کیا سوویت یونین نے واقعی افغانستان پہ قبضہ کیا تھا؟


نازی جرمن وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ امریکی سیاہ فام باشندوں کی نسلی امتیاز کے خلاف جد و جہد کے رہنما میلکم ایکس نے میڈیا کے بارے میں میں اپنے تاثرات اس طرح بیان کیے تھے۔ ”اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو اخبار آپ کے دلوں کو مظلوموں کے بارے میں نفرت اور ظالم کے لئے محبت سے بھر دے گا“ ۔

جب اسرائیلی فوج کو لبنان سے نکلنا پڑا تو انہوں نے لبنان کے دریائے لیطانی کے جنوبی پار اسرائیل کی سرحد کے ساتھ کے علاقے پر اپنا قبضہ جاری رکھا اور یہ عذر پیش کیا کہ اس طرح فلسطینی گوریلا اسرائیل کی سرحد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس مقبوضہ علاقے کو انہوں نے حفاظتی زون کانام دیا۔ یہی نام پوری دنیا کے میڈیا نے اپنا لیا حتیٰ کہ کئی عرب اخبارات بھی اسے مقبوضہ زون کہنے کے بجائے اسرایئل کا حفاظتی زون ہی لکھتے تھے۔

کیا کچھ ایسا ہی افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بارے میں تو نہیں ہوا؟

حزب دموکراتیک خلق افغانستان ایک سیاسی جماعت کے طور پہ سنہ 1965 میں قیام پذیر ہوئی۔ دو سال بعد ہی یہ جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، پرچم جس کا رجحان قومیت کی طرف زیادہ تھا اور خلق جس کا جھکاؤ طبقاتی کشمکش کی طرف تھا۔ سنہ 1975 میں افغانستان کے بادشاہ کے ایک رشتے دار بھائی داؤد نے پرچم گروپ کی مدد سے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا لیکن جب اس کے دو سال بعد پرچم اور خلق گروپ اکٹھے ہو گئے تو داؤد حکومت نے اس جماعت کو اپنے لئے خطرہ محسوس کیا اور ان کے خلاف قتل و حراست کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اپریل 1978 میں اس جماعت کے خلق گروپ نے داؤد حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا اور اس طرح افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کا آغاز ہوا جسے ثور انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ انقلاب کوئی آسان سفر نہیں تھا۔ اس وقت بھی افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں تھا۔ پچانوے فیصد لوگ غیر تعلیم یافتہ تھے۔ صرف بارہ فیصد زمین پر زراعت ہوتی تھی اور جاگیردانہ اور سرداری نظام کے پیر زمیں میں گہرے پیوست تھے۔ پورے ملک میں ایک گاؤں بھی ایسا نہیں تھا جہاں بجلی کی سہولت مہیا کی گئی تھی۔ غربت کے علاوہ یہ بہت ہی پسماندہ ملک تھا۔ سوشلسٹ حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ملک کی تقدیر بدل دینی ہے۔ اس لئے حکومت نے کئی اصلاحات نافذ کیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

· صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا گیا جس کے نتیجے میں کان کنی کی صنعت کا شیئر قومی آمدنی میں سنہ 1983 میں 3.3 سے بڑھ کر دس فیصد تک جا پہنچا۔

· کسانوں کو جاگیرداروں کے قرضوں سے معافی دے دی گئی۔ یہ کسان ان آبائی قرضوں کی وجہ سے کئی صدیوں سے معاشی غلام بن چکے تھے۔

· زرعی اصلاحات کی گئیں اور جاگیرداروں کی زمینیں کسانوں کے نام منتقل کر دی گئیں۔
· شادی کے لئے عورت کی خریداری پہ پابندی لگا دی گئی۔

· عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیے گئے حتیٰ کہ زچگی کی مدت کے لئے تعطیل با تنخواہ کا قانون نافذ کیا گیا۔

· تعلیم کو عام کرنے کے لئے بڑے پیمانے پہ اقدام کیے گئے۔

ان اصلاحات کے دشمن جاگیردار، سردار، کئی مذہبی رہنما چھپ گئے یا پاکستان بھاگ گئے۔ ادھر امریکہ سوویت یونین نواز سوشلسٹ حکومت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ سنہ 1979 میں سی آئی اے نے آپریشن سائیکلون کے نام سے ایک لائحہ عمل کی منصوبہ بندی کی۔ امریکی صدر جمی کارٹر نے اس آپریشن کی منظوری دی اور سی آئی اے نے صدر ضیا الحق اور شاہ خالد کی مدد سے انقلاب کے خاتمے کے لئے حکمت عملی بنائی اور افغانی گوریلا دستے تیار کیے جنہوں نے افغانستان میں تنصیبات، حکومتی اداروں اور انقلابی رہنماؤں پر حملے شروع کر دیے۔

جب انقلاب کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا اور انقلابی حکومت کے پاس ان کو روکنے کے لئے وسائل کافی نہیں تھے تو سوویت یونین کی فوج حکومت کی مدد کے لئے افغانستان آ گئی۔ انقلاب اور انقلابی حکومت کو بچانے کے لئے کئی اداروں کا انتظام سوویت یونین کے مشیروں اور فوج نے سنبھال لیا۔ مغربی میڈیا نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ سوویت یونین کی ملحد فوج نے افغانستان پہ قبضہ کر لیا ہے۔ امریکہ نے اس معاملے کو مذہبی رنگ دے کر مسلمانوں کو جہاد پہ اکسایا اور بڑے پیمانے پر کئی ممالک کے مسلمانوں کو فوجی تربیت دے کر افغانستان میں داخل کروادیا گیا۔ آخر کار سنہ 1988 میں سوویت یونین کی فوج بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان کے بعد افغانستان سے نکل گئی۔ افغانستان سوویت یونین کا ویت نام بن گیا اور افغانستان میں سوشلسٹ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

انقلابی حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد ان ’مجاہدین‘ کے مختلف گروہ اقتدار پانے کے لئے آپس میں لڑ پڑے۔ کئی سال اسی خانہ جنگی میں گزر گئے اور ان ’مجاہدین‘ کے ہاتھوں لاکھوں افراد ہلاک و برباد ہوئے۔ بعد میں ایک مضبوط گروپ طالبان نے مرکز میں حکومت بنائی اور انتہائی رجعت پسند پالیسیوں کو نافذ کر کے افغانستان کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔ اب جبکہ طالبان اقتدار میں نہیں ہیں تو وہ اور داعش ہر ہفتے افغانی فوج اور پولیس کے سیکڑوں اہلکاروں کو ہلاک یا زخمی کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکی ڈرون کبھی طالبان اور کبھی معصوم شہریوں پہ حملے کر کے تباہی اور بربادی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ان حملوں اور جوابی حملوں نے افغانستان کو یتیموں اور بیواؤں کا ملک بنا کے رکھ دیا ہے۔ طالبان اور ان کے حامیوں نے پاکستان میں بھی کئی سال تک انتہا پسندی اور قتل عام کا بازار گرم کیا رکھا۔

اگر ژور انقلاب کے خلاف آپریشن سائیکلون نہ شروع کیا جاتا تو آج افغانستان اور پاکستان دونوں خاطر خواہ ترقی کر چکے ہوتے اور ان ملکوں کے عوام امن، تعلیم اور نسبتاً خوشحالی سے جی رہے ہوتے۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments