کیا قلعہ لاہور سے ملنے والے فرضی خزانے کے اعداد و شمار درست ہیں؟



” ہم سب“ پر شائع شدہ ایک مضمون میں سکھوں کی انگریزوں کے مقابلے میں شکست کے بعد اربوں کھربوں کے اس فرضی خزانے کا ذکر کیا گیا ہے، جو انگریز قلعہ لاہور سے لوٹ کر لے گئے تھے، اس معاملے کے درست تجزیہ کے لیے ہمیں اس وقت اور اس سے قبل کے حالات کا ایک طائرانہ جائزہ لینا پڑے گا، تاکہ مکمل تصویر اپنے درست خدو خال سمیت سامنے آ سکے۔ درحقیقت اس سے قبل سکھوں کی آپس کی خانہ جنگی اور خالصہ فوج کے سندھانوالیوں کے جتھہ کے دستے کے ہاتھوں قتل و غارت اور جوابی قتل و غارت اور گلاب سنگھ ڈوگرہ اور اس کے بڑے بھائی دھیان سنگھ، کی سازش سے آنجہانی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کمسن بیٹے نونہال سنگھ کے ایک منصوبہ بند قتل کی اپنی اور اپنے بھائی گلاب سنگھ ڈوگرہ کی مجرمانہ اور سازشی کارروائی کو کامیابی سے عمل میں لایا گیا۔

جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دیہانت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مہاراجہ کھڑک سنگھ سلطنت پنجاب کا مہاراجہ بنا اور تقریباً چار سال تک حکومت کرنے کے بعد 1840 ء کو فوت ہو گیا، اس کے بعد بیس سالہ نوجوان شہزادہ نونہال سنگھ نے مہاراجہ بننا تھا، تو کھڑک سنگھ کے کریا کرم کے بعد شہزادہ نونہال سنگھ قلعہ لاہور کو واپس آ رہا تھا تو قلعے کے نزدیک پہنچ کر اس نے گلاب سنگھ کے بڑے بھائی دھیان سنگھ جو وزیر اعظم کے عہدے پر مامور تھا، کا ہاتھ پکڑ لیا، اس شہزادہ کے قتل کی سازش تیار تھی اور اس کے راستے میں قلعے کے ایک بھاری کنگرے کو خستہ کر کے شہزادہ پر گرانے کی تیاری مکمل تھی، لیکن شہزادہ کے سازش کرنے والے گلاب سنگھ کے بڑے بھائی دھیان سنگھ کا ہاتھ پکڑ لینا اس سازش کو ناکام بھی کر سکتا تھا لیکن بے رحم قاتلوں نے جن کا تعلق گلاب سنگھ کے زیر کمان ڈوگرہ دستے سے تھا منصوبے کے مطابق شہزادہ کے نیچے پہنچنے پر اوپر سے بھاری کنگرہ گرا دیا جس سے شہزادہ نونہال سنگھ ہلاک ہو گیا، گلاب سنگھ اور اس کے بھائی دھیان سنگھ نے موقع واردات کو اپنے اعتبار کے ڈوگرہ سپاہیوں کے دستے کی مدد سے محسور کر لیا، اور یہ اعلان کر کے کہ شہزادہ زخمی ہے، شہزادہ نونہال سنگھ کی لاش کو لے کر قلعہ لاہور کے شاہی حصے میں داخل ہو کر قلعے کے دروازے شہزادے کی حفاظت کے بہانے بند کر دیے۔

قلعے میں شاہی خاندان کی خواتین میں کمسن شہزادہ کی لاش دیکھ کر ماتم اور آہ و بکا شروع ہو گئی، اور اسی اثناء میں گلاب سنگھ نے قلعے کا زیادہ تر خزانہ دھیان سنگھ کے زیر نگرانی و ہمراہ کئی بیل گاڑیوں اور خچروں و گھوڑوں پر لدوا کر اپنے آبائی علاقے جموں روانہ کر دیا۔ اب رنجیت سنگھ کا بیٹا شہزادہ شیر سنگھ لاہور پہنچا اور قلعے پر گولہ باری شروع کر دی اس نے چھوٹی توپیں بادشاہی مسجد کے میناروں پر چڑھا کر قلعے کے اندر گولا باری شروع کروا دی، اور اس طرح تخت لاہور کا قبضہ حاصل کر لیا، اب دھیان سنگھ ڈوگرہ نے باغی سندھیانوالہ سرداروں کو بھڑکا کر مہاراجہ شیر سنگھ کے قتل پر تیار کیا لہذا ایک فوجی پریڈ دکھانے کے بہانے سندھانوالہ دستہ کے کمانڈر اجیت سنگھ نے ایک چھوٹی بندوق مہاراجہ کو پیش کرنے کے بہانے اس پر فائر کر کے اس کو ہلاک کر دیا، اور اس کے بعد ان ہی قاتلوں نے باغ میں موجود مہاراجہ شیر سنگھ کے کمسن بھائی شہزادہ پرتاپ سنگھ کو بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا، یوں دھیان سنگھ ڈوگرہ اور گلاب سنگھ کی سازش کامیاب ہو گئی لیکن اب دھیان سنگھ ڈوگرہ کے اثر رسوخ کو قاتل سندھانوالیہ سرداروں نے اپنے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہوئے دھیان سنگھ کو اس کے ڈوگرہ حفاظتی دستہ سے بہانہ سے الگ کر کے ہلاک کر دیا۔

صاحب مضمون سومرو صاحب کا انگریزوں کے قبضے کے وقت قلعے میں بہت بڑے خزانے کی موجودگی کا ذکر درست نہیں کیونکہ اس حادثے کے بعد کم سن دلیپ سنگھ کو زیر نگرانی مہارانی جنداں تخت پر بٹھایا گیا، تو خزانے میں اتنے پیسے تک نہ تھے، کہ افواج کو تنخواہیں تک دی جا سکتیں، اسی وجہ سے خالصہ افواج کی کئی یونٹوں اور دستوں نے باغیانہ رویہ اختیار کر لیا، اور آپس میں لڑنا اور قتل و غارت کرنا اور عوام اور بازاروں کو لوٹنا اپنا معمول بنا لیا، اس قتل و غارت میں سندھیانوالیوں کے جتھہ سے تعلق رکھنے والے خالصہ فوج کے دستے نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔

اسی افراتفری کے ماحول میں آنجہانی رنجیت سنگھ کے بیٹوں کشمیرا سنگھ اور پشاورا سنگھ کو مختلف مقامات پر سازش کر کے ہلاک کروا دیا گیا۔ بعد ازاں دھیان سنگھ ڈوگرہ کے بیٹے راجہ ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے خالصہ فوج کے دیگر دستوں کو زیادہ تنخواہ اور انعام کا لالچ دے کر سندھانوالہ سرداروں سردار لہنا سنگھ اور سردار اجیت سنگھ جو قلعہ لاہور میں خواب غفلت میں موجود تھے، پر حملہ کروا کر ان کو ہلاک کروا دیا، اب راجہ ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے تخت پر شہزادہ کمسن دلیپ سنگھ کو بٹھایا، اور اس پر سرپرست مہارانی جنداں کو مقرر کیا اور خود کو وزیر نامزد کر لیا، اب جموں سے ہیرا سنگھ ڈوگرہ کا حقیقی چچا سوچیت سنگھ سکھ فوج کے ایک حصہ کے ساتھ ساز باز کر کے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ لاہور پہنچا کہ بھتیجے کو معزول کر کے اس کی جگہ حاصل کرے، لیکن ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے خالصہ فوج کو بھاری رقم اور طلائی تحائف دے کر اپنے ساتھ ملا لیا، اور ان کی مدد سے اپنے چچا سوچیت سنگھ کو اس کے ساتھیوں سمیت ہلاک کروا دیا، اس طرح ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے خالصہ حکومت میں وزیر کی کرسی سنبھال لی، اس کا عیار چچا گلاب سنگھ فوج کے سینئیر کمانڈروں میں شمار ہوتا تھا، اور فوج کا ایک بڑا حصہ اس کے زیر کمان تھا۔

لیکن اب سکھ فوج میں اس کے رسوخ کے باعث شکوک و شبہات پیدا ہو گئے حالات کو بھانپتے ہوئے ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے اپنے چند ڈوگرہ رشتہ دار ساتھیوں سمیت اشرفیوں کے تھیلے لے کر جموں کی طرف فرار ہونے کی کوشش کی لیکن تعاقب کر کے سکھ دستوں نے ان کو کچھ فاصلے پر گھیر لیا، اس طرح ہیرا سنگھ ڈوگرہ اپنے ساتھیوں پنڈت جلا، میاں سوہن سنگھ ڈوگرہ و میاں ولابھ سنگھ ڈوگرہ سکھ فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ اور سکھ فوج نے دلی نفرت کی بناء پر ہیرا سنگھ ڈوگرہ اور اس کے قریبی ساتھی پنڈت جلا کے سر کاٹ کر لاہور شہر لا کر نالیوں میں پھینک دیے جو کئی روز تک غلاظت میں پڑے نظر آتے رہے۔

اب رانی جنداں کے بھائی سردار جواہر سنگھ کے ہاتھ وزارت کا عہدہ لگ گیا دوسری طرف گلاب سنگھ ڈوگرہ نے انگریزوں کے ساتھ خفیہ ساز باز اور منصوبے کے تحت اس طوائف الملوکی اور بغاوت و قتل و غارت کے ماحول میں اضافہ کے لیے انتہائی مکارانہ کردار ادا کیا، اور پھر فوج کے اس باغیانہ اور سرکشی پر مبنی روئیے کے بہانے مہارانی جنداں کو مشورہ دیا کہ خالصہ فوج کو کہیں کہ اپنے ہی ملک میں لوٹ مار اور قتل و غارت کے بجائے انگریزوں پر حملہ کر دیں، حالانکہ آنجہانی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انتہائی دور اندیشی سے انگریزوں کا اقتدار دریاے ستلج کے پار تک قبول کیا تھا اور ان سے ایک دوسرے کی حدود میں تجاوز نہ کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہوا تھا، لیکن گلاب سنگھ نے سکھوں کی سلطنت پنجاب جس کا خزانہ وہ لوٹ کر جموں بھیج چکا تھا، کو تباہ و ختم کروانے کے لیے انگریزوں سے خفیہ ساز باز کی۔

قصہ مختصر کہ جب سکھ فوج انگریزوں سے لڑائی کے لیے دریاے ستلج پر پہنچی تو منصوبے کے تحت عیار گلاب سنگھ نے جوش سے بھرے خالصہ فوج کے سرداروں کو دریا پار کر کے انگریزوں پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا، جوش سے بھرے خالصہ سپاہی کچھ سوچے سمجھے بغیر دریا پار کر کے وہاں منتظر انگریزی فوج سے ٹکرا گئے، ابتدائی تھوڑی سی کامیابی کے بعد برتر اور بہتر جدید انگریزی توپخانہ نے خالصہ فوج کو پسپا کرنا شروع کر دیا، اس مرحلے پر پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گلاب سنگھ ڈوگرہ نے دو کام کئیے ایک دریا کے پل پر تعینات اپنے ڈوگرہ سپاہیوں کے دستہ سے دریا کا پل تباہ کروا دیا اور دوسرے خالصہ فوج کے توپ خانے کے بارود کی جگہ سیاہ رنگ کی مٹی بھیج دی جس سے اس کنارے پر نصب شدہ خالصہ توپخانہ انگریزی توپخانہ کا موثر جواب دینے میں ناکام رہا۔

اور پل کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے پسپا ہوتی خالصہ افواج کے پاس تباہی کے سوا کوئی راستہ نہ رہا۔ اور اس طرح تاریخ کی بدترین غداری اور نمک حرامی و احسان فراموشی کی داستان مکمل ہوئی۔ اور انگریزی فوج فاتحانہ طور پر 20 فروری سنہ 1846 ء کو دارالحکومت لاہور میں داخل ہو گئی۔ وہاں گلاب سنگھ ڈوگرہ نے چھوڑا ہی کیا تھا، اس نے پہلے ہی خزانہ اور قیمتی سامان لوٹ کر کئی بیل گاڑیوں پر لاد کر جموں بھجوا دیا جا چکا تھا۔ جب سکھ فوج کا دستہ اس کو گرفتار کر کے لانے کے لیے جموں بھیجا گیا تو اس نے اس دستے کے ہر سپاہی کو سونے کا کنٹھا اور بھاری رقم دے کر خرید لیا اور یہی دستہ اس کا محافظ بن کر اس کو لاہور لے گیا اور اس کی زندگی کی ضمانت لے کر اس کو مہارانی جنداں کے سامنے پیش کیا۔

اگر صاحب مضمون کے تحریر کردہ اعداد و شمار درست ہیں تو صرف ایک کروڑ کا تاوان جنگ جو انگریزوں اور مہارانی جنداں کے درمیان بزریہ لال سنگھ برادر مہارانی جنداں طے ہوا تھا اس کو ادا کرنے میں دربار کو ناکام نہ ہونا چاہیے تھا بلکہ دربار یہ تاوان باآسانی ادا کر دیتا لیکن خزانے میں اتنی رقم بھی نہ تھی، لہذا ایک کروڑ کی ادائیگی تک لاہور اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں انگریزی فوج کی موجودگی کا معاہدہ ہوا، اور ساتھ ستلج سے بیاس تک کا علاقہ و دیبالپور، جموں کشمیر اور ملحقہ علاقے بھی انگریزوں کے حوالے کئیے گٰے جن میں سے انگریزوں نے جموں کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیع نامہ امرتسرکے نام سے دریاے سندھ کے مشرقی کنارے تک پچھتر لاکھ نانک شاہی میں آبادی سمیت فروخت کر دیا۔

ان ہی دنوں انگریز ریزیڈنٹ کرنل لارنس ملکہ برطانیہ کو لکھے ایک خط میں گلاب سنگھ ڈوگرہ کا ذکر کرتے ہوئے اسے ایشیا کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتا ہے۔ تاریخ جموں کے مصنف مولانا حشمت اللہ خان جو ڈوگرہ حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں گورنر تعینات رہے لکھتے ہیں، کہ جنگ میں درپردہ انگریزوں کی حمایت اور سکھوں سے غداری کے عوض گلاب سنگھ نے صرف جموں کا علاقہ اپنے خاندان کے گزارے کے لیے مانگا تھا، لیکن جب مہارانی کے بھائی نے پورا جموں کشمیر تاوان میں انگریزوں کو دے دیا تو تب انگریزوں نے گلاب سنگھ کو کہا کہ تم صرف جموں کے بجائے پورا کشمیر ہی لے لو بس اس کی قیمت دینی پڑے گی۔

اگر انگریزوں کو قلعہ لاہورسے اتنے خزانے ملے ہوتے، تو وہ کشمیر فروخت نہ کرتے، بلکہ ایک تجویز کے مطابق اسے اپنی افواج کے آرام کے لیے گرمائی مرکز بناتے، جو بعد ازاں شملہ کو بنایاگیا تھا۔ خزانے کی مالیت کے اعداد و شمار بھی اسی وجہ سے سامنے نہ آئے کہ یہ زیادہ تر سنی سنائی افسانوی کہانیوں پر مشتمل تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments