شہباز شریف کو عزت دو


حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ وقت اور حالات میں سمجھوتہ صرف وقت کی چال سمجھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ چال چلنے کے وقت کا تعین اور قدم اُٹھانے کا اختیار ہی راستہ دکھاتا ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے میں سیاست کی چالوں نے وقت نہیں دیکھا، حالات نہیں دیکھے اور نہ ہی انداز بدلا ہے۔ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر گئی۔ ’مرحومہ پی ڈی ایم‘ نے مرنے سے پہلے حفیظ شیخ کو رخصت ضرور کیا ہے مگر ساتھ ہی منقسم اپوزیشن نے حکومت کو معاشی محاذ پر کُھل کر کھیلنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مقدمات، حکومت اور طاقتور حلقے اپنے مقاصد کے حصول میں مشغول ہیں اور ہر کوئی اپنے مفادات کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں کو ‘اَن ڈو‘ کرنے میں لگا ہے۔

اپوزیشن کا ’مرحوم اتحاد‘ چھبیس اعلیٰ نکات کے لیے تشکیل پایا جس میں سب سے اوّل تھا موجودہ حکومت کا خاتمہ۔ وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ، اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی عمل دخل کم کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کا آغاز، سویلین بالادستی اور شفاف انتخابات کے لیے راستے بنانا وغیرہ وغیرہ۔

جمہوریت پسندوں کو 2006 کے میثاق جمہوریت کے بعد ایک دفعہ پھر خوش فہمی ہوئی کہ سیاسی جماعتیں اب کی بار مضبوط جمہوریت اور فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کے لیے مشترکہ عملی اقدامات پر یکجا ہوں گی۔

جمہوریت کی بازیابی کے لیے چھوٹے بڑے قدم اٹھائے جائیں گے اور ڈوریاں ہلانے والے کرداروں کا سیاست سے خاتمہ ہو گا لیکن کسے معلوم تھا کہ اپوزیشن کا قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے بنایا جانے والا اتحاد محض سینیٹ کے قائد حزب اختلاف کی ایک نشست پر ہی منتج ہو گا۔

چئیرمین سینیٹ کے لیے مشترکہ جنگ لڑنے اور کسی حد تک کامیاب ہونے والی پی ڈی ایم محض قائد حزب اختلاف کے لیے ڈھے جائے گی۔۔۔ یہ کسی نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ’باپ‘ کا نیا داغ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اپنے اُوپر کیوں لگوا لیا حالانکہ یہی اپوزیشن جلد یا بدیر اس اتحاد کی صورت سنجرانی کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی۔

ایک طرف مریم نواز صاحبہ کو حمزہ سے بلاول کی ملاقات کا غصہ ہے یا ایک زرداری سب پر بھاری کا غم، بہرحال استعفوں کے معاملے سے لے کر اب تک تابڑ توڑ حملے اور بلاول بھٹو کے غیر روایتی جذباتی بیانات نے معاملات کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی فی الحال اور بظاہر ناممکن ہے۔

شہباز

دوسری جانب شہباز شریف اور حمزہ شہباز معاملہ فہمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کیمپ سے تاحال کوئی بیان داغا نہیں گیا۔

پیپلز پارٹی اور ق لیگ پنجاب میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔ ن لیگ پرویز الہی پر نہیں مانے گی لیکن بدلتے حالات میں ن لیگ کو سیاسی کمپرومائز کرنا پڑے گا کیونکہ پنجاب میں بُزدار سرکار کی کارکردگی مقتدروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔

دوسری صورت میں پنجاب میں ن لیگ کے پاس حکومت سازی کا ایک اور سُنہری امکان موجود ہے۔ یہ بات طے ہے کہ پنجاب سے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو وفاق میں تبدیلی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

شہباز شریف تصادم کی سیاست کے خلاف ہیں، پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کی سوچ ایک سی ہے تاہم شہباز شریف میاں نواز شریف کی منشا کے خلاف آگے نہیں بڑھ سکتے۔

نواز شریف ایسی صورتحال میں صرف محاذ آرائی چاہتے ہیں یا کوئی درمیانی راستہ نکال سکتے ہیں یہ آنے والے دنوں میں اہم ہو گا۔

یہ بات درست ہے کہ ہائبرڈ نظام کے خاتمے کا حل سسٹم کے ذریعے ہی آگے بڑھنے میں ہے تاہم اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمان کے اندر ہی تبدیلی کی راہ اختیار کرنا ہو گی۔ کوئی بھی غیر جمہوری کوشش مستقبل کا منظر نامہ بدل سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے سٹیٹ بنک کے لامحدود اختیارات کا ترمیمی آرڈیننس مستقبل میں کسی بھی طرح کی زبردستی کی قانون سازی بذریعہ آرڈیننس کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ نہ صرف آئین بلکہ خود اُن کے وجود کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔

ن لیگ نظام میں بڑی سٹیک ہولڈر ہے تاہم ذرا سی لچک معاملات کو الجھانے کی بجائے سلجھا سکتی ہے۔ خود ن لیگ میں اس معاملے پر اکثریتی رائے موجود ہے تاہم نواز شریف بیانیے کے خلاف کھل کے بولنا بڑی رکاٹ ہے۔

ایسے میں نواز شریف اگر ایک انتہا پر ہیں تو دوسری انتہا پر شہباز شریف لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ شہباز شریف کو پہلے کی طرح ‘ایک اور چانس‘ دیا جائے۔

شہباز شریف آگے آسکتے ہیں اور تینوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں، پنجاب اور وفاق میں تبدیلیوں کی راہ فراہم کر سکتے ہیں۔ آخر کار شہباز شریف اپنی جماعت کے صدر بھی ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اپنے صدر کو عزت دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).