محبت نامے لکھنے والی لڑکی


”میں نے تو سنا تھا کہ لوگ موت کے خوف سے محبت اور چٹھیاں سب بھول جاتے ہیں“

اس نے خط کو تہہ کر کے الماری میں رکھا جہاں اس کا آرائشی سامان اور زیور رکھے تھے۔ یہ دل کی شکل کی ایک سنہری ڈبیہ تھی۔

اور ہاتھ میں رکھی رقم کو دیکھنے لگی۔

لوگ نہیں جانتے تھے کہ اس کا اصلی نام بلیو بیل تھا۔ سب لوگ اسے محبت نامے لکھنے والی لڑکی کے نام سے جانتے تھے۔ اس نے کھڑکی کے پار دیکھا۔

نیل گگن تلے آٹھ پتیوں والے پہاڑی پھول اپنی رعنائی پر نازاں و فرحاں مسکرا رہے تھے اور دریائے ڈی دریائے ڈان کے شمال جنوب کی طرف متوازی بہہ رہا تھا صرف بیاسی میل کی مسافت پر ان دونوں کو آبنائے ابرڈن میں جا اترنا تھا۔ دریا سمندروں سے ملنے کے لیے ہی تو اتنا لمبا سفر طے کرتے ہیں۔ دونوں دریا ساتھ ساتھ بے نیازی سے ابدی سکون سے رواں دواں تھے۔

بلیو بیل نے گٹار پہ اپنا سریلا نغمہ بکھیرا، جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا۔
میں اور میری میٹھی محبت کبھی دوبارہ نہیں ملیں گے،
” دریا اپنی روانی میں بہیں گے اور وادی میں آٹھ پتیوں والے نیلے اور سنہری پھول کھلتے رہیں گے“ ،

وہ میوزک فیسٹیول میں شرکت کی تیاری کر رہی تھی جب ہر طرف بیماری اور موت کی خبروں نے سراسیمگی پھیلا دی۔

اس نے اکتا کے سوچا، کیا مصیبت ہے
اف اب ہر روز گھر میں ہی رکنا پڑے گا۔ ”
کیا فریج میں آنے والے دنوں کے لیے کافی بریڈ ہے۔ اس نے تشویش سے سوچا
، اوہ! نہیں جار اور بوتلیں تو سب خالی ہو چکی ہیں۔ میں جلد ہی اور لے آؤں گی اس نے خود کو تسلی دی۔

بلیو بیل نے شیشے سے پار گلہری کی طرف دیکھا جو خشک میوہ کترتے کترتے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ وہ سکاٹ لینڈ میں گرامبین پہاڑوں کے اس پار ایک چھوٹی سی پھولوں کی بستی میں رہتی تھی۔

شہر کے بازار میں بلیو بیل کی رنگین چھتری تلے مخصوص چبوترے پر تین پایوں والی تپائی پر پڑی ٹائپ رائٹر اس کا انتظار کر رہی تھی۔

بلیو بیل دو سال پہلے بدقسمتی سے ایک حادثے میں اپنے ماں اور باپ دونوں کو کھو بیٹھی تھی۔ وہ اپنی ایک ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد ویل چیئر کے سہارے چلتی تھی اور چٹھیاں لکھ کر معاوضہ حاصل کر کے اپنی زندگی کو چلا رہی تھی۔

بالآخر اس نے اپنی رنگین چھتری کے نیچے بنے چبوترے کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ مسٹر جو ’بلیو بیل کے قریبی ہمسائے تھے، انہوں نے اسے سمجھایا ”۔ بلیو بیل اچھی لڑکی باہر مت نکلو ان دنوں کوئی چٹھی پتر اور نامے نہیں لکھوائے گا۔ لوگ موت کے خوف سے محبت کرنا اور چٹھیاں لکھنا بھول جاتے ہیں۔ گو مجھے بھی پیسوں کی اشد، ضرورت ہے۔ اس نے مسٹر جو کی طرف بے بسی سے دیکھا اور سوچا کہ اسے کام پر جانا ہوگا

وہ اپنے حالات سے مجبور تھی اسے جینے کے لیے اور مسٹر جو کے لیے رقم چاہیے تھی۔ اس نے فیصلہ کرنا تھا کہ اسے بھوک سے مرنا پسند ہے یا بیماری سے۔

”“ بلیو بیل بازار سنسان ہیں، اور باہر جانا خطرے سے خالی نہیں ”“

مسٹر جو خاصے بزرگ اور کمزور نظر آ رہے تھے اس نے محبت سے انہیں دیکھا اور سفید دستانے چڑھائے ان کی بات کو نظر انداز کرتی اپنے کام کی طرف چلی گئی۔

پھولوں کی دکان بند تھی اور باسی پھولوں کی مہک ہوا کو نئی کہانیوں کی خبر دے رہی تھی۔ قریبی سڑک کا مالی ماسک لگائے اپنے پودوں کی کانٹ چھانٹ میں ہنوز مصروف تھا۔

اس نے غور سے دیکھا اس راستے پر گاہک چل کر اس کے پاس تواتر سے آیا کرتے تھے۔ وہ عجیب متوکل لڑکی تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ اور جتنے پیسے اس کی ضرورت کے لیے ہوتے تھے کما کر بے فکر ہو جاتی تھی۔ اس کا کام اچھا چل جاتا تھا۔ اس کے پاس گاہکوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔

وہ دیر تک اپنے ٹائپ رائٹر اور سفید کاغذوں کو دیکھتی رہی۔ وہ لاشعوری طور پر اپنے گاہکوں کی منتظر تھی۔

کیا اب مائیکل نہیں آئے گا جو اپنی محبوبہ کے لیے ہر دوسرے دن نیا محبت نامہ لکھوانے آ جاتا تھا۔ اور مارتھا بھی نہیں آئے گی جس کا منگیتر بارڈر پر پہرا دینے چلا گیا تھا۔ وہ

ان خطوط میں لکھے محبت بھرے لفظوں کی گرمی سے اپنا دل بہلا رہی تھی اور بوڑھی سوزین جس کا بیٹا دوسرے شہر کمانے نکل گیا تھا۔

اس نے دیکھا، خوف نے سب کو جکڑ رکھا ہے۔ پھولوں کا سٹال بند تھا، عطر کی شیشی والی ریڑھی بھی صاحب فراش تھی۔

اور وہ دکان جہاں رش ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ جہاں نقلی زیورات اور لڑکیوں کی آرائش کا سامان فروخت ہوتا تھا۔ جس کے بارے میں وہ اب تک فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ دکان زیورات کی وجہ سے سجی نظر آتی ہے یا لڑکیوں کے حسن نے اسے چار چاند لگائے ہوئے ہوتے مگر اب تو چاند کو گہن لگ چکا تھا۔ سب طرف پریشانی کا عالم تھا۔

خوانچہ فروش آواز لگائے بغیر نکل گئے تھے۔ اور وہ بیٹھی تھی اس نے دونوں ہاتھوں پہ دستانے چڑھا رکھے تھے۔

سڑک کنارے مالی کی قینچی کی کٹ کٹ اسے اچھی لگ رہی تھی۔ اس کی آواز سناٹے میں رونق کا احساس بھر رہی تھی، تب ہی اسے آواز آئی

”اب تم گھر جاؤ نیک دل لڑکی
سیکورٹی کا لباس پہنے ایک نوجوان اس کے بہت پاس سے گزر کے اسے مشورہ دے کے آگے نکل گیا۔

کیا تم میرے گاہک نہیں بن سکتے اس نے دل میں سوچا مسٹر جو کو بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے لیے بھی آنے والے مشکل دنوں کے لیے کچھ سامان خریدنا چاہتی تھی۔ چونکہ گھر میں اشیائے ضروریہ ناکافی تھیں۔

فریج جار اور بوتلیں خالی ہو چکی تھیں۔ وہ اور اس کی سہیلی گلہریاں کیا کھائیں گی یا شاید گلہریاں خشک میوے کے علاوہ کچھ کھا سکیں مگر بلیو بیل کا کیا ہو گا۔ اس نے دل میں سوچا۔

حکومتی امداد کے ملنے تک انہیں اپنا بندوبست خود کرنا پڑے گا۔
چٹکی بجاتے محبت نامے لکھ لینے والی لڑکی کی آنکھوں میں خوف تھا۔

چٹھیاں لکھنا اس کا ہنر تھا کیونکہ اسے سوزن کاری نہیں آتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس معذوری کے ساتھ اسے کبھی کوئی محبت بھرا لفظ نہیں بولے گا، اور اس کی زندگی اس محرومی سمیت گزرے گی۔ وہ سوچوں میں گم تھی۔

اچانک اجنبی کو کیا سوجھی۔ وہ مڑ کے واپس آیا اور پوچھنے لگا
”کیا آپ میرے لیے کچھ لکھ دیں گی۔“ ؟

میں نے سنا ہے آپ بہت پرتاثیر محبت نامے لکھتی ہیں جو دلوں کو باہم جوڑ دیتے ہیں۔ گویا نوجوان اس کے متعلق کچھ پہلے سے جانتا تھا۔

بلیو بیل کی مغموم نگاہوں میں امید روشن ہوئی۔ جی جی کیا آپ کو خط لکھوانا ہے۔ اس کی آرزو پوری ہو گئی۔
کیوں نہیں۔
کس کے نام
محبوبہ کے نام
وہ کہاں رہتی ہے۔ اس نے پوچھا
اور جواب کا انتظار کیے بغیر جلدی سے کاغذ ٹائپ رائٹر میں ڈالا
” مہربانی کر کے خط کا مدعا بتائیں“
اجنبی خواب کے سفر پہ نکل گیا۔
”اسے لکھیں کہ وہ اس دنیا کی سب سے حسین اور خوبرو دوشیزہ ہے“ وہ رکا اور پھر بولا اور یہ کہ۔
اس نے لکھا
”اے حسینہ عالم“ سلام محبت
بلیو بیل کی انگلیاں ٹائپ کرنے لگیں مگر اس کے کان اجنبی کی آواز پر مرکوز تھے۔
”لکھیں کہ میں ایک عرصے سے اس سے محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ میری زندگی میں شامل ہو جائے۔“
اچھا وہ گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ وہ خط کا متن تیار کرنے لگی بلکہ
لفظوں کے گلاب چننے لگی،

اجنبی نے سوچا، جب اس نے کسی سے محبت نہیں کی تو یہ گلابی فر والے کوٹ میں لپٹی لڑکی اس شیریں احساس کو لفظوں کے پیمانے میں کیسے انڈیلے گی۔

خود بلیو بیل کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے لکھے لفظوں سے امرت رس کیوں بہہ نکلتا۔ لطافت پڑھنے والے دلوں پر کیسے اثر کیا کرتی۔ اس شہر میں سب جانتے تھے کہ اس کے لکھے

حروف دو دلوں کے بیچ پل کا کام کرتے ہیں اور اس کے۔ لکھے ہوئے پریم پتر عاشق اور محبوب کو بہت قریب لے آتے ہیں۔ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود لوگ بلیو بیل سے محبت نامے لکھوایا کرتے تھے۔

جب اس کی مخروطی انگلیاں ٹائپ رائٹر پہ کام کرتیں تو ایسے لگتا جیسے کوئی گٹار بجا رہا ہو۔ دراصل اس کی ماں گٹار بجایا کرتی تھی اور اس کا باپ حادثے سے پہلے بیگ پائپر تھا۔ محبت اس کی پور پور سے بہتی تھی جو لفظوں سے نکل کر دلوں میں اتر جاتی تھی۔ شاید یہ کرامت کسی محرومی کا نتیجہ تھی۔

اس نے اپنے ٹائپ رائٹر کا رخ سیدھا کیا اور دستانے اتار کر ٹوکری میں رکھے۔ تیزی سے خط مکمل کرنے لگی۔
اس کی ماہر انگلیاں ایسے بجنے لگیں جیسے رقاصہ کسی دھن کی لے پر رقص کناں ہو۔
یہ لیجیے۔ اس نے اپنے تئیں ایک مکمل خط لکھ کر اجنبی کے حوالے کیا۔
نوجوان نے اسے کھولا اور پڑھا۔
اے حسینہ عالم، میری دلبر
واہ کیا القاب ہیں
اس نے الفاظ کو سراہا اور اجرت تھما دی۔ رقم دیکھ کر اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا
” یہ تو بہت زیادہ ہیں“

اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ تو بہت زیادہ ہیں میں تو پچاس سٹرلنگ لیتی ہوں بس اور یہ تو اتنے سارے پاؤنڈز ہیں۔ اس نے ہاتھ پیچھے کر لیے

پلیز، انہیں رکھ لیجیے اس کے لہجے میں اپنائیت اور ہمدردی تھی۔ آنے والے دنوں میں شاید آپ کو ان کی ضرورت ہو۔

نوجوان کی آواز میں مٹھاس اور نرمی تھی۔
محبت نامے لکھنے والی لڑکی کو گھر کے خالی جار اور مسٹر جو یاد آ گئے اور اس نے تشکر سے سر جھکا دیا۔
اوکے
نوجوان جا چکا تھا۔ مگر محبت نامہ تو لے کر نہیں گیا اس نے حیرت سے سوچا
” اررے یہ اپنا خط تو لیتے جائیے“
”سچ تو یہ ہے یہ آپ کے نام ہے۔“

بلیو بیل حیرت سے مجسمہ بنی بیٹھی رہی۔ وہ کیسی باتیں کر رہا تھا۔ اسے لگا جیسے کوئی حسین خواب ہو۔ حب تک وہ خواب سے باہر نکلی سیکورٹی افسر بہت دور جا چکا تھا

اس نے حیرت سے محبت نامے کو دیکھا چوما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ اور گھر واپس چلی آئی۔
مسٹر جو تو کہتے تھے ”لوگ وبا کے دنوں میں موت کے خوف سے محبت اور چٹھیاں لکھوانا سب بھول جاتے ہیں۔

وہ مسٹر جو کو یہ خبر سنانے کے لیے ان کے گیٹ تک پہنچی اس نے بتایا کہ سیکورٹی مین نے کس طرح اس کی مدد کی۔ وہ اسے باہر ہی مل گئے۔ وہ کچھ رقم اپنے بزرگ ہمسائے کو دینا چاہتی تھی۔

مسٹر جو آج کامیابی ہوئی
آپ کو کتنی رقم کی ضرورت ہے۔ جانے کیسے اسے پتہ چل جاتا تھا کس کو کب کیا چاہیے ہوتا ہے۔
مسٹر جو اپنی گاڑی کے پہیے صاف کر رہے تھے۔ مسٹر جو نے اس سے گاہک
کے متعلق پوچھا ان کی آنکھوں میں تشویش کا دھواں بھر گیا وہ اچانک بولے رقم مجھے دو
میں جلد لوٹا دوں گا۔

اس نے گھبرا کے سوچا مسٹر جو کو کیا ہوا وہ تو ایسے نہ تھے۔ شاید کوئی بڑی مجبوری ہو گی۔ اسے اپنے گھر کے خالی جار اور برتن یاد آ رہے تھے جن کے لیے اس کے پاس یہی رقم تھی،

اس کا دل چاہا کہ وہ دینے سے انکار کر دے یا آدھی رقم ان کو دے دے مگر وہ کبھی کسی کو ضرورت کے وقت انکار نہ کر سکی تھی دو پل کے بعد اس نے ساری کرنسی ان کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

مسٹر جو ’اٹھے اس کے سامنے رقم کو آگ لگا دی جلدی سے ہاتھ دھو لیے اور چیخ کر بولے مجھے یاد آیا بلیو اپنے ہاتھ صاف کرو اس سیکورٹی مین کا بھائی کل ہی اٹلی سے آیا ہے۔ کرنسی جرثومے کی ترسیل کا ذریعہ ہے اسے آئے ہوئے چودہ دن نہیں گزرے ان کی آنکھوں میں خوف کا سمندر تھا۔

کیا تمہیں کچھ خبر ہے وہ چیخے
نہیں وہ بولی

اس نے ویل چئیر گھر کے رخ موڑی، سنہری ڈبیہ کھولی اور بے خوف بے نیاز اپنے ہی لکھے ہوئے خط کو جو خود اس کے نام تھا بے تحاشا چومنے لگی۔

کاغذ سیکورٹی مین کے ہاتھوں کی مہک سے معطر تھا۔ محبت نامے لکھنے والی لڑکی کی روح محبت کے سنگ اڑنے لگی۔ محبت کی فطرت میں یہ کیسی بے نیازی ہے

وہ اس لمحے ہر ڈر ہر خوف سے آزاد تھی۔
دریائے ڈی دریائے ڈان کے پہلو میں ابرڈن کے سمندر میں اترنے کے لیے سکون سے بہہ رہا تھا۔
میری میٹھی محبت اور میں کب دوبارہ ملیں گے۔ ؟ وہ زیر لب گنگنانے لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments