انسان کو انسان ہی سمجھیں!


ابھی کل پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایک ایسی خبر نظر سے گزری جو اب بہت عام سی ہے مگر جانے کیوں میرا دل ہر ایسی خبر پر تڑپ سا جاتا ہے پھر ماضی کی اس سے ملتی جلتی خبروں کی ہیڈلائنز ذہن میں گردش کرنے لگتی ہیں اور دل میں کئی خیالات جنم لیتے ہیں جن میں سے چند ایک اس تحریر کی نذر کرتی ہوں۔ خبر تھی ایک استاد کی جس نے ایک چھوٹے بچے کو ریپ کے بعد قتل کر دیا اور اعتراف جرم بھی کیا۔ یہ کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے اور بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں استاد بچوں کے استحصال میں ملوث دکھے اور ایسی بھی غلاظت سننے کو ملی کہ فلاں استاد نے جی پی اے کے نام پر بلیک میل کر کے اپنی اسٹوڈنٹ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔

اس مثال کا مطلب شعبہ تعلیم پر یا اساتذہ پر کوئی مہر لگا دینا نہیں بلکہ ایک پہلو کو اجاگر کرنا ہے کہ بعض اوقات ہم انسان کو انسان سمجھ کر اس سے معاملات طے نہیں کرتے بلکہ اس سے کچھ ایسی توقعات لگا لیتے ہیں جن کے وہ قابل نہیں ہوتا۔ بچوں کے ساتھ اگر جنسی تشدد کی بات کی جائے تو اس میں سب سے پیش پیش وہی لوگ دکھتے ہیں جن پر بچوں کو اعتماد تھا، جو قریبی تھے۔

یہ بچہ جو حال ہی میں اپنے استاد کی ہوس کا نشانہ بنا یقیناً اپنے استاد کی اپنی طرف رغبت کو ابتداء میں ”روحانی باپ“ کی شفقت سمجھ بیٹھا ہو گا اور اس کے بلانے پر فرمانبرداری میں دوڑا چلا گیا ہو گا یہ جانے بغیر کہ اس ہوس کے مارے میں روحانیت کا کوئی پہلو نہیں بلکہ وہ تو کوئی درندہ ہے مگر ہمارے ہاں تو بس یہ مہر لگی ہوئی ہے ہر اس شخص پر جو پڑھانے کی ملازمت کرتا ہو کہ اس سے روحانیت جڑ گئی ہے اور اسی روحانیت کے لبادے میں بہت سے مدرسوں، سکولوں میں بچوں کا استحصال ہوا ہے اور بہت سی لڑکیاں فیل کر دیے جانے کے خوف سے کسی استاد کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی استاد روحانی باپ ہوتا ہے تو یہ درندگی کیسی؟

دیکھا جائے تو کوئی بھی نارمل شخص ایک خاص حد تک تعلیم حاصل کر لے اور پھر کہیں پر استاد بھرتی ہو جائے، وہ کام جس کے بدلے وہ پیسہ بھی وصول کر رہا ہو تو اس عمل میں روحانیت کب نازل ہو گئی؟ اس سوال کا مقصد استاد کے مقام کو گرا دینا نہیں بلکہ اس پہلو کو اجاگر کرنا ہے کہ کہیں اسی ٹائٹل تلے جہاں ہم نے قابل اور اچھے اساتذہ کو رکھا ہے وہیں بہت سے درندے بھی پناہ لیے ہوئے ہیں اور یوں ہمارے بچے جو ”روحانی باپ“ کا درجہ ہر اس شخص کو دے دیتے ہیں جو استاد کی ملازمت پر بھرتی ہوا ہو اور پھر اچھے برے میں فرق نہ کر سکنے کی وجہ سے استحصال کے شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ مثال صرف کسی زیادتی تک نہیں بلکہ یہی حال زندگی کے باقی تمام پہلوؤں میں ہے کہ ہم دوسرے انسانوں سے سوپر نیچرل قسم کی توقعات لگا لیتے ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً اسے بھگتتے بھی ہیں مگر توقعات میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہم انسانی خودغرضی کا خود تو مظاہرہ کرتے رہتے جب ہم اپنی زندگی کا خود مرکز ہونے کے بعد یہ خواہش کرتے ہیں کہ دوسروں کی زندگی کا مرکز بھی ہم ہی ہوں اور ہماری ہر ضرورت اور خواہش ان کا فرض ہو۔

ایسے میں ہم دوسرے انسانوں کو انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق سمجھ رہے ہوتے ہیں جس کو ہم اپنے تابع کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں اور یہ بھول رہے ہوتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بھی خودغرضی ہے بالکل ویسے ہی جیسے ہماری فطرت میں۔ فطری خودغرضی کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جو جب ہماری وجوہات ہوں تو ہمیں بجا دکھتی ہیں اور سامنے والے کی مجبوریاں ہمیں فریب دکھتی ہیں۔ ہم خود انسان ہوتے ہوئے بھی دوسرے انسانوں کو extremes پر پرکھتے ہیں یا تو ایک مخصوص روحانیت کا ٹیگ لگا دیتے ہیں جس کے سائے تلے اچھے لوگوں کے ساتھ بھیڑیے بھی خوب پلتے رہیں اور ایسے انسانوں کو ہم سوپر نیچرل اسٹیٹس دے دیتے ہیں اور یوں اندر کے بھیڑیوں کو استحصال کا کھلا راستہ مل جاتا ہے۔

دوسری طرف ہم دوسرے انسانوں کو اپنے تابع کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور قطعاً ان کی ذات و حالات کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے سماجی تعلقات زہریلے ہوتے جاتے ہیں کہ ہم ان کو توازن کے ساتھ استوار نہیں کر پاتے۔ ہم انسان کو اپنی خوبیوں اور کوتاہیوں سمیت قبول نہیں کر پاتے۔ فرشتہ یا شیطان کے طور پر دیکھتے ہیں، انسان کے طور پر نہیں دیکھتے۔

ہمیں اپنی آئندہ نسل کو اگر سماجی زندگی میں کامیاب بنانا ہے تو انہیں توازن کے ساتھ سماجی تعلقات قائم کرنا سکھانے ہوں گے جن کے تحت وہ لوگوں کو اچھے سے پرکھ سکیں اور اچھے لوگوں اور رانگ نمبر کی پہچان کر سکیں۔ اس طرح سے اگر ہم لوگ انسان کو انسان سمجھ کر اپنے معاملات طے کریں گے تو ہماری توقعات کبھی بھی بہت بلند نہیں ہوں گی اور ہمارے منہ کے بل گرنے کے امکانات میں بھی خاصی کمی آئے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments