تھر یاترا اور جام ساقی کا جنجھی


عمرکوٹ سے نکلتے ہی زونگ نیٹ ورک نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ہماری منزل عمرکوٹ سے 150 کلومیٹر آگے ہیرار کے قریب تھی۔

کوئلے پر کام شروع ہونے کے بعد تھرپارکر کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔ نوکوٹ سے نگر پارکر تک آپ کو کارپینٹڈ روڈ ملے گا مٹھی سے عمرکوٹ وایا چیلہار روڈ کسی موٹر وے سے کم نہیں ہے۔ اسلام کوٹ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اسلام کوٹ اب انٹرنیشنل شہر بننے جا رہا ہے۔ اینگرو کے اسکول اور ائرپورٹ نے صحرا کے اس شہر کو دبئی بنا دیا ہے۔ وسطی اور شمالی تھر میں، جنوبی تھر کی بنسبت انفراسٹرکچر کم سہی لیکن کھپرو اور عمرکوٹ سے کافی بہتر ہے۔

عمرکوٹ سے چھاچھرو پہنچے، جس کے بعد چھاچھرو سے مبارک رند تک 50 کلومیٹر کا راستہ انتہائی گندا تھا 20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنا پڑا۔ لیکن مبارک رند سے ہیرار کا راستہ نیشنل ہاء وے سے بھی بہتر تھا۔

مبارک رند اور ہیرار کے درمیان میں ایک عمودی ٹیلہ آتا ہے، ٹیلے کے دامن میں ایک تاریخی گاؤں جنجھی واقع ہے۔ جی ہاں جنجھی، وہ گاؤں جہاں جام ساقی نے جنم لیا تھا، جس نے ضیائی مارشل لاء کا مقابلہ کیا، وہ جام ساقی جس کی ضمانت کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو ملٹری کورٹ میں پیش ہوئی تھیں۔

اسی گاؤں میں مائی سکھاں کی بھی قبر ہے۔ وہ مائی سکھاں جسے گاؤں کی خواتین نے بتایا کہ تمہارے شوہر جام ساقی کو فوجیوں نے مار دیا ہے۔ یہ سنتے ہی مائی سکھاں نے کنویں میں کود کر خودکشی کر دی تھی۔ 2008 میں PPP حکومت میں آنے کے بعد جنجھی کے گرلز ہائی سکول کا نام بھی مائی سکھاں اسکول رکھ دیا۔

صحرائے تھر مردم خیز رہا ہے، اسی سرزمین سے جام ساقی نے جنم لیا، دیواریں اور چھوٹی سی دنیا جیسے مشہور زمانہ ڈراموں کے خالق عبدالقادر جونیجو نے بھی تھر کی مٹی سے جنم لیا ہے۔ یہ تھر کی خوشنصیبی ہے کہ علامہ جلال الدین سنگراسی، علامہ کلیم جیسے غزالیٔ زماں بھی تھر کے حصے میں آئے۔ چیلہار کے لکھاری راء چند ہری چند اور دریا دل انسان لاٹ بھی اس سرزمین کے سپوت بیٹے ہیں۔ کلاسیکل فنکار صادق فنکار اور مائی بھاگی بھی کی سندر آواز بھی تھرپارکر کی پہچان ہیں۔

ذکر ہو رہا تھا جنجھی کا، جسے دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس کمزور خاک سے ایسے شیر بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ضیاء کی آمریت کو للکارا، مشرفی بیعت سے انکار کیا۔ 1980 کے دور میں یہاں نا نیٹ تھا نہ موبائل فون، نا پی ٹی سی ایل PCO تھے نا روڈ تھے نا ہی کاوش اور جنگ اخبار پہنچتے تھے۔ بی بی سی سیربین واحد اطلاعات کا ذریعہ تھی۔ اتنی ساری محرومیوں کے باوجود بھی ایک جوان اس گاؤں سے نکلتا ہے اور سارے سندھ کا سر فخر سے بلند کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تھرپارکر کے اس ہیرو کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی نعمتیں نصیب فرمائے۔ آمین۔
جام ساقی کے مزید تعارف کے لیے نور الھدی شاہ کا یہ کالم پڑھیں۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1791747004223313&id=100001640927381
ولیج جنجھی GPS
https://gps-coordinates.org/my-location.php?lat=24.95273166666667&lng=70.65659166666666


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments