راہنما کون ہوتے ہیں؟


ملکوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عظیم راہنماؤں نے ہی دنیا کے نقشہ کو تبدیل کیا ہے۔ صحیح معنوں میں راہنما وہی کہلائے جنہوں نے جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا انہیں حدوں کو سرحدوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ عوام کسی ایرے غیرے کو راہنما تسلیم نہیں کر لیتے بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے الگ اور جدا ہوتے ہیں۔ راہنما کی سب سے بہتر تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ جو آپ میں سے ہو لیکن سب سے بہتر ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھا لیڈر یا راہنما کسے کہا جائے؟

اس کو جاننے اور جانچنے کے لئے سب سے آسان لٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ جو بھی اپنے راہنما ہونے کا اعلان کرے اس کی سابقہ زندگی کا موجودہ حیات سے موازنہ کر لیا جائے۔ اگر تو اس کی موجودہ زندگی کے شب ورواز سابقہ زندگی سے بدتر ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ ایک مخلص، سچا اور با وفا راہنما ہے لیکن حا لات اگر اس کے برعکس ہوں تو جان لیجیے کہ آپ کا واسطہ کسی لیڈر سے نہیں بلکہ کسی شعبدہ باز سے پڑ گیا ہے۔

حضرت علی ؓ نے راہنما کی تعریف اس طرح سے فرمائی ہے کہ ”سو بھیڑوں کی راہنمائی کرنے والا اگر ایک شیر ہو تو بھیڑیں بھی شیر بن جاتی ہیں لیکن اگر سو شیروں کی راہنمائی کرنے والی ایک بھیڑ ہو تو شیر بھی بھیڑیں ہی بن جاتے ہیں“ اس سے بہتر ارو جامع تعریف شاید نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی قوم کے راہنما میں کیا محاسن ہونا چاہیے۔ یقین جانیے جن قوموں کی زندگی میں ایسے لیڈر میسر ہو گئے ان کی زندگیاں بدل گئیں۔ ان ممالک کی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے والا نہیں آ سکا اور اگر ایسا ہوا بھی تو راہنما اور عوام نے مل کر ان رکاوٹوں کو اپنے لئے چیلنج سمجھتے ہوئے اسے ایسے اپنے راستے سے ہٹا دیا جیسے مکھن میں سے بال کو نکال دیا جاتا ہے۔

قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ میں ایک بار چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے ملنے کے لئے گیا میرے علم میں نہیں تھا کہ چین کا موسم اس قدر سرد ہوگا۔ مجھے سردی محسوس ہوتے دیکھ کر چو این لائی نے اپنا کوٹ مجھے پیش کر دیا، جسے پہن کر میں اپنے ہوٹل میں آ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ اگلے ہی روز وزیراعظم ایک نمائندہ میرے پاس ہوٹل میں وہ کوٹ لینے آ پہنچا اس نوٹ کے ساتھ کہ میرے پاس یہی ایک کوٹ ہے اس لئے ازراہ کرم واپس کر دیجئے۔

حالانکہ اگر چو این لائی کی سابقہ زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو وہ ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا تاہم انقلاب چین میں انہوں نے اپنا سارا روپیہ پیسہ خرچ کر دیا۔ چین کے ہی ایک اور انقلابی راہنما کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ چینی انقلاب کا راہنما ماؤزے تنگ جب انقلاب کے لئے لانگ مارچ کر رہا تھا تو جتنے بھی انقلابی تھے سب کے پاس دو عدد سوٹ اور بستر تھے لیکن ماؤ کے پاس صرف ایک سوٹ اور ایک بستر تھا۔ کسی نے ماؤ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا ایک عدد سے بھی گزارا ہو سکتا ہے۔

اس طرح سے اگر تاریخ عرب کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ آقا ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے جب آنحضور ﷺ کی پیدائش سے پچاس روز قبل چاہ زم زم کو جب پھر سے دریافت فرما لیا تو مکہ کے دیگر سرداروں نے بھی حق ملکیت کا دعویٰ کر دیا جس پر سب سرداران مکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ مدینہ کی طرف ایک کاہن سے اس کا فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ تما م سرداران اس سفر پر روانہ تھے کہ راستے میں سب قافلہ والوں کا پانی ختم ہو گیا۔

حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو بھی پیاس سے وفات پا جاتا اس کو وہیں دفنا دیا جاتا۔ اس پر دادا عبدالمطب نے اپنے قافلہ والوں کو حکم دیا کہ ایسا کرو کہ یہاں سے کوچ کر و اور جس جگہ پر ہم میں سے جو بھی وفات پائے گا اسے وہیں قبر نکال کر دفنا دیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے فوراً بعد ہی سب نے اپنا اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا۔ یونہی حضرت عبدالمطب کی اونٹنی اٹھی تو اس جگہ سے خدا کی قدرت سے پانی کا چشمہ ابلنا شروع ہو گیا۔

عرب روایات کے مطابق اب اس چشمہ کا مالک وہی ہوگا جس کی ملکیتی اونٹنی کے نیچے سے پانی نکلا۔ اب آپ نے حکم دیا کہ میرے قافلہ والے اس سے پانی بھر لیں جب سب نے پانی بھر لیا تو آپ نے کہا کہ باقی قافلہ والوں کو بھی اجازت ہے کہ وہ جتنا پانی چاہے اس چشمہ سے لے سکتے ہیں۔ جب سب قافلہ والوں نے پانی لے لیا تو سبھی نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں آگے کا سفر نہیں کرنا بلکہ واپس جانا چاہیے۔ کہ جو بھی فیصلہ حضرت عبدالمطب فرمائیں گے ہمیں منظور ہوگا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تم بھی زم زم سے پانی بھر سکتے ہو۔ یہ ہوتی ہے وہ خوبی جو ایک فرد کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی ایک راہنما میں خوبی ہونا چاہیے۔

اگر ہم آقا ﷺ کی حیات طیبہ جو کہ ایسی ان گنت مثالوں سے بھری ہوئی ہے صرف ایک مثال پیش کی جائے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ راہنمائی کسے کہتے ہیں۔ آقا ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے تمام عاشقان کا حال بھوک سے برا تھا کہ ایسے میں ایک صحابی حضرت عبدا اللہ ؓ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میرے پاس ایک بکری اور چند ساع گندم کا آٹا ہے میری آپ سے استدعا ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور کچھ تناول فرما لیں۔

آپ ﷺ نے یہ سنتے ہی اعلان فرما دیا کہ عبدا اللہ کے ہاں سب کی دعوت ہے۔ حضرت عبدا اللہ فرماتے ہیں کہ میں پریشان ہو گیا تو میری بیوی نے کہا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو جب آپ ﷺ نے سب کو مہمان بلایا ہے تو پھر انتظام بھی وہ خود ہی فرما دیں گے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ کھانا وہی تھا لیکن معجزہ کی بدولت ایک ہزار افراد اس کھانے سے سیر ہوئے۔ آپ کو معلوم ہے کہ سب سے آخر میں آپ ﷺ نے خود کھانا تناول فرمایا۔ یہ ہے ایک لیڈر و راہنما کہ اعلی ترین مثال۔ جس سے ہم سب غافل ہو چکے ہیں۔

لیکن ملک پاکستان کے ساتھ معاملہ بالکل برعکس ہے کہ ہمیں سات دہائیوں میں راہنما کوئی نہیں ملا سب کے سب سیاستدان ہی ملے۔ جن کا کام ہر معاملہ میں سیاست سے کام لینا ہے، انہیں اپنی سیاسی دکانداری کے ذریعے سے اپنا مال فروخت کرنا ہے نا کہ ملک کی ترقی و استحکام کے لئے کوئی کام سرانجام دینا۔ اسی لئے تو آج تک تمام سیاسی راہنما عوامی جذبات کے ساتھ کھیلتے رہے۔ اگرچہ اس میں عوام کا بھی دوش ہے لیکن یہ کسی اور کالم میں ان شا اللہ بیان کروں گا۔ تاہم جب تک ملک پاکستان کو ایک سچا اور ایماندار مخلص راہنما نہیں مل جاتا اس وقت تک ایسے ہی سیاستدان ہمارے لیڈر بن کر عوام کو بے و قوف اور ملک میں عدم استحکام کا باعث بنتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments