یہ کمپنی بھی نہیں چلے گی


پچھلے سال، ماہ ستمبر میں، نامور صحافی سہیل وڑائچ کی ایک کتاب شایع ہوئی تھی جس کا نام تھا ”یہ کمپنی نہیں چلے گی“ ۔ اس کتاب کے ٹائیٹل پیج پہ ایک کارٹون کی تصویر بھی لگائی گئی تھی، جس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نیچے بٹھایا ہوا دکھایا گیا ہے، جو کہ خود ایک بڑی سی کرسی پہ بڑے ٹھٹ سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کارٹون میں بظاہر یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان کو جن لوگوں نے سیلیکٹ کر کے تخت پہ براجمان کیا ہے، وہ تخت زیادہ دن سلامت نہیں رہے گا، اور عمرانی حکومت جو کہ معاشی/ غیرملکی پالیسیوں میں ناکامی پا چکی ہے، وہ اب جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچے گی۔

پر اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا، موجودہ حکومت کے سامنے جتنے بھی اب تک مشکل مراحل آئے ہیں، وہ ان کو بخوبی پار کرتے آئے ہیں، بھلے ہی اس حکومت کی پشت پناہی کرنے والے کوئی اور کیوں نہ ہوں۔ پر جو پی ڈی ایم کے نام سے اپوزیشن جماعتوں یا شیخ رشید کی زبانی ڈیڈ جماعتوں کی کمپنی تشکیل دی گئی تھی، وہ خود بخود ریزہ ریزہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پی ڈیم ایم نامی کمپنی تو اپنے اتحاد کا بمشکل ایک سال پورا کر سکی ہے، اور اب ہر کسی کے راستے اور منزل الگ الگ طے پا چکی ہے۔

استعفوں کے اعلانات، لانگ مارچ کی دھمکیاں، اور نہ جانے کتنی باتیں، جن کے لیے پوری پی ڈی ایم ایک صفحے پر تھی، اس صفحے میں ایسے چھید پڑے ہیں، جیسے پانی کے بیچ پہنچی کشتی میں چھید پڑ جاتے ہیں، اور اس کشتی کے ڈوبنے کے مکمل امکانات ہوتے ہیں، اسی طرح پی ڈی ایم کی بکھری لڑیوں میں سے، کسی نے جا کر سینیٹ میں پناہ لی، کسی نے پنجاب حکومت سے جا کر صلح کرلی، اور کسی نے اپنے کارکنوں کے جمع ہونے کا ڈر دکھا کر اپنی نیب پیشیاں ملتوی کروا دیں۔

یہ سب کچھ ڈرامائی انداز میں اتنا جلد ہو جائے گا، یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ جوں ہی سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں صادق سنجرانی کامیاب ہوئے تو پھوٹ پڑنا شروع ہو گئی، اور ہوا بھی ایسا ہی۔ کیونکہ بمطابق مسلم لیگ نواز، تمام ملاقاتوں میں سینیٹ کے اندر اپوزیشن سیٹ ان کو دینا طے ہوا تھا، پر پیپلز پارٹی نے بیچوں بیچ چھلانگ لگا کر، سینیٹ کی اپوزیشن سیٹ حکومتی اتحاد بی ای پی کے ووٹ حاصل کر کے، اپنے اسلام آباد کی ہاٹ سیٹ سے کامیاب امیدوار یوسف رضا گیلانی کے نام کردی، اور استعفی نہ دینے کی بات پر ڈٹ گئے۔

جس سے پی ڈی ایم اتحاد ٹوٹ کے بکھر گیا، اور اس کا ایسا نتیجہ آیا، جو چائنہ سے امپورٹ کی ہوئی چیزوں کا ہوتا ہے کہ ایک دن کی بھی گارنٹی نہیں ہوتی، یہاں دکان سے خریدی اور وہاں گھر جا کر ڈبا کھولتے ہی خراب نکلی تو خرچہ اور کرایہ اپنے گلے میں ہی پڑتا ہے۔ اب جب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اپنے درمیاں ایک لکیر کھینچ لی ہے تو، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں جمی برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے، ساتھ ہی دونوں اطراف کے پارٹی عہدیداروں نے آنے والے وقت میں، آپس میں مذاکرات کرنے کے امکانات بھی دکھائے ہیں۔

اب اگر سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کو چیلنج کر کے مسلم لیگ نون والے مدمقابل اپنا امیدوار لاتے ہیں تو، پیپلز پارٹی نے اس صورت میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو چیلنج کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اب دونوں اطراف سے ایک دوسرے پہ جوابی وار ہو رہے ہیں، جس سے پی ٹی آئی والوں کی ہنسی روکے نہیں رک رہی۔

سیاست میں چاہے کوئی آخری حد بھلے نہ ہو، بھلے ہی یو ٹرن کا موقعہ ہر جگہ پہ ملے، پر پی ڈی ایم اتحاد بننے سے، جو بڑے بڑے جلوس کر کے عوام کو کورونا وائرس کے ایس او پیز کے برعکس اکٹھا کیا گیا، اور عوامی رسک اٹھا کر اتنے بڑے مجمعے بلائے گئے، وہ سب گئے پانی میں، اور ان سیاسی جماعتوں کی آپس میں ان بن ہوتے ہی، انہوں نے اپنی رخ بدل ڈالی ہے، اور ان کو بس اپنا مفاد دیکھنا ہے، باقی عوام جائے بھاڑ میں۔ اب اسٹیبلشمنٹ سے مسلم لیگ نون کو اکیلا ہی لڑنا پڑے گا، جو کہ پیپلز پارٹی کو ساتھ میں مہرا بنا کر لڑنا چاہتے تھے۔

کیونکہ فی الحال چیئرمین اور شریک چیئرمین پی پی پی، اسٹیبلشمنٹ سے بنائے رکھنے میں ہی عقلمندی سمجھ رہے ہیں، اور دوسروں کی لڑائی میں حریف بننے سے گریز کر رہے ہیں۔ عمران خان اور اس کی کمپنی تو چل نکلی ہے، اور اس حکومت کے مدت پوری کرنے کے بھی روشن امکانات ہے، پر جو اس کمپنی کو شکست دینے کے لیے، اپوزیشن جماعتوں نے اپنی کمپنی بنائی تھی، اس کی بنیادیں اتنی کمزور تھیں کہ، ذرا سا بھی اختلافات کا بوجھ اٹھا نہیں پائیں، اور مولانا فضل الرحمان کی لاکھ کوششیں بھی کام نہ آ سکیں، اور انہیں ہاتھوں اس کمپنی کا دیوالیہ نکل گیا، جنہوں نے خود اس کمپنی کو بنایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments