میرا بچہ منفرد ہے۔ دوسرا حصہ۔


اپریل کا مہینہ پوری دنیا میں آٹزم آگاہی مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دو اپریل عالمی یوم آٹزم ہے۔ لہذا ایک سات سالہ آٹسٹک بچے کی ماں ہونے کے ناتے ہم نے اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ہماری اولاد اور ایسے کئی بچے جس معاشرے میں پروان چڑھیں وہاں ان کا مذاق اڑانے کے بجائے، انہیں ماں باپ کے گناہوں کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے، ان کے لیے زندگی آسان کی جائے۔ اور ان کے مسائل کا سدباب کیا جائے۔ اس سلسلے کا ایک مضمون چند روز قبل ”ہم سب“ کے لیے لکھا گیا تھا۔ جس میں آٹزم کی بنیادی تعریف اور اہم علامات بتائی گئی تھیں۔ یہ مضمون اسی کے تسلسل میں لکھا گیا ہے۔

آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر ایک کثیر الجہتی نفسیاتی مسئلہ ہے جس کی کئی علامات ہو سکتی ہیں۔ اس کا تعلق پی ڈی ڈی یعنی pervasive developmental disorders سے ہے۔

آٹسٹک بچوں سے کئی مخصوص رویے منسوب کیے جاتے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

اپنا نام پکارے جانے پر توجہ نہ دینا، مخاطب سے نظریں چرانا، اشارے کی سمت نہ دیکھنا اور اشارہ نہ سمجھنا، تنہائی پسند ہونا، بول چال میں دشواری، پنجوں کے بل چلنا، کھلونوں خصوصاً گاڑیوں سے عام بچوں کی طرح نہ کھیلنا، انہیں لمبی قطاروں میں لگانا یا پھر گھومنے والی چیزوں مثلاً پنکھے، لٹو یا گاڑی کے پہیوں میں حد سے زیادہ دلچسپی لینا بھی آٹزم کی علامت ہو سکتی ہے۔ کھانے پینے میں بے حد محدود چیزیں پسند کرنا، اپنائیت اور اجنبیت میں تفریق نہ کرنا، خوف یا خطرے کا بالکل ادراک نہ ہونا یا حد سے زیادہ خوف اور ان عوامل سے خوف زدہ ہونا جو عام لوگوں کے نزدیک بے ضرر ہوں بعض صورتوں میں آٹسٹک بچوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات اور احساسات کا بہت ہی زیادہ خیال کرنا یا بالکل خیال نہ کرنا بھی ایک علامت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھیے گا کہ ضروری نہیں کہ یہ سب لازماً آٹزم کی ہی علامت ہو۔

ان کے علاوہ کچھ چیدہ علامات ہیں جو یہاں بیان کرنا ضروری محسوس ہو رہی ہیں۔

Stimming or rocking

یعنی جسم کے کسی بھی حصے کی غیر ارادی اور تکراری حرکت، جیسے ہاتھ یا سر ہلانا۔ یہ عمل عموماً آٹسٹک افراد پریشانی، اضطرار یا خوشی وغیرہ کی کیفیات میں زیادہ کرتے ہیں۔ اور اس سے وہ سکون اور طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ اسٹمنگ صرف جسمانی نہیں بلکہ زبانی بھی ہو سکتی ہے جسے ”ایکو لیلیہ“ کہا جاتا ہے۔

Echolalia :

یعنی لفظی تکرار یا کوئی بات بار بار دہرانا۔ آٹسٹک افراد عموماً اس رویے کو اپنی مدد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں گفتگو میں مشکل درپیش ہوتی ہے، لہٰذا وہ دوسروں کے کہے ہوئے الفاظ کو بار بار دہرا کر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ معنی و مفہوم سمجھ کر ایسا کرتے ہیں اور کبھی بغیر سمجھے دہراتے رہتے ہیں۔ اسی طرح طویل اور مشکل گفتگو، ذو معنی گفتگو یا طنزیہ گفتگو آٹسٹک افراد سمجھ نہیں پاتے۔ لہٰذا وہ بات کو دہرا کر خود کو وہ وقت مہیا کرنا چاہتے ہیں جو بات سمجھنے کے لئے درکار ہے۔

Meltdown :

جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ آٹسٹک افراد کے دماغ میں معلومات کی ترسیل اور تشریح عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے، لہٰذا ایسے بہت سے روزمرہ کے عوامل ان کی سماعت، بصارت، اور دیگر حسیات پہ گراں گزرتے ہیں جو ہمارے لیے غیر محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً تیز روشنیاں، کسی کا لمس، لوگوں کا ہجوم، آوازیں، تیزی سے آتی ہوئی معلومات یا کچھ اور۔

جب آوازوں کا شور، ہجوم، یا تیز روشنیاں وغیرہ آٹسٹک افراد کی قوت برداشت سے بڑھ جائیں تو اکثر وہ ہوتا ہے جو نہ صرف والدین یا اساتذہ کے لئے مشکل صورتحال ہوتی ہے، بلکہ خود آٹسٹک افراد کے لئے ایک بھیانک خواب ہوتی ہے۔ جسے انگریزی اصطلاح میں میلٹ ڈاؤن کہا جاتا ہے۔ یعنی بے حد غصہ، چیخنا چلانا اور پھر رونا۔

meltdown

کو قابو کرنا خود آٹسٹک افراد کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔

جیسا کہ پچھلے مضمون میں یہ بھی بتایا گیا کہ آٹزم کی تشخیص کے ساتھ درجہ بندی بھی کی جاتی ہے۔ اسی طرز کا ایک ٹیسٹ ”کارز“ کہلاتا ہے۔ جس میں کئی سوالات ہوتے ہیں جن کے جوابات کے الگ الگ نشانات یعنی اسکور ہوتا ہے۔ گو کہ یہ طریقہ کار اب دنیا بھر میں فرسودہ تصور کیا جاتا ہے اور میں ماہر نفسیات نہیں ہوں لہٰذا جدید طریقوں پر رائے نہیں دے سکتی سو اسی ٹیسٹ کے مطابق درجہ بندی کا فرق بیان کروں گی۔

انتہائی فعال آٹسٹک افراد میں (Mild) مائلڈ آٹزم یعنی ہلکے درجے کا آٹزم کہا جاتا ہے۔ ایسپرجرز سنڈروم (asperger ’s syndrome) اسی درجے کے آٹزم کو کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہم وطن کیوں کی پڑوسی ملک کی فلموں کے شیدائی ہیں لہذا یہ نام پڑھ کر آپ سب کے ذہن میں ”مائی نیم از خان“ نامی فلم تو یقیناً آئی ہوگی جس کا مرکزی کردار اسی اعصابی بے ترتیبی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسی طرح بیسویں صدی کے عظیم حساب دان اور کمپیوٹر کے بانی سمجھے جانے والے ایلن چیورنگ، جن کی زندگی پر امیٹیشن گیم نامی فلم بنائی گئی، ان کے بارے میں بھی کچھ نفسیاتی ماہرین یہی تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ وہ ایسپرجرز سنڈروم میں مبتلا تھے۔

جیسے جیسے آٹسٹک فرد کا روزمرہ کے معمولات میں دوسروں پر انحصار بڑھتا ہے اسے moderate یعنی درمیانی درجے کا آٹزم اور پھر severe یعنی کہ شدید درجے کا آٹزم کہتے ہیں جس میں کبھی بچوں کو دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔ جو بچے شدید آٹزم میں مبتلا ہوتے ہیں ان کا انحصار اکثر کلی طور پر دوسروں کے اوپر ہوتا ہے۔ لیکن مختلف مشقوں سے حالات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔

والدین کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ آٹزم میں مبتلا بچے اکثر اوقات کسی اور نفسیاتی مسئلے میں بھی مبتلا ہوتے ہیں جیسے سینسری پروسیسنگ ڈس آرڈر (SPD) ، اے ڈی ایچ ڈی ADHD یعنی یاداشت اور توجہ کی خرابی، یا ڈس لیکسیا dyslexia یعنی لکھنے پڑھنے میں دشواری وغیرہ۔

اگر آپ اس ساری معلومات کی بوچھاڑ سے حیران و پریشاں اور مایوس ہو گئے ہیں تو اس سلسلے کا تیسرا مضمون ضرور پڑھیے گا جس میں بہت سی امید افزا اور حوصلہ افزا معلومات ہوں گی۔ مختصراً یہ بتاتی چلوں کہ میرا بیٹا، جس کا ذکر میں نے سابقہ مضمون کی ابتدا میں کیا تھا، آج مجھے ماں کہہ کر بلاتا بھی ہے اپنی بات سمجھاتا بھی ہے اور روزمرہ کے بہت سے کام خود کرتا ہے۔ اگر اب بھی تسلی نہیں ہوئی تو حضرت گوگل پر مشہور آٹسٹک افراد لکھ کر تلاش کیجیے اور کامیابی کی کئی داستانیں آپ کے سامنے ہوں گی۔ مگر یہ کامیابی یقیناً محنت، مسلسل محنت اور بہت سی محبت اور توجہ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آپ اس سلسلے میں اپنے اور آٹسٹک افراد کے لیے کیا کر سکتے ہیں یہ بہت جلد قلم بند کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments