پاکستان نیوی میں گزارے سنہرے دن: کراچی کا سفر


دو دن کے بعد کراچی کے لئے ٹرین کی ٹکٹ کنفرم تھیں۔ شام کو سات بجے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا والد صاحب اور چھوٹا بھائی اسٹیشن چھوڑنے آئے تھے۔ اسٹیشن پر ابھی دو لڑکے آئے تھے۔ خیبر میل ٹرین کا نام تھا۔ پلیٹ فارم نمبر 9 پر چار عدد بوگیاں علیٰحدہ ہی کھڑی تھیں جو پاکستان نیوی کے جوانوں کے لئے ریزرو تھیں۔ ٹرین کے روانہ ہونے کا وقت نو بجے رات کو تھا۔ والد صاحب اور بھائی تو واپس گھر چلے گئے۔ ان کے جانے کے وقت منظر جذباتی ہو گیا۔

دل میں کچھ کچھ پریشانی کا احساس ہوا لیکن اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اپنی پریشانی کو کم کرنے کی غرض سے میں آئے ہوئے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو گیا۔ وقفہ وقفہ سے لڑکے آتے گئے۔ تقریباً نو بجے تک دس پندرہ لڑکے آ چکے تھے۔ جب نو بجے تو بوگیوں کے ساتھ انجن آ کر لگ گیا اور سائرن بجانے لگا ہم ڈبوں میں سوار ہو گئے۔ انجن ان بوگیوں کو کھینچ کر پلیٹ فارم نمبر 2 پر لے آیا اور پلیٹ فارم نمبر 2 پر خیبر میل کھڑی تھی اس کے ساتھ ان بوگیوں کو جوڑ دیا گیا۔

دس بجے ٹرین نے چلنے کا سائرن بجایا اور خراماں خراماں چلنا شروع کیا۔ اس وقت کی سب سے سست ترین ٹرین خیبر میل ہی تھی۔ لاہور سے جو ساتھی بنے ان میں سے ایک نام طاہر بزمی یاد ہے اب تک۔

ٹرین جب لاہور سے نکلی تو سب دوستوں سے شام کے کھانے کی بابت بات ہوئی تو پتہ چلا کہ سب لڑکے کھانا گھر سے ساتھ لے کر آئے ہیں۔

دستر خوان بچھایا اور سب نے اپنا اپنا کھانا اس پر سجا دیا اور سب نے مل کر کھایا۔ ساتھی راستے میں ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ ٹرین جب لاہور سے روانہ ہوئی تھی تو چند لڑکے ہی تھے لیکن جیسے جیسے سفر گزرتا گیا اسٹیشن آتے گئے بوگیاں اپنی سواریوں سے بھرتیں گئیں۔ لاہور سے چلے تو رائے ونڈ، پتو کی، اوکاڑہ اور ساہیوال آیا۔ ساہیوال سے ایک لڑکا سوار ہوا جس کا نام جعفر تھا اور تعلق لگتا تھا کہ ویسٹ انڈیز سے ہے اور عادت ایسی کہ اس کے آنے کے بعد ہماری بوگی تو زعفران زار ہو گئی۔

اس نے جگتیں، لطیفے سنا سنا کر ماحول کو خوشگوار کر دیا۔ کچھ لڑکے پردیس جانے کی وجہ سے اداس تھے تو ان کے چہروں پربھی رونق آ گئی تھی۔ لڑکوں نے ٹولیاں بنا لیں، تاش اور لڈو کی بازیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ لڑکے سو گئے۔ خانیوال جنکشن گزرا، صبح صبح ہم ملتان پہنچے، ملتان اسٹیشن سے ناشتہ خریدا اور سب نے مل کر کھایا۔ ملتان سے چلے تو خیبر میل نے اپنی رفتار برقرار رکھی۔ صادق آباد پنجاب کا آخری اسٹیشن اس کے بعد ہم پاکستان کے خوبصورت خطے مہران صوبہ سندھ میں داخل ہوئے۔

روہڑی جنکشن، سکھر، نوابشاہ تک تو ڈبوں میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ رہی تھی۔ سفر نے تو تھکا ہی دیا تھا۔ کبھی سو جانا کبھی کھڑکی سے باہر دیکھنا اور کبھی باتیں کر کے وقت گزارتے رہے۔ ٹرین بھی تو خیبر میل تھی جو اپنی مرضی سے ہی چلتی تھی۔ مغرب کے وقت حیدرآباد آیا۔ دل کو تسلی ہوئی کچھ آس بندھی کہ اب سفر تمام ہونے کو ہے۔ حیدر آباد کے گزرنے کے بعد خدا کا شکر کیا کہ اب کراچی ہی آئے گا۔ حیدر آباد سے پہلے ہم سارا دن ہریالی دیکھتے رہے۔

حیدر آباد کے گزرنے کے بعد شام کا اندھیرا تھا اور روشنیوں کی ایک نا ختم ہونے والی لائن تھی جو ہمارے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھی۔ دل ہی دل میں خوش بھی ہوتے اور وسوسے بھی آ رہے تھے کہ پہلی بار گھر سے باہر نکلے ہیں پردیس کیسا ہو گا۔ ایسے خیالات دل و دماغ میں گھوم رہے تھے۔ کبھی خوشی اور کبھی ملال۔ اپنوں کو تو گھر چھوڑ آئے تھے۔ اب جدائی کا احساس شدت سے ہو رہا تھا۔ کبھی کبھی آنکھیں نم بھی ہو رہی تھیں۔ کئی لڑکوں نے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ لئے تھے کہ کسی دوسرے کو ہمارے احساسات کا علم نہ ہو کہیں مبادا مذاق نہ اڑایا جائے۔ حیدر آباد کے گزرنے کے بعد بوگی میں سناٹا چھا گیا تھا۔ منزل کی آمد کا اور گھر سے دوری کا احساس سب لڑکوں کی طبیعتوں پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ کچھ لڑکے روزگار ملنے کی وجہ سے سرشار تھے۔

خیبر میل ٹرین خراماں خراماں اپنی منزل کراچی کی طرف گامزن تھی۔ آخر کار کراچی شہر کی آمد ہوئی اور ہم کراچی کی حدود میں داخل ہوئے اور چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کے نام پڑھنے لگے۔ لانڈھی، ڈرگ روڈ اور پتہ نہیں کیا کیا پڑھا اور دیکھا اسی انتظار میں کراچی کینٹ کا ریلوے اسٹیشن آ گیا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments