مودی ’کی نیک خواہشات کسی طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں


بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم پاکستان کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے نام اپنے خط میں مبارک باد دینے کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی اپنے خط میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو مبارک باد دی ساتھ ہی کہا کہ پاکستان کے ساتھ علاقائی شراکت داری کو مستحکم بنائیں گے۔ جو بائیڈن نے پاکستانی قوم کو مبارک باد دی، لکھا کہ پاکستان امریکہ پارٹنر شپ علاقائی امن و خوشحالی کے مشترکہ مقصد پر مبنی ہے، افغانستان میں قیام امن اور کورونا وبا پر قابو پانے کے لیے تعاون جاری ر کھیں گے۔

اسی طرح بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھی یوم پاکستان پر عمران خان کو یوم پاکستان کی مبارک باد دی۔ حسینہ واجد نے کہا کہ بنگلہ دیش اپنے ہمسایوں بشمول پاکستان کے ساتھ پر امن اور باہمی تعاون پر مشتمل تعلقات چاہتا ہے۔ دیگر ممالک بھی ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے شہزادہ محمد نے عمران خان کے خط کے جواب میں نیک خواہشات کا اظہار کیا، انہیں نے سعودی عرب آنے کی دعوت بھی دی۔ یہ کوئی خاص بات نہیں مختلف ممالک کے یوم آزادی، یوم قیام یا قومی تہواروں پر ایک دوسرے کو تہنیتی پیغامات بھیجنا ایک روایتی طریقہ کار ہے۔ اچھی اور خوش آئند بات ہے۔ پاکستانی صدور و وزیر اعظم بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔

توجہ طلب اور غور طلب بات یہ ہے کہ مودی سرکار نے عمران خان کی خیریت بھی دریافت کی جب وہ اور ان کی بیگم بشریٰ بیگم کورونا میں مبتلا ہوئے۔ اس عمل کو بھی مثبت انداز سے ہی لینا چاہیے کہ ایک ایسا سخت دل، بے رحم، پاکستان دشمن، متعصب، کشمیریوں پر جس نے زندگی تنگ کردی ہے کیسے دوستی، رحم دلی، نیک خواہشات کی باتیں کرنے لگا ہے۔ کہیں ان باتوں کے پیچھے کوئی طوفان تو نہیں۔ اس لیے کہ مودی نے اپنے خط میں اقرار کیا ہے کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان قریبی اور خوشوار مراسم کے لیے دشمنی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

حیرت کی بات ہے مودی اور دشمنی ختم کرنے کی بات کر رہا ہے وہ بھی پاکستان سے۔ انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ ہم پاکستانی عوام کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں اس لیے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور دہشت گردی سے پاک اعتمام سازی کی فضا قائم کرنا ضروری ہے۔ اپنے اس محبت نامے میں مودی نے کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو انسانیت کے لیے ایک مشکل وقت قراردیا اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستانی عوام کے ساتھ ہونے کا یقین دلایا۔

یہ تمام باتیں مودی سرکار کی درست ہیں، حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک بخوبی ہوتے ہوئے بھی بھولے بادشاہ بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ بنیادی مسئلہ ہے جسے مودی حکومتوں سے پہلے والی حکومتوں نے بھی پس پشت ڈ الے رکھا، ہیلے بہانے سے کام لیتی رہیں، یہاں تک کہ پاکستان سے باقاعدہ جنگیں بھی ہوئی۔ پاکستان کا ایک بازو الگ کرنے میں بھارت کا کلیدی کردار رہا۔ حال ہی میں مودی کا یک بیان نظر سے گزراتھا جس میں اس نے کہا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے وہ جیل بھی گئے۔ اس بات سے ان کی پاکستان اور پاکستان سے محبت صاف عیاں ہے۔ بابری مسجد کا واقع مودی حکومت کارنامہ ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو جس طرح مودی نے بھارت کے حق میں تحلیل کرنے کی عملی کوشش کی کسی اورسابقہ بھارتی حکمراں نے نہیں کی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل نکالنا طے ہوا تھا، یہ بھارت ہی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سات عشروں سے التوامیں چلا آ رہا ہے۔ مودی کو یاد ہونا چاہیے کہ پاکستان کے وزی اعظم عمران خان کو تو بہت امید تھی کہ مودی وزیر اعظم بن گیا تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن عمران خان کا اندازہ غلط نکلا، عمران خان نے کہا تھا کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔

لیکن مودی بہادر تم نے کیا کیا؟ تم نے تو کشمیر کی مقبوضہ حیثیت کو ختم کر کے اسے مختلف حصوں میں بانٹ کر بھارت میں ضم کرنے کی عملی کوشش کی، کشمیریوں کو سالوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایاہوا ہے، کشمیری مسلمان لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے نظر بند کیا ہوا ہے، کشمیر وادی میں کرفیو کا نفاذ عرضہ دراز سے کیا ہوا ہے جس کے باعث کشمیریوں کو اپنے روزمرہ زندگی میں مشکلات کا سامنے کرنا پڑ رہا ہے، بے گناہ کشمیریوں کو بھاتی فوج نے گولیاں برسا کر ہلاک کر دیا ان بے گناہ کشمیریوں کا خو ن ناحق تمہاری رگردن پر ہے۔ پاکستان کی کنٹرول لائن کی خلاف ورزیہ کرنا تو تمہاری سرحدی افواج کی عادت ہے جہاں پر انہیں منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو کمزور سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، بھول گئے اپنے پائلٹ کو، یہ پاکستان کی دریا دلی تھی کہ اسے واپس کر دیا۔

اگر واقعی تم سنجیدہ ہو، پڑوسی ملک سے دوستانہ مراسم کی خواہش رکھتے ہو، کشمیریوں کو ان کا جائز حق دینے میں سنجیدہ ہو تو پاکستان تم سے پیچھے نہیں رہے گا۔ عمران خان اپنی بات سے نہیں پھرے گا کہ تم اگر دوستی کا ایک قدم بڑھاؤگے تم ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ دوستی کے ساتھ، مل جل کر، پیار محبت کے ساتھ رہنا ہی حقیقت پسندی ہے۔ اب جنگوں کو زمانہ چلا گیا۔ دنیا کو معلوم ہے کہ تم بھی اور ہم بھی ایٹمی قوت ہیں۔ لیکن یہ ایٹمی قوت ہمارے اللہ نے اور تمہارے بھگوان نے اس لیے نہیں دی کہ تم حکمراں اپنے ملک کے غریب عوام کو نہ حق ایٹمی جنگ میں جھونگ دو۔

اس عوام نے تم حکمرانوں کا کیا بگاڑا، تمہیں ووٹ دے کر حکمران بنایا، اس لیے کہ تم بے قصور عوام کو جنگ میں جھونک دو، ان پر زندگی تنگ کردو، ان کے عزیز رشتہ داروں کو سالوں ایک دوسرے سے ملنے نہ دو، وہ عزیز رشتہ دار ایک دوسرے کی قبر کو مٹی بھی نہ دے سکیں۔ پاکستان نے سکھوں کو یہ سہولت فراہم کی کہ وہ کرتار پور آسکیں تو کیا پاکستان کے مسلمانوں کو تم یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ بھی اپنے اجداد کی قبروں پر جاکر نذرانہ عقیدت پیش کرسکیں۔

مودی، یہ بھارت تمہاری باپ دادا کی ملکیت نہیں، مت بھولو اس سرزمین پر مسلمان سالوں حکومت کرتے رہے ہیں۔ ان کے بعد انگریز نے حکومت کی تم اس کے کہاں کے حکمران بن گئے۔ تمہیں حکمرانی کرتے ہوئے سات دہائیاں ہوئی ہیں۔ وہ بھی انگریز سے گٹھ جوڑ اور سازش کر کے تم نے ان علاقوں کو جو پاکستان میں شامل ہونا طے تھے ہوئے تھے انہیں بھارت میں شامل کرا لیا اسی طرح مقبوضہ کشمیر پر بھی تم نے انگریز کے ساتھ مل کر سازش کی اور اس پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔

اگر وقعی تم اپنے بھگوان کا خوف آ گیا ہے اور تم کچھ اچھا کرنا چاہتے ہو، اپنے بد کرتوتوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہوں تو کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دے دو۔ اپنا وہ کالا قانون واپس لے لو۔ مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلا لو، قیدسے کشمیریوں کو رہا کردو۔ اسی طرح دونوں ملکوں کے مابیں امن اور دوستی قائم ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments