افضل گرو ، مولانا روم اور انصاف


مجھے آج اچانک سے افضل گرو کیسے یاد آ گیا ؟ یہ  آگے چل کے بتاؤں گا۔مگر افضل گرو شائد آپ کو بھی یاد ہو۔وہی جسے بھارتی پارلیمنٹ پر تیرہ دسمبر دو ہزار ایک کو ہونے والے حملے کی سازش کا حصہ ہونے کے جرم میں  بارہ برس قیدِ تنہائی میں رکھنے کے بعد نو فروری دو ہزار تیرہ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔اس کی اپیل ہر عدالتی فورم پر مسترد ہوئی۔بعد ازاں صدر مملکت پرنب مکھر جی نے بھی مسترد کر دی۔

دلی میں پارلیمنٹ پر دھشت گرد حملے میں پانچ حملہ آور اور آٹھ محافظ ہلاک ہوئے۔افضل گرو براہ راست اس حملے کا حصہ نہیں تھا۔پولیس نے اسے گرفتار کر کے اس کے قبضے سے ایک موبائیل فون اور لیپ ٹاپ برآمد کیا۔مگر دونوں آلات کو سربمہر نہیں کیا گیا۔ جب عدالت میں یہ دونوں ثبوت پیش کیے گئے تو انھیں ٹیمپر کیا جا چکا تھا۔عدالت نے افضل گرو کے اعترافی بیان کو مقدمے کی بنیاد بنایا اور یہ تک نہ پوچھا کہ آیا اس نے پولیس تشدد کے بعد اقبالِ جرم کیا  یا اپنی مرضی سے  بیان دیا۔بہر حال اسے زیریں عدالت نے سزائے موت سنا دی۔

ہائی کورٹ نے بھی یہی فیصلہ برقرار رکھا اور سپریم کورٹ نے بھی نظرِ ثانی اپیل کی سماعت کے دوران ثبوتوں اور اقبالی بیان پر کسی شبہے کا اظہار نہیں کیا۔عینی شواہد کی صحت کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔حالات و واقعات کو ٹھوس ثبوت تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کر دی اور اپنے فیصلے میں یہ تاریخی جملہ لکھا۔’’ سماج کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ملزم کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے ’’۔یہ وہ جملہ ہے جس نے پورے بھارتی نظامِ انصاف کے ماتھے پر ایک سوالیہ نشان جڑ دیا۔تب سے کوئی بھی اعلی وکیل اس فیصلے کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش کرتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔

دو ہزار چار میں جب افضل گرو دلی کی تہار جیل کی کال کوٹھڑی میں بند تھا۔اس نے اپنے وکیل سوشیل کمار کو ایک خط لکھا۔اس خط میں افضل نے انکشاف کیا کہ اسے سن دو ہزار میں جموں و کشمیر پولیس کے ڈی ایس پی دیوندر سنگھ نے حراست میں لیا۔ایک پولیس کیمپ میں اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔پھر اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ آیندہ پولیس سے تعاون کرتا رہے گا۔

’’ ایک روز دیوندر سنگھ نے مجھے الطاف نامی شخص کے ذریعے طلب کرتے ہوئے کہا کہ تم نے دلی میں پہلے خاصا وقت گذارا ہے۔اس لیے ایک چھوٹا سا کام کرنا ہوگا۔ایک شخص کو دلی لے جانا ہے اور اس کے لیے وہاں کرائے کی رہائش کا  بندو بست کرنا ہے۔مجھے اس آدمی ( محمد ) سے ملوایا گیا۔اس کے لہجے سے مجھے شک ہو گیا کہ یہ کشمیری نہیں۔اسے کشمیری کا ایک لفظ نہیں آتا تھا۔مگر میں دیوندر سنگھ کی بات ماننے پر مجبور تھا۔میں الطاف اور محمد کو لے کر دلی پہنچا۔ان کی رہائش کا بندوبست کیا۔ایک دن محمد نے کہا کہ اسے کار خریدنی ہے۔میں اسے قرول باغ لے گیا۔اس دوران وہ دلی میں کئی لوگوں سے ملاقات بھی کرتا رہا مگر مجھے ان لوگوں کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ وہ کون تھے۔

اس دوران ڈی ایس پی دیوندر سنگھ کی مجھے، الطاف اور محمد کو کالز بھی آتی رہیں تاکہ اسے ہمارا حال چال معلوم ہوتا رہے۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ لوک سبھا پر حملہ ہوا ہے اور مارے جانے والوں میں محمد بھی شامل ہے۔الطاف کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا۔اور پھر مجھے حراست میں لے لیا گیا ‘‘۔

افضل گرو کے وکیل سوشیل کمار نے اس خط کی بنیاد پر عدالت سے مطالبہ کیا کہ افضل کے فون پر موصول ہونے والی کالز کے ریکارڈ کی مدد سے اس واقعہ میں ملوث دیگر کرداروں کا بھی پتہ چلایا جائے۔مگر عدالت نے اس خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم نہیں دیا۔

دو ہزار چھ میں ایک صحافی پرویز بختیار کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈی ایس پی دیوندر سنگھ نے افضل گرو پر پولیس کیمپ میں ٹارچر کا تو اعتراف کیا مگر دیگر الزامات سے مکر گیا۔یہ انٹرویو کسی اخبار نے شایع نہیں کیا۔ چنانچہ اسے ارودن دھتی رائے نے اپنے مضامین کی ایک کتاب کا حصہ بنا کے شایع کر دیا۔مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

فروری دو ہزار تیرہ میں افضل گرو کو پھانسی دے دی گئی۔ڈی ایس پی دیوندر سنگھ کو کشمیر میں دھشت گردی کے خلاف حسنِ کارکردگی دکھانے کے لیے دو ہزار انیس میں پولیس میڈل سے نوازا گیا۔مگر گیارہ جنوری دو ہزار بیس کو خبر آئی کہ دیوندر سنگھ کو دھشت گردوں سے ساز باز کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔

دیوندر کو دلی جاتے ہوئے جموں کے نزدیک ہائی وے پر گرفتار کیا گیا۔اس کے ہمسفر دو افراد میں سے ایک کا نام نوید اور تعلق لشکرِ طیبہ سے بتایا گیا جب کہ  دوسرے شخص الطاف کا تعلق مبینہ طور پر حزب المجاہدین سے تھا۔کار سے دو کلاشنکوفیں بھی برآمد ہوئیں۔دیوندر سنگھ کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے بھی دو پستول اور ایک کلاشنکوف برآمد ہوئی۔یہ تینوں سلاخوں کے پیچھے ہیں اور غیر ملکی ایجنسیوں سے ان کے مبینہ تعلق کے بارے میں تفتیش جاری ہے۔

تفتیشی حکام کے پیشِ نظر یہ سوال بھی ہے کہ چھبیس جنوری کے یومِ جمہوریہ کی پریڈ سے پندرہ روز پہلے ایک حاضر سروس پولیس افسر کی کار سے دلی جانے والے دو مطلوبہ شدت پسند اور بلا لائسنس اسلحہ کیسے برآمد ہوئے اور دراصل ان تینوں کے درمیان کیا کچھڑی پک رہی تھی۔ان دو کے علاوہ دیوندر سنگھ نے اور کتنے شدت پسندوں کو جموں و کشمیر سے دیگر علاقوں میں اسمگل کیا وغیرہ وغیرہ۔

اب میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ مجھے آج افضل گرو کیوں یاد آیا۔دلی کے سرکردہ صحافی جاوید نقوی نے روزنامہ ڈان میں اپنے ایک ہفتہ وار کالم میں ایک ماؤ نواز کیمونسٹ لیڈر کوباد گندھی کی یادداشتوں پر مبنی شایع ہونے والی ایک کتاب ’’ فریکچرڈ فریڈم ، اے پرڑن میمائر‘‘ کا تذکرہ کیا ہے۔اس کتاب میں افضل گرو کے جیل کے شب و روز کا وہ احوال ہے جو عام طور سے سامنے آنا بہت نایاب ہے۔

کوباد گندھی لکھتے ہیں کہ افضل کو بعد از مرگ زندگی پر پکا یقین تھا۔وہ چائے بہت اچھی بناتا تھا۔میں تین برس تک صبح اس کے ہاتھ کی چائے پیتا رہا۔ افضل گرو کے ذہن میں ان لوگوں کی فہرست تھی جن سے وہ موت کے بعد ضرور ملے گا۔ان میں سے ایک علامہ اقبال بھی تھے۔افضل نوم چومسکی کا بھی شیدائی تھا اور اپنی قید کے دوران اس نے چومسکی کو خاصا پڑھا۔

افضل مولانا روم کا بہت ہی عاشق تھا۔اس نے ان کی شاعری کی چھ جلدیں تقریباً چاٹ لی تھیں۔ ایک دن میں حیران رہ گیا۔جب میں نے دیکھا کہ افضل نے کسی سے فون لے کر بیوی کو لمبی کال کی اور اسے کئی غزلیں گا کر سنائیں۔

وہ کٹھ ملا نہیں صوفی منش تھا جو کہ کشمیریت کی شناخت ہے۔وہ کسی بھی مقصد کے لیے کسی کی بھی جان لینے کا مخالف تھا۔دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے چند ماہ پہلے اسے اچانک اس لیے پھانسی دے دی گئی تاکہ کانگریس ثابت کر سکے کہ وہ بی جے پی سے زیادہ کٹر قوم پرست ہے۔مگر بی جے پی پھر بھی جیت گئی۔

افضل کو موت سے پہلے اہلِ خانہ سے آخری ملاقات کا قانونی حق نہیں ملا۔اس کی موت کا ٹیلی گرام تب اس کے گھر پہنچا جب اسے تہار جیل میں ہی ایک اور کشمیری مقبول بٹ کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔

کوباد گندھی نے ستر کے عشرے میں برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی۔پارسی ہونے کے ناتے اس کے بڑے بڑے کاروباریوں سے جان پہچان رہی۔مگر اس نے ممبئی کی جھونپڑ پٹیوں میں سماجی و نظریاتی کام شروع کیا۔یہیں کوباد کی اپنی ہونے والی بیگم انورادھا سے بھی ملاقات ہوئی۔انورداھا دو ہزار آٹھ میں ریاست چھتیس گڑھ کے نکسل ماؤ وادیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بیماری سے جاں بحق ہوئی۔کچھ عرصے بعد کوباد کو بھی جنوبی دلی میں ایک بس اسٹاپ سے سادہ پولیس نے اٹھا لیا۔دو ہزار انیس میں کوباد کو رہائی ملی۔دس برس میں سے سات برس کوباد نے تہار جیل میں گذارے جہاں مولانا روم کا شیدائی افضل گرو قید تھا۔

رہائی کے بعد معروف صحافی کرن تھاپڑ کو کوباد نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ افضل گرو کو پھانسی دینے کے لیے اچانک سوتے سے اٹھایا گیا۔اس نے کہا کہ وہ نماز پڑھنا چاہتا ہے۔نماز کے بعد اسے تختہِ دار کی جانب لے جایا گیا۔اس کے چہرے پر کوئی خوف یا بے چینی کے آثار نہیں تھے۔کال کوٹھڑی سے پھانسی گھاٹ کے دو منٹ کے اس مختصر سفر کے دوران سپاہی دیوار کے ساتھ قطار بنائے کھڑے تھے۔افضل نے چلتے چلتے ان سے کہا کہ اپنے ان ساتھیوں کا خیال رکھنا جو بہت محنت کرتے ہیں مگر انھیں اس کا خاطرخواہ صلہ نہیں ملتا۔یہ سن کر ہر سپاہی آبدیدہ ہوگیا۔

’’ تم قید خانے میں کیوں رہتے ہو جب کہ دروازے مکمل واہیں اور پناہ گاہ کا راستہ بھی تمہارے اندر ہی سے جاتا ہے‘‘(رومی)۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments