علم ریاضی کی روشنی میں


پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے پھبتی کسی کہ ”اگر ریاضی کا مائنس مائنس پلس والا فارمولا درست ہوتا تو موجودہ حکومت تو مریخ پر بھی دو نئے پاکستان بنا چکی ہوتی!“ ہمارا گو یوتھیؤں اور ٹائیگرفورس سے کوئی ناتا نہیں مگر پھربھی یہ بات حکومت کے حق میں جاتی نظر آئی۔ کچھ حساب کتاب کیا تو کم ہینگ پھٹکڑی میں بھی چوکھے رنگ والا ایک زبردست ٹوٹکا مل گیا۔

میتھس میں صحیح اعداد کی ضرب کے لیے چار فارمولے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت پر بار نہ ہو تو ملاحظہ فرمائیں :

مائنس مائنس پلس
پلس پلس پلس
پلس مائنس مائنس
مائنس پلس مائنس

گھبرائیں مت! یہ کوئی کالے پیلے جادو پر مبنی تعویز نہیں ہیں۔ یہ عربی گرامر کی گردانیں اور عروض کی بحریں بھی نہیں ہیں۔ یہ ریاضی کے سادہ سے کلیے ہیں۔ اگر پہلے دو کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایک جیسی علامات والے اعداد کو ضرب دی جائے تو جواب ہمیشہ مثبت آتا ہے۔ بس یہی خیال ہمیں دوست کی اس پھبتی پر سوجھا تھا۔

یار لوگ یہ دلیل دے دے کر اس کو خاصا متروک اور غیر دل چسپ کر چکے ہیں کہ خان خود تو ایماندار ہے، بس اسے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ ریاضی کے فارمولوں کی سنی جائے تو وہ بھی یہی مشورہ دیتے نظر آ رہے ہیں کہ

یا تو خان خود ٹیم جیسا ہو جائے یا پھر ٹیم کو اپنے جیسا کر لے اور بس!

یہ مزاح کے پیرائے میں کی گئی ایک سنجیدہ بات ہے۔ البتہ اگر آپ اس سے متفق نہیں اور کسی با اختیار ادارے سے تعلق داری بھی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ اس صورت میں تحریر سے ویب سائٹ تو کیا خود مصنف کا بھی متفق ہونا بھی غیر ضروری سمجھیں۔

ہم یہ ٹوٹکا بتانے پر یوں مجبور ہوئے کہ اول تو عادت سے مجبور ہیں۔ دوم، ہمیں پبلک ریلیشنز کے ایک ادارے کی ہدایت کا خصوصی خیال ہے کہ میڈیا مثبت رپورٹنگ کرے۔ گو ہم کبھی کبھار ہی کالم والم کا شغل کرتے ہیں مگر ڈر گئے ہیں کہ شاید روئے سخن ہماری طرف ہی ہو۔ اب ہم ہر بات کویوٹیوب پر موجود چہچہاتے نغمے سنتے ہوئے مثبت پسندی کے چشمے سے ہی دیکھتے ہیں۔

سوم، ہر مسئلے کے کچھ غیر روایتی حل ہمیشہ سے موجودہ ہوا کرتے ہیں۔ مؤخرالذکر فلسفہ عرصہ پہلے جب ہر سو دہشت گردی کا راج تھا تو درست ثابت ہو چکا ہے۔ تب ہم نے ایک تحریر میں میاں محمدؔ بخش سے منسوب ایک حل پیش کیا تھا کہ:

لسے دا کیہ زور محمدؔ
نس جانا یا رونا
(کمزور کا زور یہی ہے کہ وہ بھاگ جائے یا رو لے )

بھلے ہی آپ کو یہ شعر اور ہمارا مشورہ اب طنزیہ معلوم ہو رہا ہو۔ مگرتب ہم نے ڈاکٹر طارق عزیز کی کتاب ”نئی ادبی جہتیں“ سے یہ تشریح بھی اخذ کی تھی کہ قومیں تہذیبی طور پر لاوارث ہو جائیں تووہ نفسیاتی عدم تحفظ، بے یقینی اوربے معنویت کا شکار ہو جاتی ہیں اور اس کا علاج یہی ہے کہ ہجرت کا عمل شروع ہو یا پھر گریہ وزاری کا۔ یہ عوامل شکست نہیں بلکہ مزاحمت اور ردعمل کا حصہ ہوتے ہیں۔

ہمارا آرٹیکل شائع ہوا۔ انہی دنوں میں APS پر حملہ بھی ہوا۔ پھر دہشت گردی جڑ سے اکھڑنا شروع ہو گئی۔ ہم نے بارہا اس بات کا کریڈٹ لینا چاہا کہ نیشنل ایکشن پلان ہماری تجویز پر بنا تھا مگر ناقدین ہیں کہ مانتے ہی نہیں! بہرحال، اب ہم نے علم ریاضی کی مدد سے حکومت کو ترقی کا گر بتا دیا ہے۔ نجوم، ایمانداری اور ڈنڈا ان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ سو، عطارد، زحل اور مشتری سمیت حکومتی مشیران ہوشیار باش ہو جائیں! اب ہم تنزلی کی کوئی بھونڈی توجیہہ نہیں سنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments