بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات اور ایک والد کا احساس


کاشف خان قائل میرے گاؤں، علاقہ نظام پور ضلع نوشہرہ کے ابھرتے ہوئے شاعر ہیں۔ سوشل میڈیا پر خاصے مستعد ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مزاح یا طنز بھری چار پانچ سطری پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور ہر پوسٹ بے ساختگی، کاٹ اور سبق آموزی سے لبالب بھری ہوئی ہوتی ہے۔ آج کراچی ہائی کورٹ بار میں کیسز سے فارغ ہونے کے بعد جب حسب معمول موبائل کھولا تو ان کی ایک تازہ ترین پوسٹ پہلی فرصت میں میری آنکھوں کو خیرہ کر گئی۔ رقم طراز تھے بلکہ پوسٹ طراز تھے کہ

”پہلے لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا لیکن آج کل ان کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔( ہماری ترقیاں )“

اب آپ خود سوچیں کہ یہ بات اور اس بات میں جس قبیح عمل کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے خصوصی طور پر آخر میں اِن بریکٹ جو ہماری ترقیاں لکھا ہے کئی افسانوں، کئی ناولوں، کئی ڈراموں، کئی نظموں اور کئی غزلوں کے اشعار پہ بھاری ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے کوئی نئی بات کہی ہے یا کسی نئے مسئلے کو اجاگر کیا ہے یا اس سے پہلے اس مذموم حرکت پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا۔ اس غلیظ عمل پر بہت کچھ لکھا چکا ہے۔ بہت افسانے، ناول، ڈرامے، نظمیں اور غزلیہ اشعار لکھے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بدترین معاشرتی درندگی کے خلاف احتجاج پر احتجاج بھی ہوئے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں ناں کہ

سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
( سیف الدین سیف)

ایک تو ان کی عمر بہت چھوٹی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس قسم کی جدت بھری نگارشات وہ کیسے قلم بند کرتے ہیں ، یہ وہ خوبی ہے ان کے اس مزاح اور طنز میں کہ جس نے مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ آپ سے بھی ان کی اس صلاحیت کا ذکر کروں۔ جہاں تک اس دل خراش حرکات کا تعلق ہے، یہ اتنی پھیل چکی ہیں کہ آئے دن کہیں نہ کہیں سے خبر آ رہی ہوتی ہے کہ فلاں جگہ یا شہر میں تین سالہ، چار سالہ، سات سالہ یا نو سالہ بچے یا بچی سے جنسی زیادتی کر کے اس کی لاش کچرے کے ڈھیر یا نہر میں پھینک دی گئی ہے یا پھر کسی ویران مکان یا بنجر کھیت میں دفنا دی گئی ہے اور ملزم فرار ہے ، جس کی تلاش جاری ہے۔

کئی ایک کے خلاف احتجاج بھی ہوئے ہیں، پکڑے بھی گئے اور ان کو سزائے موت بھی ہو چکی ہیں۔ یہ وہ بدقسمت اور بدکردار لوگ ہوتے ہیں جن کی خبر رپورٹ ہوتی ہیں اور منظر عام پر آ جاتی ہے ورنہ کتنے ایسے اس طرح کے بدکردار نمونے ہوں گے جن کی ان بہیمانہ حرکتوں کی معاشرتی دباؤ یا ان کے با اثر ہونے کی وجہ سے کوئی رپورٹ یا کوئی مزاحمت نہیں ہو پاتی۔

تو میں احتجاج کی بات کر رہا تھا، سب سے بڑا احتجاج قصور کی زینب کے ریپ کیس کے سلسلے میں ہوا تھا جو نہ صرف ملک گیر تھا بلکہ عالم گیر بھی تھا اور پہلی بار قاتل ڈی این اے پروسس کے ذریعے پکڑا گیا اور اس کو سزائے موت بھی دی گئی۔

اس کے بعد مردان، نوشہرہ، دادو اور حال ہی میں کوہاٹ میں ایک چھوٹی بچی تکریم فاطمہ کے ساتھ پے درپے اس طرح کے واقعات ہوئے اور پولیس کی انتھک محنت اور عوامی دباؤ کی وجہ سے وہ بدبخت اور سیاہ بخت قاتل پکڑے گئے اور اپنے انجام سے بھی آگے گئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا مرد کی مردانگی بس اس ایک فعل تک محدود ہے؟ اگر ہاں تو بقول لیجنڈری شاعر خان عبدالغنی خان یہ تو جانور بھی کر سکتا ہے۔

یقیناً یہ درندگی ہے۔ یہ وحشیانہ عمل ہے۔ یہ جانورں کا خاصہ ہے ، یہ جانور ہی ہیں اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک بھی ہونا چاہیے، کیونکہ جب ایک بندہ اپنے عمل سے ایک بار نہیں بار بار یہ ثابت کرے کہ وہ درندہ ہے۔ وہ وحشی اور خونخوار جانور ہے تو پھر فیصلہ آپ کریں کہ کسی خونخوار جانور کا راستہ روکنے اور اس کو قابو کرنے کے لئے نرم گوشہ اور نرم دلی سے کام لیا جاتا ہے یا پھر آہنی ہاتھوں اور آہنی الاتوں سے۔

میں شاید ذرا جذباتی ہو گیا ہوں لیکن اس کی بھی ایک وجہ ہے کیونکہ میں بھی ایک دس بارہ سالہ بچی کا باپ ہوں اور باپ بننے کے تجربے سے گزرے ہوئے ہر شخص کے جذبات بھی اس سلسلے میں میری طرح ہی ہوں گے۔ اللہ ہر کسی کی بچیوں اور بچوں کو ایسے درندوں کے ایسے برے اور سفاکانہ فعل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حفظ و امان میں رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments