بحیرہ ہند میں چین کا بڑھتا اثر: انڈین بحریہ اس ’چیلنج‘ سے کیسے نبرد آزما ہو سکتی ہے؟


بحیرہ ہند میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ انڈیا کے لیے ایک مشکل سوال بن کر سامنے آیا ہے اور اسی بڑھتے اثر کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے پچھلے کچھ برسوں میں انڈین بحریہ نے کئی دوست ممالک کے ساتھ مل کر بحیرہ ہند میں جنگی مشقیں کی ہیں۔

اسی کڑی کی تازہ ترین مثال حال ہی میں ہونے والی دو روزہ ‘پیسیکس’ بحری فوجی مشقیں ہیں جن میں انڈیا اور امریکہ کی بحریہ نے بحیرہ ہند کے مشرقی علاقے میں اپنی صلاحیتوں کا امتحان لیا۔

‘پیسیکس’ نامی ان مشقوں میں انڈین نیوی کے جنگی جہاز شوالِک’ کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹروں اور طویل دوری کے سمندری گشتی ہوائی جہازوں نے امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ کرئیر سٹرائیک گروپ کے ساتھ حصہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے

چین کی ’ڈیجیٹل جاسوسی‘ انڈیا کے لیے کس قدر پریشان کُن ہے؟

چین کے ساتھ کشیدگی کے درمیان امریکہ کے ساتھ انڈین بحریہ کی مشقیں

جب انڈین بحریہ کے جوانوں نے دال کھلانے پر بغاوت کی اور جہازوں پر قبضہ کر لیا

کیرئیر سٹرائیک گروپ ایک بہت بڑا بحری بیڑا ہوتا ہے جس میں ایک ہوائی جہاز کیرئیر اور بڑی تعداد میں جنگی جہاز اور دیگر جہاز شامل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ پچھلے منگل کو بحیرہ ہند میں فرانسیسی جوائینٹ فورس کمانڈر رئیر ایڈمرل جیک فیارڈ کی قیادت میں فرانسیسی بحریہ کا ایک وفد ممبئی میں انڈیا کی بحریہ کی مغربی کمان کے فلیگ افسر کمانڈنگ ان چیف وائیس ایڈمیرل ہری کمار سے ملا۔

اس ملاقات میں فریقین کے درمیان سمندری سکیورٹی سے منسلک معاملات پر بحری فوجوں کے درمیان مزید تعاون اور بحر ہند کے علاقے میں سمندری سکیورٹی پر مذاکرات ہوئے۔

یہ مذاکرات اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی دو طرفہ سالانہ مشقیں اپریل 2021 میں ہونے والی ہیں جن میں فرانسیسی نیوی کا کیرئیر سٹرائیک گروپ شامل ہوگا۔

ایسا پہلی بار ہوگا کہ اپریل میں ہونے والی ان مشقوں میں انڈین بحریہ خلیج بنگال میں فرانسیسی بحریہ کی قیادت میں ہونے والی ‘لا پیروس’ مشق کا حصہ بنے گی۔

اس مشق میں حصہ لینے والے ممالک میں کواڈ کے دیگر ملک، جیسے کہ آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ شامل ہونگے۔

فرانس کی قیادت میں ہونے والی اس ڈرِل میں انڈیا کی شمولیت کو ایک اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔

اسی سال جنوری اور فروری میں بھی انڈین بحریہ نے اپنی سب سے بڑی جنگی مشق ‘ٹروہیکس’ کا بھی انعقاد کیا جس میں نیوی کی آپریشنل تیاریوں اور صلاحیت کا جائزہ لیا گیا۔

اس میں جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کے ساتھ ساتھ انڈین زمینی فوج اور فضائیہ اور کوسٹ گارڈ نے بھی حصہ لیا۔

انڈیا

انڈین بحریہ کی بڑھتی جنگی مشقیں

سنہ 2020 پر ہی نظر ڈالیں تو واضح ہے کہ غیر ملکی بحری فوجوں کے ساتھ انڈین بحریہ کی مشقوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

ان کا آغاز پچھلے سال جنوری میں ہی ہو گیا تھا جب نسیم البہر نامی مشق میں انڈین بحریہ نے رائل نیوی آف عمان کے ساتھ جنگی مشق کی تھی جس کا انعقاد گوا میں کیا گیا تھا۔

عمان کے الرسخ اور الخاصب جہازوں نے انڈین بحریہ کے بیاس اور سومدرا جہاذوں کے ساتھ اس میں حصہ لیا تھا۔

اس کے بعد کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے مشقیں رک گئیں، لیکن ستمبر آتے آتے بحری مشقوں کا سلسلہ پھر بحال ہونے لگا۔

ستمبر 2020 میں انڈین بحریہ اور روسی بحریہ کے درمیان دو طرفہ مشقیں خلیج بنگال میں منعقد کی گیئں۔

ستمبر کے ہی مہینے میں انڈین بحریہ اور جاپان میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس نے بحیرہ عرب میں مشقوں میں حصہ لیا۔

انڈین بحریہ نے اکتوبر 2020 میں بنگلہ دیشی بحریہ کے ساتھ ‘بونگو ساگر 2020’ کے نام سے خلیج بنگال کے شمالی حصے میں جنگی مشقوں کا انعقاد کیا۔

اکتوبر 2020 میں ہی انڈین بحریہ نے سری لنکا کی بحریہ کے ساتھ خلیج بنگال میں ‘سلائینیکس’ نامی جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔ اس کے دوران ہی انڈیا کے ایڈوانسڈ لینڈنگ ہیلی کاپٹر کی پہلی لینڈنگ سری لنکا کے بحری جہاز گجباہو پر کی گئی۔

اکتوبر 2020 میں انڈیا نے رپبلک آف سنگاپور کی بحریہ کے ساتھ بحیرہ ہند کے مشرقی حصے میں جنگی مشقیں کیں اور اس کے بعد نومبر 2020 میں ‘مالابار’ کے نام سے بحیرہ ہند میں بین الاقوامی جنگی مشقوں کا انعقاد کیا جس میں کواڈ ممالک یعنی امریکہ، جاپان، اور آسٹریلیا کی بحری فوجوں نے حصہ لیا۔

نومبر میں ہی انڈیا نے سنگاپور نیوی اور رائل تھائی لینڈ نیوی کے ساتھ بحیرہ ہند کے مشرقی حصے میں ‘سِٹمیکس’ نامی جنگی مشقوں کا انعقاد کیا۔

‘انٹرآپریبلٹی’ اور ‘بیسٹ پریکٹِس’ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت اور ایسا کرنے کے بہترین طریقے، ان دونوں میں اشتراک کے مقصد سے انڈین بحریہ نے 2020 میں کئی غیر ملکی بحری فوجوں کے ساتھ مشقیں منعقد کیں۔

فرانسیسی بحریہ، جاپانی سمندری دفاعی دستے، امریکی بحریہ اور آسٹریلوی نیوی کے ساتھ پیسیکس جنگی مشقیں کی گئیں۔

یہ مشقیں خلیج بنگال، بحر ہند کے مشرقی علاقوں، اور خلیج ادن میں کی گئیں۔

میزبان حکومتوں کی درخواست پر انڈین بحریہ باقاعدگی سے ایک مہینے میں ایک بار مالدیپ کے خصوصی معاشی زون کی نگرانی کرتی رہی ہے اور سیشلز اور ماریشئیس کے جزائر کی حکومتوں کے کہنے پر وہاں دو بار جہازوں اور ہوائی جہازوں کو تعینات کر کے ان کی نگرانی بھی کرتی رہی ہے۔

بحر ہند میں چین کا بڑھتا اثر

ادھر چین نے پچھلی دہائی میں بحیرہ ہند کے علاقے میں اپنی موجودگی کئی گنا بڑھائی ہے۔

اس بارے میں سوسائٹی فار پبلِک سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور انڈین بحریہ کے رٹائیرڈ کموڈور، سی ادے بھاسکر کا کہنا ہے کہ بحیرہ ہند کے حوالے سے چین ایک خطرے سے زیادہ ایک چیلنج کے طور پر ابھرا ہے۔

بھاسکر کہتے ہیں، ‘میں یہ کہوں گا کہ اس وقت بحیرہ ہند میں چین کی موجودگی ایک چیلنج ہے۔ بحریہ کے نقطہ نظر سے اس نے اب تک خطرے کا روپ حاصل نہیں کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انڈیا کو بہت ہوشیار رہنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ بحیرہ ہند کے علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔’

چینی بحریہ پہلی بار سن 2008-09 میں قزاقوں کے خطرے کو روکنے کی مہم کے تحت بحیرہ ہند میں داخل ہوئی اور پھر وہیں ڈٹ گئی۔

گزرے برسوں میں چین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بحیرہ ہند کے ان علاقوں میں اس کی موجودگی برقرار رہے جو اس کے لیے سیاسی لحاظ سے اہم ہیں۔

ادے بھاسکر کے مطابق انڈیا کے لیے اس کا مطلب ہے کہ جس ملک کو اب تک صرف ایسا پڑوسی سمجھا جاتا تھا جس کی سرحد آپ کی سرحد سے جڑی ہے، اب اس نے سمندری قربت بھی حاصل کر لی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے انڈیا کی اپنی پروفائل اور علاقے میں انڈیا کے مفادات کو کم کرتا ہے۔

‘تشویش کی بات یہ ہے کہ چین بحریہ کے بحیرہ ہند میں نقش قدم اب جبوتی سے لے کر افریقہ تک پہنچ گئے ہیں۔ چین اور ایران کے درمیان حال ہی میں ایک بڑا معاہدہ طے پایا ہے۔ ایران میں چینی موجودگی کا بھی ایک سنجیدہ مطلب ہے کیونکہ ایران انڈیا کے لیے اہم ہے اور تیل کی فراہمی کے راستوں کے حوالے سے ایران کی ایک اہمیت ہے۔’

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چین بحیرہ ہند کے علاقے میں بحری سازو سامان کے ایک بڑے سپلائر کے طور پر ابھر رہا ہے اور وہ پہلے سے ہی میانمار، سری لنکا اور پاکستان کو فوجی سازوسامان دینے والا سب سے بڑا سپلائر رہا ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں بنگلہ دیش نے چین سے کچھ آبدوز خریدیں ہیں جس کا اثر انڈیا کے بحیرہ ہند کے علاقے میں پڑ سکتا ہے۔

کیا یہ جنگی مشقیں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں؟

کموڈور ادے بھاسکر کہتے ہیں کہ یہ جنگی مشقیں مختلف ممالک کی بحری فوجوں کے درمیان بہتر تعاون اور اشتراک کو بڑھانے میں مدد کرتی ہیں۔

انڈیا

‘یہ مفید ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں لاگت اور ان کی افادیت پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ اگر کوئی بحریہ مشقوں کے لیے لگاتار تعینات رہتی ہے تو اس کا جہاز یا آبدوز پر اثر پڑتا ہے۔’

وہ کہتےہیں کہ بحریہ کا پہلا کام ہے 24 گھنٹے جنگ کے لیے تیار رہنا۔

‘آپکو جنگ لڑنے کے لیے اپنی صلاحیت کو بہتر بنانا ہوگا۔لیکن ساتھ ہی آپ کو بحریہ کی دیگر ضرویات کے ساتھ توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ کبھی دیگر بحری فوجوں کے ساتھ کام کرنا آپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی بحیرہ ہند کے علاقے میں انڈین بحریہ کو پرچم بردار بننا ہوتا ہے تو کبھی بحریہ کو امدادی کارروائیوں کے لیے کام پر لگایا جاتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ دیکھا گیا ہے کہ انڈین بحریہ ضرورت پڑنے پر کھانے پینے کی اشیا پہنچانا، اور دیگر امدادی کارروائیاں بھی کرتی ہےاور اس کا مطلب ہے کہ بحریہ کے کئی روپ ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے کئی جہازوں کی ضرورت ہے تاکہ ان بحری جہازوں پر اثر نہ پڑے جو جنگی مشقوں میں استعمال ہوتے ہیں۔’

چین کے چیلینج کا جواب کیا ہے؟

کموڈور ادے بھاسکر کہتے ہیں کہ انڈین بحریہ کو ملنے والی فنڈنگ کا فوراً جائزہ لیا جانا چاہیے اور اس میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔

‘یہ بحث پچھلی دو سے تین دہائیوں سے چلی آ رہی ہے کہ آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ دفاعی بجٹ کا لگ بھگ 14 فیصد دے کر آپ ایک ایسی بحریہ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہونگے جسے اب اتنی ساری ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں۔’

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا کو اب سیاسی سطح پر دیگر آپشنز کی تلاش کرنی چاہیے کیونکہ اب انڈیا کواڈ کا رکن بن چکا ہے تو اسے امریکہ سے طویل عرصے کے لیے جہاز اور جنگی جہاز لیز پر لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو بھی اس نتیجے پر پہنچنا ہوگا کہ انڈیا یا آسٹریلیا یا کچھ دیگر چھوٹے ممالک کے ساتھ اس طرح کام کرنا اس کے لیے بہت مفید ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp