سٹیٹ بنک آف پاکستان اور جام صادق علی



مرکزی بنک ہر قسم کے سرکاری دباؤ اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک ہونا چاہیے یہ ‎قوم کی معاشی شہ رگ ہوتا ہے

‎سٹیٹ بنک کی خودمختاری پر ذرائع ابلاغ میں طوفانی جھکڑ چلائے جا رہے ہیں۔ نیم خواندہ صحافی اور نام نہاد معاشی تجزیہ نگار میدان میں کود پڑے ہیں۔ افواہوں کے گردوغبار نے حقیقت کو دھندلا دیا ہے۔ کسی کا دعوی ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سٹیٹ بنک کی خودمختاری کا قدم آئی ایم ایف کی پیشگی شرط کا شاخسانہ ہے تو کسی کے نزدیک یہ عالمی ایجنڈے کا باعث ہے۔ معتبر یا متوازن سوچ کے بعض حامی بھی اس اقدام پر منفی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔

پاکستان میں سٹیٹ بنک سے کیسا سلوک کیا جاتا تھا ایک ہولناک واقعہ جناب شاہین صہبائی سناتے ہیں امتیاز عالم حنفی نہایت دیانتدار اور اصول پسند بنکر تھے جام صادق مہران بنک کا لائسنس یونس حبیب کو دلوانا چاہتے تھے جس کی راہ میں آئی اے حنفی سب سے بڑی رکاوٹ تھے ان کا اکلوتا بیٹا حمید حنفی کو جام کانبھوخان کے بیٹے جام صادق علی وزیر اعلے سندھ کی ایما پر اغوا کر لیا گیا جو 34 روز بعد واپس آیا اس دوران مہران بنک کا لائسنس جاری ہو گیا لیکن حنفی صاحب مستعفی ہو گئے جسے اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحق خان نے مسترد کر دیا تھا جو حنفی صاحب کے ساتھ کام کرچکے تھے حنفی صاحب ناک کی سیدھ میں چلنے والے ”جماندرو“ بنکار تھے جو سٹیٹ بنک میں بھرتی ہوئے اور درجہ بدرجہ منزلیں طے کرتے گورنر بنے تھے

اسی مہران بنک سے جنرل مرزا اسلم بیگ کا تھنک ٹینک ”فرینڈز“ برآمد ہوا تھا۔ ان حالات میں مدتوں سے مرکزی بنک کی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لئے مسودوں کی تیاری جاتی تھی۔

‎متعلقہ فریقین، سٹیٹ بنک کے موقف اور ذمہ داران کی بات سنی اور سمجھی جائے تو یہ سب کچھ عالمی سطح پر رائج بہترین اقدامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ حقیقت جان لیں کہ ان ترامیم پر سٹیٹ بنک 2015 سے کام کر رہا تھا۔ اس مقصد کے لئے ذمہ داری نبھانے والی سٹیٹ بنک کی ٹیم نے 95 مرکزی بینکوں کی قانون سازی کا مطالعہ کیا اور عالمی اور ملکی بہترین قانون سازی کے نکات کشید کر کے ایک مسودہ تیار کیا۔

2020 کے آغاز پر سٹیٹ بنک نے اپنا پہلا مسودہ آئی ایم ایف کو رائے کے لئے بھجوایا۔ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آئی ایم ایف نے یہ مسودہ واپس بھیجا تو اپریل 2020 میں اسے وزارت خزانہ ارسال کر دیا گیا۔ مشاورت ہوتی رہی اور آخر کار گزشتہ ماہ اسے وفاقی کابینہ نے منظور کر لیا۔ اس عرصے کے دوران ایک درجن سے زائد مسودات تیار ہوئے جن میں سے با الآخر ایک پر اتفاق ہوا۔ یہ خارج از امکان نہیں کہ بہت سارے مسودات میں سے کوئی ایک پرانا سوشل میڈیا پر چیخ وپکار کا باعث بن رہا ہو؟

‎آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھی تھی کہ تیارشدہ مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے۔ جس کے بعد پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق اس پر بحث وتمحیص ہوگی۔ ‎شک وشبہ کی گرد پڑنے کا ذمہ دار وزارت خزانہ کو ٹھہرایا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ بروقت اس مسودہ سے میڈیا کو آگاہ کرتی۔ اگرچہ بعد ازاں تصویری خاکوں کی مدد سے مجوزہ ترامیم وزارت کی زنبیل سے برآمد ہوئیں لیکن بہتر یہ ہوتا کہ پورا مسودہ ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے قوم کے سامنے لایاجاتا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

اس ترمیم کا مقصد ‎سٹیٹ بنک کو زیادہ خودمختار بنانا اور اس کے امور کار یا مینڈیٹ کی واضح تشریح ہے ماضی میں سٹیٹ بنک وزارت خزانہ کے ہاتھ کی گھڑی تھا سیاسی جغادریوں کے زیراثر معاشی پالیسیاں بنانا سکہ رائج الوقت تھا۔ غیرملکی کرنسی کی قیمت کے غیرحقیقی تعین سے یہ ثابت کیاجاتا تھا کہ معاشی صورتحال بہت اچھی ہے۔ ماضی کی حکومتیں انتخابات میں ان اعداد و شمار کو اپنی کامیابی کے لئے اور عوام پر اپنی کارکردگی کا رعب بٹھانے کے لئے استعمال کرتی رہیں۔

‎سٹیٹ بنک کو وزارت خزانہ کی قید سے آزاد کر کے اس ماضی کے دھندے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ مستقبل میں اس نوع کے بحران سے ملک کو بچایا جائے۔ اس طرح مارکیٹ کے آسمان پر پہنچنے اور یک دم دھڑام سے زمیں بوس ہوجانے کی مصیبت سے پاکستان کو نجات دلانے کی جستجو جاری ہے۔

‎وہ ترمیم جس کے سب سے زیادہ دورس اثرات بتائے جاتے ہیں، اس کا تعلق سٹیٹ بنک کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی سٹیٹ بنک کا اختیار کیا ہوگا؟ فی الوقت جو ذمہ داریاں یا دائرہ کار سٹیٹ بنک کے لئے طے ہے، اس میں خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔ قیمت میں استحکام اور شرح نمو مرکزی بینک کے لئے دونوں یکساں اہمیت کے اہداف ہیں۔ یہ تجویز دی گئی ہے کہ مقامی قیمت کے استحکام کو بنیادی اور اولین ہدف مقرر کرتے ہوئے معاشی نظام میں استحکام کو دوسرا بنیادی مقصد بنایا جائے۔ تیسرا مقصد حکومتی پالیسیز میں مدد کرنا ہے تاکہ معاشی ترقی تیز ہو۔ اکثر تجزیہ نگاروں کی رائے میں معاشی ترقی و شرح نمو کو مشترکہ بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔

‎گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی طویل المدتی شرح نمو مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ اس مدت کے دوران افراط زر یا مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ معاشی ماہرین اس کا یہ نچوڑ نکالتے ہیں کہ موجودہ معاشی اہداف اور انتظام صحیح کام نہیں کررہا۔ وقت آ گیا ہے کہ اب دنیا میں کامیابی کا باعث بننے والے نظام اور طریقوں کو آزمایاجائے۔ عالمی مالیاتی مواد اور پاکستانی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ کسی کرنسی کی قوت خرید میں کمی یا افراط زر کے ماحول میں شرح نمو بڑھانا انتہائی مشکل کام ہے۔

افراط زر اصل میں ٹیکس ہی کی ایک قسم ہوتی ہے جس میں اصل موت یا تباہی غریب کی ہوتی ہے۔ معاشی ماہرین کا استدلال ہے کہ قیمت کا استحکام کسی قوم کی معاشی صحت ٹھیک کرنے کے لئے نہایت اہم ہے۔ اگر پالیسی ٹھیک کام نہ کر رہی ہو تو پارلیمنٹ کو حق ہے کہ وہ اس ضمن میں ترمیم اور تبدیلی کر کے اور سٹیٹ بینک کے لئے شرح نمو کو اولین ترجیح بنائے۔

‎ایک ابہام سٹیٹ بنک کی جانب سے سرمائے کی فراہمی پر جاری ہے۔ مجوزہ ترمیم میں سٹیٹ بینک کے پاس یہ اختیار بدستور موجود رہے گا کہ وہ حد عبور کرنے کے باوجود ایسے کسی بھی شعبے کے لئے رقم جاری کرے جسے اس کی ضرورت ہو۔ معاشی ماہرین کے مطابق ان ترامیم کے نتیجے میں درحقیقت ادھار رقم دینے کا دائرہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس ضمن میں یہ مثال دی جاتی ہے کہ 2008 عالمی مالیاتی بحران کے سنگین ہونے پر بہت سارے مرکزی بینکوں نے ’کوآنٹیٹیو ایزنگ‘ (quantitative easing) کا سہارا لیا تھا۔

اس مالیاتی حکمت کے ذریعے مرکزی بینک حکومتی بانڈز یا اثاثہ جات کے بدلے مزید رقم نظام میں لاتا ہے تاکہ معاشی نظام چل سکے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ حالیہ اقدام سے سٹیٹ بنک کا زیادہ رقوم جاری کرنے کا دائرہ کار مزید وسیع ہو جائے گا۔ دکھاوے کی مالیاتی کارروائیاں بند کرنا ہوں گی۔ ماہرین یہ دلچسپ امر بیان کر رہے ہیں کہ اس وقت دکھاوے کی کوئی مالیاتی سکیمیں لاگو نہیں ہیں۔

‎ 1970 سے حالیہ ماضی تک دوبارہ پیسہ یا قرض لینے کی سکیموں کو بہت ہی غلط استعمال کیا گیا۔ با اثر کاروباری گروہوں نے سیاستدانوں کے ساتھ لابی کی کہ یہ سکیمیز جاری رہیں اور انہیں بدلا نہ جائے۔ ان ترامیم کے بعد سٹیٹ بنک کے پاس زیادہ اختیار ہوگا کہ ’سیاسی معیشت‘ یا مالی مفادات پرمبنی سیاسی اثر و رسوخ کے چنگل سے ان سکیمز کو آزاد کرے۔ ایسی سکیمز کو ویسے بھی حکومت کے زیراثر نہیں ہونا چاہیے۔ 1960 میں ایسا ہی معاملہ تھا کہ بہتر طریقہ کار کے تحت ترقیاتی مالیاتی ادارے (ڈی۔ ایف۔ آئیز) وجود میں آتے تھے۔ معاشی ماہرین کی تجویز ہے کہ ’ڈی۔ ایف۔ آئیز‘ تیارکرنے کے لئے کام کیاجائے اور ’ایگزم بینک‘ کو تیزی سے فعال کیاجائے۔ جیسے جیسے یہ نظام چلے، ویسے ویسے مرکزی بینک کے بار بار پیسے جاری کرنے کے عمل کو کم کیاجاتا رہے۔

‎سٹیٹ بینک سے براہ راست حکومت کے پیسہ یا ادھار لینے کا سلسلہ ختم ہونے پر قومی معاشی خودمختاری کا سودا ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھا اور سمجھا جا رہا کہ 2015 میں پہلی ترمیم کے بعد موجودہ قانون کے تحت سٹیٹ بنک سے حکومت کی سہہ ماہی بنیادوں پر قرض لینا ’نیٹ زیرو‘ ہے۔ اس لئے نئی ترامیم کا بہت ہی محدود اثر ہوگا۔

‎حکومت مرکزی بینک سے قرض لیتی ہے تو اس کے نتیجے میں افراط زر یا مہنگائی بڑھتی ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہو جائے تو وزارت خزانہ اپنا گھر ٹھیک کرنے پر مجبور ہوگی اور ہر کوئی اس بجٹ کے اندر رہنے کا پابندہوگا جو اس کے لئے مختص کیاجاتا ہے۔ البتہ کسی قدرتی آفت یا ہنگامی صورتحال کے پیش نظر بوقت ضرورت حکومت کے قرض لینے کی گنجائش موجود رہنی چاہیے۔ برطانیہ کے بنک نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے حکومت کو پیسے جاری کیے ۔ اسی طرح سٹیٹ بنک کے ذریعے مقامی بینکوں سے قرض لینے کی بھی سہولت حکومت کو میسر رہے گی۔ اس طریقہ کار سے مرکزی بینک سے مقامی کمرشل بینکوں کی طرف خطرات منتقل ہوجائیں گے۔

‎ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سٹیٹ بینک کے خودمختار ہونے سے اس کی جوابدہی بھی بڑھ جائے گی۔ ماضی میں سٹیٹ بینک کے گورنر کو بیرون ملک سفر کی بھی وزیر خزانہ سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ حکومت سب سے زیادہ قرض لینے والا فریق ہے۔ اس طرح سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے درمیان مفادات کا سنگین ٹکراو موجود تھا۔

‎ماضی میں وزیر خزانہ کا پالیسی ریٹ یعنی سود کی شرح اور کرنسی کی قدر کے تعین پر واضح اثر تھا جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ سیاسی دباو یا اس کے زیراثر فیصلے ہوتے تھے۔ اس وجہ سے پاکستان میں بہت کشمکش اور کھینچا تانی ہوتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے پر حکومت کو سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑتا۔ سٹیٹ بینک کی خودمختاری سے ان الجھنوں اور بحرانوں سے نجات مل سکے گی۔

‎یہ بھی کہاگیا کہ اب گورنر سٹیٹ بینک سے نیب یا ایف آئی تحقیقات نہیں کرسکیں گے۔ اس اعتراض پر حیرت اس لئے ہے کہ ناقدین ابھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ اعتراض کر رہے تھے کہ بیوروکریسی نیب اور دیگر کے خوف کی وجہ سے کام نہیں کر رہی۔ درحقیقت سٹیٹ بینک جواہدہی سے مبرا نہیں ہوا۔ گورنر سٹیٹ بنک کا تقرر صدر پاکستان ہی کریں گے جبکہ گورنر سٹیٹ بنک کی مشاورت سے وفاقی حکومت نائب گورنرتعینات کرے گی۔ وزیرخزانہ کی مشاورت کے بعد گورنر افراد کے پینل میں سے تین نائب گورنرز کے لئے اپنی تجویز دے گا۔ یعنی تین نائب گورنرز مقرر کیے جائیں گے۔

‎گورنر اور اس کے تین نائبین ہی سٹیٹ بینک میں سب سے طاقتور ترین لوگ ہوں گے۔ یہ تقرریاں حکومت کے ہاتھ میں ہوں گی۔ وزیر خزانہ ان افراد کے چناو میں با اختیار ہوگا۔ سٹیٹ بینک بورڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا تقرر حکومت کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے۔ سیکریٹری خزانہ اب بورڈ کا رکن نہیں ہوگا۔ گورنر اور اس کے نائیبین کی تقرری پانچ سال کے لئے ہوگی اور اگلی مدت کے لئے دوبارہ ان کی تقرری کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یہ شق عالمی معیار کے مطابق ہے۔

‎ایگزیکٹو کمیٹی کے کردار پر کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ یہ کمیٹی گورنر، نائب گورنرز، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور دیگر حکام پر مشتمل ہوگی۔ مالیاتی امور سے متعلق اس کمیٹی میں فیصلے ووٹ سے ہوں گے، گورنر اور نائیب گورنر سمیت دیگر ارکان میں سے ہر ایک کا ایک ووٹ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گورنر کے پاس مکمل اختیار نہیں ہوگا کہ وہ من مانی کرے۔ اسی طرح گورنر کا منصب پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے جس طرح کے دنیا کی دگیر معیشتوں میں ہوتا ہے۔ یہ سب ایکٹ آف پارلیمان سے ہوگا لہذا پارلیمان اگر سمجھے کہ ان میں ترامیم کی ضرورت ہے تو وہ کسی بھی لمحے اس میں تبدیلی لاسکتی ہے۔

‎ایک اچھی تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ شک وشبے کو دور کرنے کے لئے پارلیمانی نگرانی کو بڑھایا جائے لیکن سٹیٹ بینک کو انتظامی دباو سے آزاد کرنا ملک کی معاشی ترقی، غریبوں کو مہنگائی سے بچانے اور مالیاتی نظم وضبط قائم کرنے کے لئے نہایت اہم ہے۔

‎تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف سٹیٹ بینک پر کنٹرول پالے گا،‘ یہ بات سچائی نہیں کیونکہ کسی ادارے کا خود مختار ہونے کا مطلب وہ آزادی ہے کہ وہ صرف قاعدے قانون کا پابند ہو ناکہ انفرادی خواہشات کا غلام بن جائے۔ آئی ایم ایف کے کردار اور اس کے موجودہ پروگرام کے بارے میں بھی بہت ابہام پھیلایاگیا ہے۔ ہم ادائیگی کردیں تو آئی ایم ایف سے ہمارا ربط وتعلق ختم ہوجاتا ہے۔ سٹیٹ بینک ہمارا ملکی ادارہ ہے۔ ہم دوبارہ آئی ایم ایف نہ جائیں تو ہمارا اس عالمی ادارے کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا، ڈکٹیٹ کرانے کی بات تو دور رہ جاتی ہے۔

‎یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں مرکزی بینک خودمختار اور آزاد ہوتے ہیں۔ امریکہ کا صدر بھی فیڈرل ریزرو کے چیئرمین کو ’جبری حکم‘ (ڈکٹیٹ) نہیں دے سکتا۔ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت کا فطری مفاد ہے کہ وہ مقبول رہے۔ اس مقصد کے لئے کچھ فوری نوعیت کی چیزیں کرنا ان کے ذہن نشین ہوتا ہے۔ مارکیٹ اکانومی کے لئے ادائیگیوں کا مستعد نظام موجود ہونا لازم ہے۔

‎جس ملک میں مرکزی بینک خودمختار یا آزاد ہوتا ہے، وہاں سرمایہ کاری کے لئے ماحول زیادہ سازگار ہوتا ہے اور ملکی وغیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد واعتبار نظام پر بڑھتا ہے۔ پاکستان نے کسی ایک سال میں 30 ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہونے کا ہدف کبھی پار نہیں کیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی لمحے وزیر خزانہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو حکم دیتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

‎سمجھنے والی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں بل کے ذریعے منظوری کے بعد سٹیٹ بینک کو ملنے والی آزادی شرائط کے تابع ہوگی لہذا اس کے من مانی کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ سہہ ماہی بنیادوں پر سٹیٹ بینک کی رپورٹ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ میں زیربحث آتی ہے۔ جمہوری نظام میں اسی طرح امورکار نمٹائے جاتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب حکومتی اداروں میں مداخلت کرنا نہیں ہوتا کہ حکومت کے مفادات کے لئے قوانین اور فیصلوں کو موم کی ناک بنا دیاجائے۔

‎معاشی ماہرین کا اصرار ہے کہ ایسا مرکزی بینک چاہیے جو حکومتی دباو سے پاک ہو۔ گزشتہ 52 برس میں جن بھی ممالک میں مرکزی بینک کو حکومتی دباو سے نجات ملی، وہ آزاد ہوئے، وہاں کی معیشت پھلی پھولی اور ترقی کی۔ لیکن جب بات وہم اور خوف کی آئے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا ۔

‎یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مرکزی بینک کا چارٹر اس کے اختیار کو ایک دائرے میں پابند کرتا اور اسے ایک نظم میں باندھتا ہے تاکہ کوئی بھی اس لکیر سے آگے پیچھے نہ ہونے پائے جو طے کردی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک کا اختیار مانیٹری پالیسی بنانا، بینکوں کو نظم وضبط میں لانا اور معاشی تحقیق سمیت مالی خدمات فراہم کرنا ہے۔

‎کسی بھی جمہوری نظام میں کوئی بھی حکومتی ادارہ احتساب سے مبرا اور بالا نہیں ہوتا۔ یہ ناکامی پارلیمان کی ہوگی اگر وہ قانون سازی کرتے ہوئے خودمختاری کے ساتھ جوابدہی کا ایک واضح طریقہ کار اس میں فراہم نہیں کرتی۔

‎غیرجانبدار تحقیق کرنے والوں کا نچوڑ ہے کہ خودمختاری ملنے پر مرکزی بینک نے بہتر کارکردگی دکھائی، افراط زر کو کم سطح پر رکھنا ممکن ہوا اور حکومت کے بجائے عوام کے مفاد میں فیصلہ سازی ہوئی۔

‎ضرورت اس امر کی ہے کہ سٹیٹ بینک کے اہداف کا واضح تعین کرتے ہوئے اس کی جوابدہی کا موثر نظام وضع کیاجائے۔ مجالس قائمہ کے ذریعے نگرانی کا شفاف اور کھرا نظام لاگو ہونا چاہیے۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments