تعلیم کو گھناؤنا کاروبار بننے سے روکا جائے


اگر کسی معاشرے کی اخلاقی، سیاسی و سماجی نشو و نما اور اس کے مزاج کو سمجھنا ہو تو یہ دیکھیں کہ اس کا تعلیمی نظام کیسا ہے کیونکہ تعلیمی درسگاہیں اور مبلغین کسی معاشرے کی عمومی تربیت، ذہنی نشو و نما اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے کہ یہاں سیاست، مذہب سے لے کر تعلیم تک ہر چیز ایک گھناؤنا کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ تعلیم کو بھی مافیاز نے کاروباری بنیادوں پر استوار کر لیا ہے جو منظم طریقے سے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں اور کاروبار کا اولین مقصد ہمیشہ خدمت نہیں بلکہ منافع ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں طرز تعلیم بنیادی طور پر دو طرح کا ہے سرکاری اور نجی تعلیمی نظام۔ اس کے علاوہ مذہبی یا دینی تعلیم کے دعویدار ادارے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان نام نہاد درسگاہوں کی زبوں حالی ناقابل بیاں ہے۔ خاص طور پر سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں نے اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر بدعنوانیوں اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے معاملات کو جوں کا توں پایا ہے۔ اصلاح احوال کا کسی سطح پر کوئی امکان کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے سرکاری سکولوں کی حالت زار یہ ہے کہ غیر سنجیدگی اور پست معیار تعلیم کے سبب طلباء کی تعداد گھٹ کر بالکل تھوڑی رہ گئی ہے یہاں تک کہ بعض سکولوں میں یہ تعداد بمشکل سٹاف یعنی تدریسی عملے کے برابر یا اس سے بھی کم ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اب اپنے بچوں کی تعلیم اور مستقبل کو لے کر سرکاری سکولوں پر بھروسا نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے خود کو بھروسے لائق ہی نہیں چھوڑا۔

اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ اساتذہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ جب بچہ گھر آ کر بتائے گا کہ آج ان کا ٹیچنگ سٹاف سارا دن دھوپ سینکتا خوش گپیوں میں مصروف رہا، فلاں ٹیچر کئی دن سے مسلسل غیر حاضر ہے اور کوئی بھی ان کی کلاس نہیں لے رہا، فلاں ٹیچر نے آج بچوں پر تشدد کیا اور گالیاں دیں، فلاں ٹیچر اپنے بچوں کو ساتھ لاتی اور انہی کے ساتھ لگی رہتی ہے، فلاں ٹیچر سارا دن سکول میں خود اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی ہے کیونکہ اس کے اپنے پیپرز ہیں۔

میں آج تین دن سے ٹیچر سے اس لفظ کا مطلب پوچھ رہی ہوں لیکن وہ نہیں بتا رہی شاید ان کو خود نہیں آتا، ہمارے فلاں ٹیچر کلاس میں آتے ہی ہمیں جھڑک دیتے ہیں کہ کتاب کھول کر پڑھو اور خود بال کھجاتے، سر میں خارش کرتے رہتے ہیں۔ جب بچے روزانہ گھر آ کر ایسی ہی داستانیں سنائیں گے تو اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو ہمارے سامنے ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کم آمدن یا غریب خاندان بھی بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔

ستم یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کی زبوں حالی کا اصل سبب مالی وسائل نہیں بلکہ حکومتوں اور سرکاری عہدیداروں کی نا اہلی، بدنیتی، بدعنوانی اور عدم دلچسپی ہے۔ ان کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ سرکاری نظام تعلیم بہتر ہو کیونکہ ان کے اپنے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے۔

آپ ایک اور دلچسپ پہلو ملاحظہ فرمائیں کہ اعلی سرکاری حکام مثلاً وزرا، بیوروکریٹس وغیرہ اپنے بچوں کو تو سرکاری سکولوں سے دور رکھتے ہیں۔ بچے کیا بلکہ ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد کبھی سرکاری سکولوں کا منہ نہیں دیکھتا ’لیکن بات جب سرکاری نوکری کی آتی ہے تو یہ اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کی سفارشی بھرتیوں کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیتے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں پڑھانے والوں کے لئے عیش و آرام بہت ہے۔

اچھی تنخواؤں کے علاوہ کئی دیگر مراعات ہیں، کارکردگی اور فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے ان کو جوابدہی کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی معطلی کا خدشہ۔ ظاہر ہے جب کسی سطح پر سکروٹنی کا کوئی نظام نہ ہو، احتساب کا خوف نہ ہو تو دیانت داری سے فرائض کی ادائیگی کس حد تک ہو گی؟ یہاں میں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں کہ اس تحریر سے کسی کی دل آزاری یا بے جا تنقید مقصود نہیں بلکہ ان حالات کی عکاسی ہے جو انتہائی تشویشناک ہیں۔

ہاں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو احتساب کا شکنجہ نہ ہونے کے باوجود بھی بے جا فائدہ نہیں اٹھاتے، جن کا ضمیر جن کی ملامت کرتا رہتا ہے اور خوف خدا ان پر طاری رہتا ہے اور وہ پوری دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن جب اکثریت میں ملازمین بدعنوان، سست یا نا اہل ہوں تو چند لوگوں کی ایمانداری سے بھی نظام ٹھیک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو ٹھیک نہ کیا جائے۔

تو سرکاری نظام تعلیم کی زبوں حالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ داروں اور مخیر حضرات نے اس شعبے میں سرمایہ لگانا شروع کر دیا۔ مقصد بیشتر کا منافع تھا نہ کہ معیاری تعلیم کے ذریعے معاشرے کی تربیت و تعمیر۔ تاہم تعلیم کی کاروباری بنیادوں پر استواری کے باوجود نجی اداروں کی کارکردگی سرکاری اداروں کی نسبت بہتر رہی لیکن ملازمین یعنی اساتذہ کی تنخواؤں کے پہلو کو مدنظر رکھیں تو سرمایہ دارانہ نظام کا نامنصفانہ پہلو یہاں بھی واضح ہے۔

معمولی تنخواہوں پر نجی سکولوں میں کھپنے والے اساتذہ/ملازمین سے معاوضے سے کئی گنا زیادہ کام لیا جاتا ہے لیکن اچھا خاصا منافع کمانے والے سکول مالکان اپنے کاروبار کو مزید پھیلا رہے ہیں۔ ستم دیکھیں کہ سرکاری اداروں کے ملازمین کام نہیں کرتے یا پھر کام کی نسبت بہت زیادہ اجرت لے رہے ہیں لیکن نجی اداروں کے ملازمین معمولی اجرت پر خون پسینہ بہاتے ہیں۔

اب ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیں کہ معیاری سمجھے جانے والے مہنگے نجی سکولوں تک امیر اور درمیانے طبقے کی رسائی تو ممکن ہے لیکن غریب یا کم آمدن والے خاندان یا تو اپنے بچوں کو تعلیم ہی نہیں دلاتے یا پھر سرکاری سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشتر غریب خاندان دینی مدارس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس طرح طبقاتی تعلیمی نظام معاشرے میں گہری ہوتی ہوئی طبقاتی تقسیم اور کشمکش کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔

سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے حوالے سے بھی سرکار کی پالیسی ڈھیلی ہے کہ ان کو اپنے تئیں چلنے دیا جائے۔ اس طرح عوام کے چندے، کچھ اندرونی اور بیرونی عناصر کی امداد سے چلنے والے یہ ادارے دینی خدمت سے زیادہ مذہبی منافرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔ دینی مدارس میں ان بچوں کی اکثریت ہے جو انتہائی غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور والدین کا خیال ہے کہ مدارس کے حوالے کرنے سے نہ صرف ان کو روٹی کپڑا اور مکان میسر ہو گا بلکہ دین بھی سیکھ جائیں گے۔

اس کے علاوہ مدارس میں ایسے طلباء کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جو غربت کی وجہ سے مدارس میں میں نہیں بھیجے جاتے بلکہ دوسرے سرکاری یا نجی سکولوں سے یہاں پہنچتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جن طلباء کو دوسرے سکولوں سے یہ کہہ کر نکال دیا جاتا ہے کہ یہ یہاں چل نہیں سکتے تو والدین یہ سوچتے ہیں کہ دنیاوی تعلیم نہ سہی دینی تعلیم ہی سہی، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔

بہرحال سرکاری تعلیمی ادارے ہوں، نجی ادارے ہوں یا پھر دینی طرز تعلیم اور معیار کے اعتبار سے مجموعی طور پر ہمارے تعلیمی نظام کی زبوں حالی کی ذمہ داری بنیادی طور پر ریاست پر عائد ہوتی ہے اور ریاست کی ترجیحات پر یہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جب خود ریاستی ادارے اور شخصیات ہی اس دھندے کا حصہ ہوں جو تعلیم کے نام پر چل رہا ہو تو بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کم از کم اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک کہ لوگ آواز نہ اٹھائیں۔

قابل ذکر ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا تاکہ معاشرے سے طبقاتی تقسیم کو کم کیا جا سکے۔ اس پر عملدرآمد کے لئے کام بھی ہو رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یکساں تعلیمی نصاب نافذ کر بھی دیا جائے تو مکمل تعلیمی ڈھانچہ یا نظام بدلے بغیر یہ کس حد تک موثر ہو گا؟ آخر طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا؟

نجی تعلیم کا خاتمہ کر کے تمام اداروں کو مرکزی دھارے میں لانے میں کیا قباحت ہے؟ سرکاری سکولوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ قانون سازی کے ذریعے اساتذہ، اسمبلی ممبران اور بیوروکریٹس کو اس بات کا پابند کیا جائے کے وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں ہی تعلیم دلائیں کیونکہ یہ بہتری کی جانب پہلا قدم ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments