ہوشیار، ڈیجیٹل تصاویر خاموشی سے وہ بھی بتاتی ہیں جو آپ بتانا نہیں چاہتے


 

تصاویر

کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار لفظوں کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن محقق جرون اینڈریو کے بقول، حقیقت میں آج کل کی جدید ڈیجیٹل فوٹو گرافی میں اس سے بہت زیادہ معلومات چھپی ہوتی ہیں۔

تین اکتوبر 2020 کو امریکہ کے وائٹ ہاؤس کی طرف سے اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دو تصاویر جاری کی گئیں جن میں وہ کچھ دستاویزات پر دستخط کرتے اور کچھ کا مطالعہ کرتے نظر آئے۔ ان تصاویر کے شائع کیے جانے سے ایک دن قبل ہی ٹرمپ نے یہ بتایا تھا کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں، اور یہ تصاویر ان کی صحت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے جاری کی گئیں تھیں۔

ان کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے ان میں سے ایک تصویر ٹوئٹ کی اور لکھا کہ ‘انھیں (صدر ٹرمپ) امریکہ کے لوگوں کی خدمت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، انتھک۔’

لیکن کچھ لوگ نے بھانپ لیا تھا کہ ان تصاویر میں کیا ہے۔

یہ تصاویر والٹر ریڈ کے فوجی ہسپتال کے دو مختلف کمروں میں لی گئی تھیں۔ ایک تصویر میں ٹرمپ نے کوٹ پہنا ہوا ہے اور دوسری تصویر میں وہ صرف قمیض پہنے ہوئے ہیں۔

ان تصاویر کے ساتھ ایک بیان بھی جاری کیا گیا جس میں ان کی صحت اور ان کے کام کی عادت کے بارے میں بات کی گئی۔ ان تصاویر کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ ٹرمپ اپنی خراب صحت کے باوجود سارا دن اپنے سرکاری فرائض سر انجام دیتے رہے۔ لیکن ان تصاویر پر وقت کی جو مہر ثبت تھی وہ کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ یہ دونوں تصاویر دس منٹ کے وقفے سے بنائی گئی تھیں۔

ظاہر ہے ان تصاویر کی اور وضاحتیں بھی دی جا سکتی ہیں کہ کیوں یہ دس منٹ کے وقفے سے بنائی گئیں۔ غالباً فوٹو گرافر کو صدر کے قیمتی وقت میں سے صرف دس منٹ ہی ملے ہوں اور شاید ٹرمپ اس قلیل وقت میں مختلف کمروں میں اپنی تصاویر بنوانا چاہتے ہوں۔

لیکن وائٹ ہاؤس ان تصاویر کی اصلیت سامنے آنے سے ظاہر ہے خوش نہیں ہوا ہوگا۔

ان تصاویر کے جاری کیے جانے کے بعد خبر رساں اداروں اور مبصرین نے تبصرے شروع کر دیے جن میں یہ سوالات اٹھائے جانے لگے کہ کیا یہ تصاویر صرف ڈرامہ تھیں یا محظ ایک فوٹو سیشن تھا جن کے ذریعے ایک سیاسی پیغام دینا مقصود تھا۔ یہ سوال بھی اٹھنے لگا کہ کیا ٹرمپ واقعی اتنی محنت کرتے ہیں۔

جان میکفی

جان میکفی گوآئٹے مالا میں سپریم کورٹ کے باہر اخبار نویسوں سے بات کر رہے ہیں

امریکی کاروباری شخصیت جان میکفی اپنے ہی نام سے منسوب ایک اینٹی وائرس کے بانی ہیں۔ 2012 میں وہ وسطی امریکہ کہ ایک چھوٹے سے ملک بلیز کے حکام کو مطلوب تھے۔ وائس نامی ایک میگزین کے رپورٹروں نے ان کو ڈھونڈ لیا اور ان کی ایک تصویر آن لائن پر شائع کی جس کے اوپر انھوں نے لکھا ‘ہم اس وقت جان میکفی کے ساتھ ہیں۔’ انھیں یہ احساس نہیں ہوا کہ تصویر کے محل وقوع کے بارے میں چھپے مواد نے غیر ارادی طور پر یہ آشکار کر دیا کہ وہ گوئٹامالا میں ہیں۔ جلد ہی متعلقہ اداروں نے ان کا سراغ لگا لیا گیا اور ان کو حراست میں لے لیا گیا۔

ڈیجیٹل تصویر میں چھپی معلومات کی یہ دو ایسی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح تصاویر وہ معلومات بھی عام کر دیتی ہیں جو تصویر لینے والا اور تصویر بنانے والا شاید عام نہ کرنا چاہتے ہوں۔

کیا آپ کی اپنی تصاویر بھی وہ تفصیلات دنیا پر آشکار کرتی ہیں جو آپ عام کرنا نہیں چاہتے یا بتانا نہیں چاہتے۔

جب آپ کوئی تصویر بناتے ہیں، چاہے یہ آپ کا سمارٹ فون یا آپ کا ڈیجیٹل کیمرہ ہو یہ ‘میٹا ڈیٹا’ بھی اس تصویر کی فائل کے ساتھ محفوظ کر لیتا ہے۔

یہ ڈیٹا خود کار طور پر ہر اس تصویر میں محفوظ ہو جاتا ہے جو آپ اُتارتیں ہیں۔ میٹا ڈیٹا کا کسی بھی فائل میں موجود معلومات کے بارے میں ڈیٹا ہوتا ہے جس میں شناختی معلومات بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کب اور کہاں یہ تصویر بنائی گئی اور اس کے لیے کسی ساخت کا کیمرہ استعمال کیا گیا۔

میٹا ڈیٹا کو مٹانا یا ختم کرنا ناممکن نہیں ہے اور اس کے لیے سافٹ ویئر مثلاً ایکس اف ٹول آسانی سے دستیاب ہیں۔

لیکن بہت سے لوگوں کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ مواد موجود ہے اور اس کا خیال تو بالکل نہیں آتا کہ یہ کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی تصاویر کو آن لائن ڈالنے سے پہلے میٹا ڈیٹا کے بارے میں نہیں سوچتے۔

لیکن سوشل میڈیا کے کچھ پلیٹ فارم کچھ معلومات مثال کے طور پر ‘جیو لوکیشن’ یا محل وقوع کے بارے میں مواد مٹا دیتے ہیں لیکن بہت سی ویب سائٹس ایسا نہیں کرتی۔

اس بارے میں عوامی سطح پر پائے جانے والی لاعلمی سے پولیس کے تحقیقاتی اداروں کو فائدہ ہوا ہے جس سے وہ لاپرواہ مجرموں کے خلاف ثبوت حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ قانون پر عملدرآمد کرنے والے شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ حکام با آسانی ان سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر سے ان کی نقل و حرکت کی تفصیل حاصل کر سکتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہوشیار اور جدید ٹینکنالوجی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے جرائم پیشہ عناصر بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر انھیں یہ معلوم ہو جائے کہ یہ تصویر کب اور کہاں لی گئی ہے تو انھیں گھروں میں چوریاں کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔

کیمرے کا سینسر

کیمرے کے سینسر میں کچھ ایسی خامیاں رہی جاتی ہیں جو اس کے فنگر پرنٹ بن جاتے ہیں

لیکن جدید کیمروں سے اتاری گئی تصویر میں صرف ‘میٹا ڈیٹا’ ہی چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ ان میں یہ خاص قسم کا ‘شناخت کار’ بھی ہوتا جس سے ہر تصویر کے بارے میں معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کسی کیمرے سے اتاری گئی ہے۔ لیکن اس کے بارے آپ کو شاید کبھی شبہہ نہ ہو۔ حتی کہ پیشہ ور فوٹوگرافروں کو بھی اس کا خیال شاید کبھی نہ آئے۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ آخر یہ شناخت کار ہے کیا، آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ تصویر لی کیسے جاتی ہے۔ ہر ڈیجیٹل کیمرے اور سمارٹ فون کے کیمروں میں بھی میں سب سے مرکزی کام ‘امیجنگ’ یا عکس لینے والے سینسر کا ہوتا ہے۔

یہ کروڑوں سلیکون کے ‘فوٹو سائٹس’ پر مشتمل ہوتا ہے جو روشنی کو جذب کرنے کے لیے خالی خانے ہوتے ہیں۔ ایک عمل جسے ‘فوٹو الیکٹرک’ اثر کہا جاتا ہے وہ فوٹو سائٹ پر فوٹون کو جذب کر لیتا ہے اور الیکٹرون کو باہر دھکیل دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی نائٹ کلب کے باہر کھڑا ‘باؤنسر’ یا دربان کرتا ہے۔

فوٹو سائٹ سے نکلنے والے الیکٹرون کے برقی چارج کو ڈیجٹل اقدار میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر فوٹو سائٹ کی ایک مخصوصی اکائی بنتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتنی روشنی آئی۔ اور اس طرح کوئی منظر عکس بند ہو جاتا ہے جسے ہمیں روشنی کے ذریعے مصوری کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔

ہر فوٹو سائٹ صنعتی عمل کے دوران پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے معمولی سا مختلف ہوتا ہے۔ لہذا اگر آپ ایک ہی ساخت کے دو مختلف کیمروں سے کسی ایسی چیز کی تصویر بنائیں جس سے منعکس ہونے والی روشنی کی مقدار بالکل یکساں ہو، اس کے باوجود بھی دونوں کیمروں کی تصاویر میں معمولی سا فرق ہو گا۔

فوٹو سائٹ کے سینسر میں جو فرق ہوتا ہے وہ تصویر میں ایسا فرق پیدا کر دیتا ہے جس کو آسانی سے محسوس نہیں کیا جاسکتا۔

ڈیجیٹل فورنزک کمیونٹی میں اس ‘سینسر فنگر پرنٹ’ کو ‘فوٹو سینسر نان یونیفارمٹی’ کہتے ہیں۔ نیویارک کی یونیورسٹی آف بنگہیمٹن کی پروفیسر جیسیکا فریڈرک کا کہنا ہے کہ اگر آپ کوشش بھی کریں تو ان کو مٹانا مکمن نہیں ہوتا۔

جعلی تصاویر

اس تکنیک جسے ‘نان یونیفارمٹی فنگر پرنٹ’ کہا جاتا ہے، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے فریڈرک جیسے تحقیق کاروں کو جعلی تصاویر کی شناخت کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

اصولاً تصاویر معلومات کا ایک خزانہ ہوتی ہیں اور ان سے بہت کچھ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آج کل کے ماحول میں جہاں گمراہ کن مواد عام ہے اور تصویروں میں رد و بدل کرنے والے سافٹ ویئر با آسانی دستیاب ہیں صورت حال بہت ابتر ہو گئی ہے۔ اس صورت حال میں یہ بات بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ ڈیجیٹل تصاویر کے اصلی ہونے کے بارے میں معلوم کیا جا سکے۔

فریڈرک نے تصاویر کی فنگر پرنٹنگ تکنیک کو اپنے نام سے رجسٹر کرا لیا ہے اور امریکہ میں عدالتوں کی سطح پر اس کے ذریعے تصاویر کی تصدیق کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔

اس دنیا میں جعل سازی کا پتا لگانے کی صلاحیت کا حاصل ہو جانا بہرحال ایک مثبت پیش رفت ہے۔

امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کی برکلے یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے پروفیسر اور ڈیجیٹل امیج فورنزک کے بانی ہینی فرید کا کہنا ہے کہ فوٹو فنگر پرنٹنگ کے طریقہ کار کا مثبت اور منفی دونوں طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فرید نے نان یونیفارمٹی کے طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات میں تصاویر سے ان کیمروں کا پتا لگایا ہے جن سے یہ لی گئیں تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اس کا ایک فائدہ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بارے میں بھی خبردار کیا ہے کہ اس کا منفی استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں، صحافتی فوٹوگرافروں اور مختلف شعبوں میں ہونے والے جرائم یا بدعنوانیوں کو آشکار کرنے والے ایسے لوگوں کے لیے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ یہ بات بہت اہم ہو سکتی ہے۔ فرید کے بقول ایسے لوگوں کی بنائی گئی تصاویر سے شناخت ہو سکتی ہے اور ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

‘پرائویسی’ کی اس بحث میں ہم اس کا موازنہ ایک اور ٹیکنالوجی سے بھی کریں۔ بہت سے کلر پرنٹر کسی دستاویز کی نقل بناتے ہوئے اس میں مخصوص نکتوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔

نظر نہ آنے والے ان پیلے رنگ کے نکتوں سے پرنٹر کا سیریل نمبر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ان نکتوں سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کسی دستاویز کو کسی وقت پرنٹر سے نکالا گیا تھا۔ سنہ 2017 میں ان نکتوں کے ذریعے ہی امریکہ کے تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی لیک ہو جانے والی اُن دستاویزات کا پتہ لگایا تھا جو سنہ 2016 میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے بارے میں تھیں۔

‘وسل بلوینگ’ یا بھانڈا پھوڑنے والوں کے بارے میں آپ کی کوئی بھی رائے ہو اس سے قطع نظر نگرانی یا تحقیقات کرنے کی ان جدید طریقوں سے آپ کی زندگی پر بھی اثر پڑے گا۔

یورپی کمیشن نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان طریقوں سے ‘پروائسی رائٹ’ یعنی آپ کی نجی زندگی میں عدم مداخلت کے بارے میں آپ کے حقوق کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

اگر ہم تصویروں کے فنگر پرنٹ کے طریقے کو پرنٹر کے سیریل نمبر معلوم کرنے کے برابر تصور کیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تصویر کی ‘نان یونیفارمٹی’ کی ٹیکنالوجی آپ کے نجی معلومات کے شخصی یا انفرادی حق کو پامال کرتی ہے۔

انٹرنیٹ پر اپنی تصاویر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اپنی شدید خواہش کے باوجود ہم اپنی نجی زندگی میں عدم مداخلت کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اصولاً ہر شخص کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی نجی زندگی کے بارے کتنی معلومات عام کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جدید تصاویر کی فورنزک کے بارے میں جس ٹیکنالوجی کی ہم بات کر رہے ہیں اس کی موجودگی میں نجی معلومات پر شخصی اختیار ایک خام خیالی ہی ہو سکتا ہے۔

‘سینڈرڈ میٹا ڈیٹا’ سے بچنا مشکل ہے اور تصویر بنانے کے بعد جو معلومات آپ حذف کر سکتے ہیں وہ صرف جیولوکیشن ہے۔ کیمرے کی ساخت میں جو تنوع پاتا جاتا ہے جسے ‘نان یونیفارمٹی ‘ رد عمل کہتے ہیں اس سے بچنا بہت مشکل ہے۔ تکنیکی اعتبار سے اس سے کسی حد تک کیمرے کی ریزولوشن کم کر کے بچا جا سکتا ہے لیکن فرید کے مطابق مکمل طور پر نہیں بچا جا سکتا۔

لہذا ہمیں اس بارے میں کسی حد تک تشویش ہونی چاہیے؟ جب میں نے فریڈرک کےسامنے یہ سوال رکھا تو انھوں نے کہا کہ ایک کاریگر اپنے اوزاروں سے بے شمار چیزیں بنا سکتا ہے لیکن ان ہی اوزاروں سے کسی کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔

اپنی تصاویر میں چھپی معلومات کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ آپ کے لیے انتہائی خطرناک ہیں لیکن فریڈرک کہتی ہیں کہ یہ معلومات اگر غلط ہاتھوں میں چلی جائیں تو ان کا نقصان ہو سکتا ہے۔

اس میٹا ڈیٹا کی دستیابی کے منفی اثر کے لیے آپ کا ڈونلڈ ٹرمپ یا جان میکفی ہونا ضروری نہیں ہے لیکن اب جب بھی آپ اپنے سمارٹ فون یا ڈیجیٹل کیمرے سے تصویر بنانے لگیں گے تو ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں گے کہ آپ اپنی کتنی نجی معلومات دوسرے کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp