میرا بچہ منفرد ہے 3


اپریل کے مہینے کو پوری دنیا میں اوٹزم آگاہی مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے اور 2 اپریل عالمی یوم اوٹزم ہے، لہذا یہ مضمون اس اعصابی مسئلے کے بارے میں آگہی پھیلانے کی ایک سعی ہے۔ اس سلسلے میں اس سے پہلے بھی دو مضامین لکھے جا چکے ہیں جن میں اوٹزم کی بنیادی تعریف، بنیادی اصطلاحات، تشخیص اور درجہ بندی کے بارے میں چیدہ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ ہم اوٹسٹک افراد کو عجائب قدرت سمجھنے کے بجائے معاشرے کا ایک عام فرد سمجھیں، جس کی صلاحیتیں ہم سے کچھ مختلف ہیں۔ آج کے مضمون کا مرکزی خیال اوٹسٹک افراد کی مدد کرنا ہے۔ اور یہ کہ مدد کس طرح حاصل کی جائے۔

جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکی ہوں کسی مسئلے کے وجود سے انکاری ہو کر اسے حل نہیں کیا جاسکتا۔ تو اوٹسٹک افراد کی مدد کرنے کا اولین طریقہ اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ مختلف ہیں اور انہیں مدد چاہیے۔ ایک ماں ہونے کے ناتے میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں عام ماہر امراض اطفال اوٹزم کے بارے میں نہ ہی جانتے ہیں اور نہ ہی وہ آپ کی بہت اچھی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی اور اہم کڑی ایک مستند بچوں کا ڈاکٹر ہے جو کہ اوٹزم کی جلد از جلد تشخیص میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اور جلد از جلد تشخیص اوٹسٹک بچوں کی بہتری کے لیے از حد ضروری ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان میں بچوں کی صحت بالخصوص اور صحت عامہ کی بالعموم صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ ترقیافتہ ممالک میں ہر چند ماہ بعد بچوں کی نشوونما پر نظر رکھنے کے لیے ان کا ایک تفصیلی معائنہ ہوتا ہے (جو ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے ) جیسے کہ نو ماہ، اٹھارہ ماہ پھر دو سال وغیرہ پر۔ اس سے ایسی تمام بیماریوں یا خرابیوں کی جلد تشخیص میں مدد ملتی ہے جن کا تعلق بچے کی نشوونما سے ہے۔

بہر حال اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے بچے کی نشوونما یعنی بیٹھنا چلنا پھرنا بولنا وغیرہ اپنی عمر کے مطابق ٹھیک نہیں ہو رہی تو سب سے پہلے کسی اچھے ہسپتال کے مستند ماہر امراض اطفال سے رجوع کیجیے۔ یاد رہے کہ ایک عام ڈاکٹر اوٹزم کی باقاعدہ تشخیص نہیں کر سکتا۔ وہ آپ کو ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس بھیجے گا جو بچوں کا ماہر نفسیات، اسپیچ پیتھولوجسٹ، ماہر اعصابی امراض یا پھر مستند اوکیوپیشنل تھراپسٹ ہو۔ اوٹزم کی باقاعدہ تشخیص یہی لوگ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ تذبذب کا شکار ہیں تو بہت سے فیس بک گروپ مثلاً special needs Pakistan، autism resource group اور کچھ ویب سائٹس بھی آپ کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔

یہ بھی پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ تشخیص کے لیے کوئی خون کا ٹیسٹ یا جسمانی ٹیسٹ نہیں بلکہ کئی سوالنامے پر کروائے جاتے ہیں۔ اور آپ کے بچے کے اوٹزم کی درجہ بندی کی جائے گی۔ یہ اس لیے بہت ضروری ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ اسے کہاں کہاں اور کتنی مدد اور مشق درکار ہے۔ عموماً تین طرح کے ماہرین آپ کے بچے کو مختلف مشقیں کروائیں گے۔

Behavior therapist

یا رویوں سے متعلق مشق کروانے والے ماہرین عموماً نفسیات کی تعلیم ہی رکھتے ہیں۔ وہ بچے کی ضد، چیخ پکار، مخاطب کی بات سننا، ایک جگہ سکون سے بیٹھنا اور کئی مزید رویوں پر کام کر کے انہیں معاشرے کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت قدیم اور مستند طریقہ کار ہے جس میں سامنے بیٹھا تھیراپسٹ بچے کو پہلے کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور کام کرنے پر اسے کوئی انعام دیا جاتا ہے چاہے وہ زبانی داد کیوں نہ ہو۔ لیکن اب کچھ طرقی یافتہ ممالک میں اس کی جگہ فلور پلے ٹیکنیک یعنی کھیل ہی کھیل میں بچے کو سکھانے نے لے لی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ فرد کی توہین ہے کہ اسے جانور کی طرح سدھایا جائے۔ بہرحال یہ صرف ایک طبقے کی رائے جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔

تھیراپسٹ یا Registered Behavior TherapisT کی پشت پر کسی BCBA board certified behavior analyst
جس کے پاس بیرون ملک کا سرٹیفیکیٹ ہو، ہونا ضروری ہے ورنہ تھیراپی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔
Speech therapist

سپیچ پیتھولوجسٹ یا سپیچ تھراپسٹ بول چال میں مدد دیتے ہیں۔ جو بچے بالکل نہیں بولتے انہیں زبان کی حرکتیں سکھانا، تصویریں دکھا کر لفظ سکھانا، ایک لفظی گفتگو کرنے والے بچوں کو جملے سکھانے کی کوشش انہی کا خاصہ ہے۔

Occupational therapist

اوکیوپیشنل تھراپسٹ سیسنسری یعنی حسیات سے متعلق مشق کروانے میں مدد کرتے ہیں۔ اوٹسٹک افراد کی چلنے پھرنے، چیزیں پکڑنے اور بھاگنے دوڑنے کی صلاحیت عام بچوں سے کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لمس کا۔ برا لگنا، چیزیں منہ میں ڈالنا، اسٹمنگ وغیرہ کے رویوں میں بھی یہ مدد دیتے ہیں۔

Physiotherapist

یہ تھیراپسٹ جیسا کہ ہم سب جانتے ہی ہیں بچے کو جسمانی مشقیں کرواتے ہیں کیونکہ عموماً اوٹسٹک بچے پٹھوں کی کمزوری یا

Low muscle tone
میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ مشقیں اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
ایک اچھا اوکیوپیشنل تھراپسٹ ہوتے پوئے عام طور پر فزیوتھراپسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اگر یہ تمام تھیراپیز بچے کو صحیح وقت پر مل گئیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بچہ بہت حد تک فعال ہو سکتا ہے۔

بد قسمتی سے یہ تمام سہولیات ایک چھت کے نیچے میسر آنا اول تو صرف بڑے شہروں میں ممکن ہے، دوم اگر میسر ہو جائیں تو ان کی فیس عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ یا تو سفید پوشی کا بھرم رکھا جاسکتا ہے ہا اوٹزم سکول میں داخلہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تمام سہولیات کو سب کی دسترس میں کیا جائے اور سرکاری سطح پر اس پر کام کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments