کورونا سے نجات کی موثر حکمت عملی


ہماری بے خوف اور بے نیاز قوم آج کل مختلف وباؤں کا شکار ہے۔ سیاسی نفرت کے وائرس نے ہمارا شیرازہ منتشر کر دیا ہے اور ہمیں جاں لیوا سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور تہذیبی عوارض لاحق ہیں۔ وہ حکومت جو اپنے شہریوں کے جان، مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہے اور عوام پر روزگار اور خوشحالی کے دروازے کھولتی ہے، وہ خود بے یقینی میں مبتلا ہے اور اپنے وزیروں اور مشیروں کو بے آبرو کر کے مکھن سے بال کی طرح نکال رہی ہے۔ جناب وزیراعظم نے دو سال کی حکمرانی کے بعد جرات مردانہ سے اعتراف کیا تھا کہ انہیں گمبھیر ملکی مسائل سے واقفیت تھی نہ وسائل کی کمیابی کا علم تھا۔

اس بے سروسامانی کے باوجود انہوں نے کورونا کی پہلی لہر کا بظاہر دانش مندی سے مقابلہ کیا، مگر اب یہ راز منکشف ہو رہا ہے کہ اس بلا پر قابو پانے کے سلسلے میں پروپیگنڈا زیادہ تھا اور منصوبہ بندی بڑی ناقص تھی۔ اسی کا یہ شاخسانہ ہے کہ اب ایک دن میں چار ہزار سے زائد لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور اموات کی تعداد روزانہ سو سے تجاوز کرتی جا رہی ہے۔

ہمارے نظام صحت کی وحشت ناک کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ پہلے وزیراعظم اور ان کی اہلیہ پر کورونا بڑی بے خوفی سے حملہ آور ہوا اور بعد ازاں ہمارے صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیردفاع جناب پرویز خٹک بھی اس کی زد میں آ گئے ہیں۔ پاکستان میں کورونا پہلی بار اس وقت پھیلا تھا جب ہم ایران سے آنے والے زائرین کا صحیح طور پر چیک اپ اور بروقت علاج نہ کر سکے۔ اب اس وبا کے پھیلاؤ اور اس کی تباہ کاری میں جو شدت آئی ہے، اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ائرپورٹس پر کورونا چیکنگ کے خاطرخواہ انتظامات ہی موجود نہیں، چنانچہ برطانیہ سے آئے ہوئے مسافر کسی چیکنگ کے بغیر ائرپورٹ سے باہر آ گئے اور وہ شہروں اور قصبوں میں برطانیہ کی خطرناک وبا پھیلاتے گئے۔ حکومت کے متعلقہ اداروں پر لازم آتا ہے کہ وہ باہر سے آنے والے مسافروں کی سخت چیکنگ کے قابل اعتماد انتظامات بروئے کار لائیں۔

دوسری تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ویکسی نیشن کا عمل تشویش ناک حد تک سست روی کا شکار ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک آبادی کے صرف 0.2 فی صد لوگوں کی ویکسی نیشن ہو چکی ہے۔ برطانوی کورونا کا یہ ہوش اڑا دینے والا پہلو بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس سے بچے بھی موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر شہری کی ویکسی نیشن کرنا ہو گی جبکہ ہمارے منصوبہ سازوں نے اتنی بڑی مقدار میں ویکسی نیشن کے بروقت حصول کا کوئی معقول بندوبست نہیں کیا۔

بس چین کی خیرات پر گزارا کرتے رہے۔ ایک ہڑبونگ سا نظر آ رہا ہے اور وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ معطل یا مفلوج ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس نازک ترین مرحلے میں اپوزیشن کا تعاون حاصل کرے اور تمام اسٹاک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جائے جو کورونا کی شدت میں کمی لائے، عوام کے اندر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا شعور اور عزم پیدا کرے اور تیزرفتار ویکسی نیشن کے عمل کو یقینی بنائے۔ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے، اس لیے ’توتو میں میں‘ کی جنگ بند ہونی چاہیے اور پوری توجہ زیادہ سے زیادہ آبادی کی ویکسی نیشن کے معیاری انتظامات پر ہونی چاہیے۔ مخیر حضرات کو آگے بڑھ کر اس کارخیر میں بڑے پیمانے پر حصہ لینا چاہیے۔

جھنگ کے سرسید

اب ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ کا خطرہ درپیش ہے اور دوسری طرف اچھی شخصیتوں کے اٹھ جانے کا المیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جناب گوہر صدیقی اٹھاسی سال دارفانی میں گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ وہ ریاست پٹیالہ سے 1947 ء میں ہجرت کر کے شاہ جیونہ آئے تھے۔ فسادات میں ان کے والد اور قریبی رشتے دار شہید ہوئے تھے۔ اس علاقے کے نامور سیاست دان کرنل عابد حسین نے مہاجرین کی آبادکاری میں سرگرم حصہ لیا تھا۔

صدیقی صاحب نے اوائل عمری میں تاریخ کے مطالعے سے یہ بھید پا لیا تھا کہ معیاری تعلیم ہی قوم کو عظیم بناتی ہے، چنانچہ انہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کیا اور کالجوں کی بلندی تک جا پہنچے۔ 64 سال تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور اس دوران اسی ہزار گریجوایٹس تیار کیے۔

تعلیم و تدریس کے ساتھ ان کا عشق فزوں تر ہوتا گیا اور انہوں نے اپنے خاندان ہی میں اعلیٰ معیار کے 24 تعلیمی ادارے قائم کیے جن میں ہزاروں طلبہ تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ جھنگ میں کیڈٹ کالج کا قیام ہے جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں جو پاکستان کے ہر علاقے سے آتی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا صہیب فاروق نیوی میں پائلٹ تھا۔ اس سے کہا ملازمت سے استعفا دے کر کیڈٹ کالج کا انتظام و انصرام سنبھالو جہاں ہزاروں کیڈٹ تیار ہوں گے۔

انہوں نے والد کی خواہش کا احترام کیا اور آج وہ ایک وسیع و عریض کیڈٹ کالج چلا رہے ہیں جس کی خوشبو دور دور تک پھیلتی جا رہی ہے۔ جناب گوہر صدیقی نے 1990 ء اور 1995 ء کے درمیان تین ایسے ادارے قائم کیے جو تعلیم و تدریس کی دنیا میں ایک خاموش انقلاب لا رہے ہیں۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کے مطابق اعلیٰ معیار کی نصابی کتابیں ’آفاق‘ تیار کر رہا ہے۔ اسلامی معیار کے ہزاروں تعلیمی ادارے ’غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘ چلا رہا ہے۔

اساتذہ کی عمدہ تربیت کی ذمے داری ’اسلامی نظامت تعلیم‘ کے سپرد ہے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی مدتوں یاد رہے گا کہ وہ اوائل جوانی ہی میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہو گئے جس نے انہیں فرقہ واریت سے بلند کر دیا اور انہیں امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی کی مجلس شوریٰ میں برسوں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے تنظیم اساتذہ میں کلیدی کردار ادا کیا اور پنجاب یونیورسٹی کی سینیٹ میں دو بار برادرمکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے ساتھ گریجوایٹس کی نمائندگی کی۔ اللہ تعالیٰ جھنگ کے سرسید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو ان کی وراثت کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments