصے پائی جاتی ہے۔ مگر اگر یہ جوان ہی اپنا یہ احساس کھو بیٹھے تو اس جوان پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ میں تو یہ بات اگر کے ساتھ مشروط کر کے گزر گیا لیکن آج کل جوان میں احساس مرنے کا رواج پیدا ہو رہا ہے۔ نہیں معلوم کہ جو اس احساس کو مارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی سوچنے کی صلاحیت کس مقام پر رہ کر کام کر رہی ہوتی ہے۔ کس انجان کوچے میں اپنے جوہر بکھیر رہی ہے۔ ہوش و عقل نے کیا تخیل پیدا کیے؟ کیا تخلیق کیا؟ نہیں معلوم۔ میں اس کے اسباب ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔

میں اکثر دیکھتا ہوں میرے ہم عمر جوان اپنی عزت کا خیال کیے بغیر کس طرح تیزی سے قدم بڑھا رہے ہوتے ہیں اور ان کا ظرف ان کو ملامت ہی نہیں کر رہا کہ مزاہمت پیدا ہو سکے۔ جو ان جوانوں کی حرکات و سکنات سے واقعات رونما ہوتے ہیں انتہائی حیران کن اور چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ اور ان واقعات کے اثرات ان جوانوں کے لیے گویا کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔

یہ جوان لڑکی ہو یا لڑکا تعلق کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کر رہے ہوتے ہیں، بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔ اور جب بے وقوف بن جاتے ہیں تو اس پر فخر کرتے ہیں، اتراتے ہیں اور بہادر اس قدر کہ ندامت کے اثرات تک واضح نہیں ہوتے۔ ایک رواج پیدا کر دیا گیا کہ ”یہ میرا بندہ ہے یا پھر یہ میری بندی ہے“ بہت فخر کے ساتھ یہ جملے ادا کر دیے جاتے ہیں مگر پھر کچھ عرصے بعد یہ جملے کسی اور پہلو میں بیٹھ کر ادا کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ اس سارے عمل میں عزت کی بے حرمتی کہیں بھی واقع نہیں ہوتی۔

ایک لڑکی اور لڑکے میں بریک اپ ہوا تو لڑکی نے مجھ سے کہا ”کفایت وہ لڑکا عزت دار گھرانے سے نہیں ہے اور میں حسب نسب والی ہوں“ ۔ اس جملے کے کچھ عرصے بعد میں حیران ہوا کہ ان کی صلح ہو گئی۔ پھر میں مزید حیران تب ہوا جب دوبارہ بریک اپ ہو گیا۔ موجودہ وقت میں اس لڑکے کے اور لڑکی کے بھی تین سے چار بندے اور بندی مزید تبدیل ہو چکے ہیں۔ اور میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے اپنی عزت کو مدنظر رکھ کر قدم روک لیے ہوں۔

خیر یہ تو فقط ایک مثال ہے آپ نظر دوڑائیں تو بے بہا مثالیں میسر ہیں۔ کس قدر المیہ ہے کہ نوجوان اپنی عزت کھو دے یعنی اپنی اس خاصیت کو کھو دے جو اس کی شناخت ہے۔ مقام افسوس ہے اس صورتحال پر کہ نوجوان خود کو ہی نہ پہچان سکے۔ نہ جانے کون سی چیز ہے جو جوان کو اپنی عزت کا مقام کھو دینے کے معاملے میں سکون مہیا کرتی ہے اور قوت دیتی ہے کہ ”لگے رہو“ ۔ اپنی خوبی کو زنگ آلود کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی فکر ہی نہیں ہوتی۔

جوان یہ کام کیے جا رہا ہے اور صاحب اختیار دیکھ رہے ہیں۔ یہاں ایک میں عزت کی حس کام نہیں کرتی اور دوسرے میں فکر کی حس کا وجود نہیں۔ ایک بازی گر ہے اور دوسرا تماش بین۔ ان معاملات کا حل نہ لایا گیا تو اگلی دہائیوں میں معاشرہ اس مقام پر کھڑا ہو گا کہ آپ اس کے نقصان کا ازالہ نہیں کر سکیں گے۔ اس بے راہ روی کا علاج کسی صورت ممکن نہ ہو گا۔ صاحب اختیار کو روایتی انداز چھوڑ کر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے قدم بڑھانا ہوں گے۔ شعور پیدا کرنے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments