دیسی سبزی کہاں سے لاؤں؟


ماں جی نے کہا پتر آج بازاروں جا کے دیسی لہسن تے لایا دے۔ اس وبائی دور اچ مینوں ہن اپنی دیسی سبزی تے اعتبار ہے۔ چین توں کوروں ا وی آیا تے ہن سبزیاں وی اوتھوں آ ریا نیں۔ بازار جا کر تلاش کیا سبزی فروشوں کے چکر لگائے ہر ایک کے پاس لہسن تو تھا پر چائنہ کا۔ مجبور ہو کر چائنہ کا لہسن ہی خریدہ۔ گھر آ کر ماں جی کوبازار کا حال دیا۔ تو انہوں نے کہا پتر تقسیم توں پہلاں ایسٹ انڈیا کمپنی سی تے بنگال دا قحط اسے کمپنی دی دیں سی۔ ہوں کی کوئی چائنیز کمپنی آ گئی اے۔ ساڈہ اپنا دیسی تھوم کتھے گیا۔ کسان لہسن کیوں نہیں بوندے پئے؟ اے چائنہ ولا کیوں زبردستی ویچی جا رہے نیں؟ ہائے کتھے حکومت نے زمیناں چینیاں نوں تے نہیں دے دتیاں؟

کارپوریٹ فارمنگ کا زمانہ ہے بڑی بڑی کمپناں حکومت سے زمینیں لمبے عرصے کے لئے 50 سے سو سال کے عرصہ کے لئے کم کرائے پر لے کر منافع بخش فصلیں اگاتی ہیں۔ چینی کمپنی کو بھی منافع کمانا ہے کما لے۔ تے پتر جدوں گل منافع دی آئے گی اودوں صحت تے فیر پچھے رہ گئی بس منافع لئی فصل لائی کمائی کیتی تے بس۔

پھر ایک دن سبزی فروش پھری والا گلی میں آ گیا مان جی نے کہا اج مینوں سبزی لے لین دے۔ توں وی نال کھلو جا۔ سبزی والے کو کہا دیسی لیموں دے کہتا ہے چینی لیموں لے لو۔ فیر پیاز اور تھوم کا معلوم کیا وہ بھی چینی۔ اے گاجراں نوں کی ہویا اے۔ اے وی چینی نے۔ پتر کی پنجابیاں نے وائی بیجی چھڈ دتی اے؟ ہر شے چینی۔ اینج کر مینوں پنڈ چھڈ آ میں نہیں او رہنا شہر اچ۔

پھر کیا ماں جی شہر چھوڑ کر بستی آ گئیں۔ اور میں شہر چلا آیا۔ اور سارا راستہ یہ سوچتا رہا تہیتر برس میں محکمہ زراعت کیا کرتا رہا ہے؟ کیوں وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا؟

لائل پور میں ایک بڑی زرعی یونیورسٹی کیا گل کھلا رہی ہے؟ ڈگریاں تو بانٹی جا رہی ہیں پر زراعت کے شعبہ پر اثرات کیوں نظر نہیں آرہے؟

آج جنوبی پنجاب جہاں کی آب و ہوا کپاس کی فصل کے لئے بہترین ہے۔ وہاں گنا اگایا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجابکے ایک ضلع رحیم یار خان میں چھ شوگر ملز ہیں۔ اور یہ اس ضلع کی بات ہے جہاں پینے کے لئے میٹھا پانی پہلے ہی کم یاب ہے۔ جہاں بارشیں کم ہونے کی وجہ سے گنے کی فصل پر زیر زمین پانی کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے وہاں کے باسیوں کو پینے کے لئے میٹھا پانی دستیاب ہو نہ ہو پر گنے کے لئے زمین سے بچا کچا پانی بھی کھنچھا جا رہا ہے۔

اور اس پر کمال یہ کہ وافر مقدار میں گنا اور شوگر کی پیداوار کے باوجود 55 روپے فی کلو گرام پر فروخت ہونے والی چینی بازار میں 110 روپے فی کلو گرام پر فروخت کی جا رہی ہے۔ کیوں؟ شوگر کارٹل کے خلاف مسابقتی کمیشن کیا کر رہا ہے؟ یہ شوگر مافیا کی مہربانی ہے کسان نے کپاس کی فصل اگانا ہی چھوڑ دی ہے۔ اب ملکی ٹیکسٹال صنعت چلانے کے لئے دھاگہ اور کپاس انڈیا اور چین سے منگوائی جائے گی۔ کیا زرعی ماہرین نے اس پر تحقیق کی آخر کپاس کی پیداوار کیسے بڑھائی جائے؟

آج پاکستان گندم، کپاس اور چینی درآمد کر رہا ہے۔ کمال ہے گنا اور گندم اگا بھی رہا ہے اور درآمد بھی کر رہا ہے۔ زرعی پالیسی ہے بھی ار نہیں بھی اب تو یہ خبر بھی مل رہی ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کو پنجاب کی خاص کر جنوبی پنجاب کی زرخیز زمین سستی اور طویل مدتی لیز پر دینے کی تیاری حکومت نے کر لی ہے۔ اب چینی سرمایہ کار کی مرضی جو چاہے جیسے چاہے اگائے۔ جو ہابرڈ بیج چاہے استعمال کرے۔ تو زراعت پر بھی مستقبل میں کمپنی کی حکومت ہی ہو گی۔

ویسے بھی کورونا پھر اس کی ویکسین۔ اسمارٹ فون۔ ٹک ٹاک شریر۔ شہریوں کی جاسوسی کے آلات ’جس سے غیر محفوظ شہر محفوط ہوں گے ۔ فور جی اور فائیو جی موبائل نیٹ ورک۔ بچوں کے لئے پلاسٹک کے کھلونے جن کی مہربانی سے ہمارے دیسی مٹی اور لکڑی سے بنے کھلونے بنانے والے ہنر مند آج چوڑاہوں پر چینی ٹافیاں اور غبارے بیچنے پر مجبور ہیں۔ بڑوں کے لئے مزے دار تفریحی کھلونے، خوشبودار ذائقہ دار طویل مزے داردعووں کے ساتھ تولیدی غبارے بمہ لوازمات، جس پر غالب صاحب سے پیشگی معذرت کے ساتھ‘ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے ’، اس مصرعہ کا استعمال پنجابی چینی دوستی کے خیال سے ہے۔ علی بابا کی زمبیل اور دراز کا جلوہ۔ اور دیگر روزمرہ کی اشیاء۔ کمپنی ہی کی تو دین ہے۔ نہیں۔ تو پھر سبزی بھی آن لائن بکنے دو کیا فرق پڑتا ہے کہاں سے آئی ہے کیسے اگائی گئی ہے۔ بس کھاو۔ ویسے بھی کھانا تو قومی تفریحی ہے۔

سنا ہے اب تو چینی کمپنی نے شراب کا کارخانہ بھی بلوچستان میں چالو کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments