بھٹو – کھر پھڈا اور فیصل آباد


اسی سال کی عمر میں ریٹائرڈ فارغ اور کرونا کے بندھن کے باندھے گھر بیٹھے بندے کے لئے کمپیوٹر۔ آئی پیڈ موبائل فون انٹرنیٹ بہت سہارا ہیں۔ عمر عیار کی اس زنبیل میں ہاتھ نہیں ڈالنا پڑتا۔ انگلی گھمانے سب سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ اور آج میری انگلی نے آئی پیڈ کی سکرین پر فوٹو البم لا کھڑی کی تھی اور سید طاہر احمد شاہ کی تصویر آرام کرسی پہ نیم دراز میرے سامنے تھی۔ اور پینتالیس سال کی کاروباری رفاقت دوستی اور اور انتہائی مشکل دور میں ان کے احسان ایک فلم کی طرح سامنے تھے

بیٹی کو سکول سے گھر چھوڑ واپس آیا تو ریل بازار گمٹی سے کارخانہ بازار کو جاتی سرکلر روڈ کو پولیس نے بند کیا ہوا تھا۔ پولیس چوکی کے سامنے ہی اپنی دکان کا بتاتے بھی شنوائی نہ ہوئی۔ لاچار ریلوے روڈ پہ کار پارک کرتے پچھلی گلی سے سعید مارکیٹ کے اندر سے گزر باہر اپنی دکان پہ پہنچا تو سامنے میونسپل کمیٹی کے تہہ بازاری عملہ اور ٹرک اور ہتھوڑے اور توڑ پھوڑ کرنے کا سامان مع چند سرکاری افسر دکھنے والے افراد کے کھڑے تھے۔

پتہ چلا یہ بالکل سامنے میونسپل حدود میں ریل بازار پولیس چوکی کے باہر بنی دکانوں میں موجود سید طاہر احمد شاہ ممبر پنجاب اسمبلی کی دکان (ان کے بھائی جاوید کی تھی) ناجائز تعمیر قرار دے گرانے آئے ہیں۔ اور ابھی بند دکان کے تالے توڑنے کا پروگرام بن رہا تھا۔ کہ طاہر شاہ اور جاوید انڈر گراؤنڈ جا چکے تھے۔ ساری کہانی سمجھ آ گئی یہ انیس سو پچھتر کے آخری مہینوں کے وہ ایام تھے جب۔ غلام مصطفے کھر گورنری و وزیر اعلی کے عہدوں سے محروم اب قائد عوام کے مقابل کھڑے تھے۔

چند دن سے ان کے حامی و طرف دار گروپ کے خلاف تادیبی انتقامی کارروائیوں کی خبریں گرم تھیں۔ جس کی ابتدا سیالکوٹ سے منتخب رکن ملک سلیمان کی نئی مرسیڈیز کار اسمبلی کے باہر جلائے جانے سے ہو چکی تھی۔ اور اکثر بھٹو مخالف ارکان زیر زمین جا چکے تھے۔ اور اب فیصل آباد کے باغی گروپ کو مزا چکھایا جا رہا تھا۔ اور یہ دکان واقعی کوئی دو سال قبل اس طرح تعمیر کی گئی تھی کہ تہہ خانہ کئی فٹ تک سڑک کے نیچے تھا۔ اور جواز موجود تھا۔

ہمیں اس واسطے اس دکان سے لگاؤ تھا کہ سوا ڈیڑھ سال قبل میری دکان جلائے جانے کے بعد طاہر شاہ نے نئی بنی نئے رنگ و روغن اور فرنیچر سے مزین دکان کا یہ تہہ خانہ میرا جلا ہوا سامان رکھنے کے لئے خود پیش کر دیا تھا اور کئی ماہ میرے استعمال میں رہا تھا۔ اب یہ گرائی جا رہی تھی۔ اندر سارا فرنیچر اور خاصا سپیئر پارٹس موجود تھا۔ سب تماشائی تھے۔ ارد گرد سامنے کے دکانداروں کی ہمت نہ دیکھ میں اکیلا ہی مجسٹریٹ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا وہ تالے تڑوا رہے تھے۔

ادب سے عرض کی کہ میں کار سرکار میں قطعاً مداخلت نہیں کر رہا۔ مگر چونکہ طاہر جاوید روپوش ہیں دکان کے ساتھ سارا سامان اور فرنیچر بھی تباہ ہو جائے گا۔ آپ دو گھنٹہ کی مہلت دے دیں ہم سامان اور فرنیچر نکال جتنا ممکن ہو نکال لیں۔ کچھ رد و کد کے بعد وہ دو اڑھائی گھنٹے دینے پہ رضامند ہو گئے۔ میں نے تما م دکان داروں کو اپنے ملازم اور جو بھی خالی کارٹون ہو ں بھجوانے کا کہا۔ دو تین لڑکے سامان نکال کارٹون میں رکھتے جاتے، دو تین اٹھا کر میری دکان کے ملحق خاصی وسیع خالی جگہ والے لاہور نولکھا گڈز کے اڈہ پر رکھتے اور طاہر آٹو موبائلز کے بندوں کے ساتھ وہاں منتقل کرتے گئے۔

Afzal Ahsen Randhawa

میری دکان اور اس کا فرنیچر ایک ہی کاریگر کا بنا تھا لہذا مجھے اپنی نگرانی میں اسے کھلوا کر نکلوانے میں دقت نہ ہوئی۔ اس طرح دو گھنٹہ بعد ہم میجسٹریٹ اور عملہ کا مہلت دینے کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ دکان بہت مضبوط بنی تھی۔ اور ہتھیار دستی تھے۔ بس تھوڑی بہت چھت۔ تھوڑی بہت دیواریں توڑتے عملہ کی بس ہو گئی۔ کارروائی ڈالنے کے لئے مناسب زیادہ نقصان دکھانے والے زاویوں سے فوٹو لئے گئے۔ اور مشن مکمل ہو گیا۔ شاید چند ہی ہفتوں میں معاملات کچھ طے ہو گئے۔ اور چند ماہ بعد وہی ناجائز تعمیر والی دکان دوبارہ تعمیر کے بعد فعال ہو چکی تھی۔

سید طاہر احمد شاہ سے واقفیت اس وقت سے تھی جب وہ اپنے کزن کی دکان ہاشمی آٹو ٹریڈر پر کام سیکھ رہے تھے اور میں میٹرک کا طالبعلم ہوتے سکول سے واپسی پر سمندری روڈ پر اپنے چھوٹے سے کاروبار کے لئے موبل آئل وغیرہ خریدتا اور ہاشمی صاحب سے حوصلہ افزائی ملتی۔ کالج کے بعد اسی سڑک۔ سرکلر روڈ پر دکان بنائی تو طاہر شاہ اپنی دکان شروع کر چکے تھے۔ کچھ عرصہ بعد وہ میونسپل سیاست میں حصہ لینے لگے اور کونسلر بن گئے۔ پیپلز پارٹی بھٹو نے بنائی تو وہ فیصل آباد (اس وقت لائل پور) میں پارٹی کے بانی اور سرگرم ارکان میں سے تھے۔

انیس سو ستر کے الیکشن میں (ملک کے باقی بہت سے شہروں کی طرح) پیپلز پارٹی کے نامزد اکثر کارکن نظریاتی پر جوش مگر جیب سے بالکل خالی تھے۔ نامزدگی کاغذ داخل کرنے سے پہلی صبح طاہر شاہ نے مجھے بلوایا۔ دکان میں بہت لوگ موجود تھے پچھلے کمرے میں لے جا کہا کہ یار یہ سب ایم این اے اور ایم پی ایز کے کاغذات میں تیار کرا رہا ہوں۔ نہ ان کو کاغذ بھرنے آتے ہیں نہ کسی کے پاس سیکیورٹی بھرنے تک کے پیسے ہیں۔ پہلے بتایا نہیں۔

مجھے چپ کر کے انہیں پتہ لگے بغیر اتنی رقم بھجواؤ۔ تا کہ سیکیورٹی اور فارم جمع کرا دوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایم این اے مختار رانا۔ افضل رندھاوا۔ ایم پی اے ڈاکٹر (معمولی کیمسٹ اور پریکٹشنر ڈی گراؤنڈ فیصل آباد) حلیم رضا، شمیم احمد خاں اور ایک آدھ اور کی سیکیورٹی طاہر شاہ نے دی تھی۔ اور آج ان میں سے اکثر طاہر شاہ کے ساتھ زیر عتاب تھے۔

Mukhtar Rana

میری دکان جلائے جانے کے بعد طاہر شاہ نے بہت اخلاقی مدد کی۔ شدید بائیکاٹ کے باوجود دکان کی مرمت۔ شٹر لگوانے۔ فرنیچر بنوانے کے لئے کاریگروں کو حفاظت کا یقین دلاتے بجلی کا کنکشن بحال کرانے وغیرہ کے لئے اپنا اثر استعمال کیا تھا اور میں آج تک اس کے احسانوں کا ممنون ہوں۔ بعد میں گو پھر مجبوراً کچھ دیر پارٹی میں رہے مگر بے نظیر دور میں اکثر نظریاتی بانی ارکان کی طرح قدر نہ کی گئی نون لیگ میں شامل ہو کر ایم پی اے بنے وزیر رہے اور جب یکم نومبر انیس سو ستانوے کو ان کے چھوٹے بھائی جاوید کی وفات پر افسوس کے لئے بیٹھے تھے مجھے علیحدہ لے جا فرمایا۔ لئیق بہتر ہے ملک چھوڑ جاؤ، آئندہ برسوں میں تم لوگوں کے لئے یہاں رہنا بہتر نہیں۔ رفیق (میرے بڑے بھائی) کو بھی پیغام دے دینا۔ کھل کے نہیں بتا سکتا۔ عرض کیا کہ پہلے ہی فیصلہ کر چکا تھا مگر اب پکا ہو گیا۔ میں دس دن بعد ویسے ہی امریکہ میں دل کے بائی پاس اور کینیڈا وغیرہ کے لئے ٹکٹ لے چکا تھا۔

طاہر شاہ جا چکے مگر ان کی محبت شفقت اور دوستی اور احسان موجود ہیں۔ آج چوبیس سال گزرنے کے دوران اور بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت اور بنیاد پرستی کا بول بالا دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید ان دنوں تقسیم کرو، ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاؤ اور اپنا رانجھا راضی رکھو قسم کے کسی لائحہ عمل کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ جس کی بھنک اس مرحوم دوست کو تھی۔

اس واقعہ کے دوسرے تیسرے روز ایک رکشہ میری دکان پہ آ رکا۔ ڈرائیور نے آ کر رکشہ میں سوار خاتون سے بات کرنے کا کہا۔ ابھی پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ بولیں۔ لئیق بھائی۔ میں عائشہ ہوں۔ عائشہ رندھاوا۔ عائشہ افضل رندھاوا۔ یاد آیا۔

ایک لحظہ میں بہت کچھ یاد آ چکا تھا۔ انیس سو تریسٹھ میں کالج میں میرے گہرے دوست اکرم چوہدری ایم اے اکنامکس کے بعد زرعی یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے اقوام متحدہ کے ایک تحقیقاتی پروگرام میں ڈاکٹر حیدر صاحب کی سربراہی میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ شامل ہو چکے تھے۔ مضافاتی گاؤں منشی والا کے رہائشی اب ہمارے گھریلو ممبر جیسے تھے۔ جمعہ کے روز جب ہماری مارکیٹ بند ہوتی میں کبھی کبھی کبھار ملنے یونیورسٹی چلا جاتا۔

وہاں ان کے ساتھ شریک کار دو لڑکیوں میں سے ایک عائشہ تھیں۔ جنگ ستمبر سے کچھ قبل اکرم نے اپنے دفتری ساتھیوں کی دعوت کی خواہش ظاہر کرتے بتایا کہ گاؤں میں انتظام مشکل ہے۔ میں اپنا گھر خرید کر کچھ عرصہ قبل ہی منتقل ہوا تھا۔ سو اسی بہانے پورے ڈیپارٹمنٹ کو دعوت دے دی۔ رات دیر تک محفل جمی جس میں عائشہ جن کی آواز بہت اچھی تھی سے بہت سے گیت سنے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہی ایک کے بیگم فاروقی اور عائشہ کے عائشہ رندھاوا کے نام کی انگوٹھیاں پہن لینے کی اطلاع آ گئی۔

چھیاسٹھ کے آخر میں اکرم چوہدری کے ریڈیو پاکستان کوئٹہ (بعد میں ریڈیو پاکستان فیصل آباد کو بطور سٹیشن ڈایئریکٹر شروع کرتے۔ لاہور ہوتے ڈائریکٹر فنانس ریڈیو پاکستان۔ اسلام آباد سے ریٹائر ہوئے) میں ریسرچ افسر کے طور چلے جانے کے بعد پھر کبھی ملاقات نہ ہو سکی البتہ بیگم فاروقی کی چھوٹی بہن ہماری بھابھی بن چکی تھیں۔ نارووال سے تعلق رکھنے والے افضل رندھاوا بھی شادی کے بعد فیصل آباد کے رہائشی بن کر پیپلز پارٹی کے ابتدائی سرگرم کارکن ہوتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی بن چکے تھے۔

گو کبھی ان سے شناسائی یا بالمشافہ ملاقات کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی۔ اور آج عرصہ بعد عائشہ افضل رندھاوا رکشہ سوار میرے سامنے تھیں۔ بولیں لئیق بھائی میں بہت مشکل اور لاچاری کی حالت میں مدد مانگنے آئی ہوں۔ آپ کو علم تو ہوگا۔ بھٹو کھر دشمنی میں اس کے تمام حامیوں کی جان کے در پہ ہے پتہ نہیں کب کیا کر ڈالے۔ جہاں افضل چھپے ہیں۔ وہ مکمل محفوظ نہیں۔ مجھے فوراً اسی وقت بیس ہزار روپے کی ضرورت ہے تا کہ انہیں کسی محفوظ جگہ منتقل کیا جا سکے۔

میرے لئے کٹھن مرحلہ تھا۔ بڑی مشکل سے پتہ نہیں کس لہجہ میں انہیں یہی کہہ سکا۔ بہن یہ باہر دیکھو یہ عمارت ابھی دھوئیں سے سیاہ ہے۔ میری دکان انہی قائد عوام کی پشت پناہی یا بلوائیوں کی بیخ کنی سے دانستہ احتراز کی وجہ سے پولیس چوکی کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ایک چھوٹا سا ہجوم جلا گیا۔ انیس سال محنت کے بعد آج میں خود ابھی ایک بہت بھاری قرض تلے ہوں اور آئے روز قرض خواہوں کے تقاضے ہیں۔ خود مصیبت میں نہ ہوتا تو اسی وقت حاضر کر دیتا۔ میری آنکھوں کی نمی اور ان کی آنکھوں کا دکھ اپنی کہانی سمجھا چکے تھے۔ رکشہ جا چکا تھا۔ اور میں وہیں کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ اختلاف رائے پر انتقامی کارروائی کی بڑھتی رو اس ملک کو کدھر لے جائے گی۔

اسی روز شام میرا بہت بے تکلف نوجوان دکاندار گاہک اور دوست ارشد میری دکان پر موجود تھا۔ اب وہ میرا محسن بھی تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کے چک جھمرہ برنالہ علاقے سے ممبر قومی اسمبلی میاں احسان الحق کا بھتیجا تھا۔ جب 30 مئی چوہتر کو میری دکان جلادی گئی اور گھر اور جانوں کو بھی خطرہ تھا اس نے خصوصی طور پر بغیر میری درخواست کے اپنے چچا کو میرے گھر اور ارد گرد کے گھروں کے بچاؤ کا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی اور شام ڈھلے چوہڑ کانہ سنٹر سے آئی پولیس کے چھ جوان میرے گھر کے باہر متعین ہو چکے تھے۔

اگرچہ رحمانیہ مسجد سے کوئی اشتعال انگیزی نہ کی گئی تھی پھر بھی عشاء کی نماز کے بعد ایک جتھہ ”زیور بندے پا کے رکھو۔ سرخی پاؤڈر لا کے رکھو۔ اسی لین آونا ہے“۔ کی قسم کے نعرے لگاتا مگر اسلحہ تانے جوانوں (میاں احسان کی دور اندیشی کہ جوان ریزرو پولیس کے تھے لوکل پولیس کے نہیں) کی اطلاع پا کر جلد منتشر ہو گیا تھا۔ اور آنے والے دنوں میں ٹیلیفون کنکشن بحال کرانے اور دوسرے امور میں ان کی فون کالیں ممد رہیں۔

گو خود ان سے صرف چند مرتبہ فون پر ہی بات ہو پائی تھی۔ ارشد چائے پیتے کرسی کھسکا میرے پاس لے آیا۔ اور بولا۔ چاچا جی۔ اب چاچا جی پہ مشکل وقت ہے۔ بھٹو کی پوری انتظامی مشینری کتوں کی طرح ان کی بو سونگھ رہی ہے۔ کہ کسی طرح ہاتھ آ جائیں تو بتائیں کہ بھٹو کی مخالفت کے کیا مزے ہیں۔ اب چونکہ ان کے معمول کے تعلقات کے تمام ٹھکانے معلوم کرنا مشکل نہیں۔ لیکن آپ سے کبھی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ پر کوئی شک نہ کرے گا۔

اگر کبھی۔ اگر کبھی۔ ہمیں ضرورت محسوس ہو تو کیا ممکن ہے کہ وہ چند روز آپ کے پاس قیام کر لیں۔ عرض کیا عزیزم اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہوگی کہ ایک بڑے بھائی اور وہ بھی محسن کی میزبانی کا شرف حاصل ہو۔ ویسے بھی میرا گھر زیادہ محفوظ اس لئے ہے کہ حالات کے مطابق آج کل گھر داری انتہائی کنجوسی پہ چلنے کی وجہ سے نہ ہم کسی کے ہاں جاتے ہیں۔ نہ ہی دعوت دیتے یا حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جب چاہیں جہاں سے کہیں میں خود لے آؤں گا۔

ارشد مطمئن چلا گیا۔ مگر بفضل خدا وہ محفوظ رہے۔ شاید جلد ہی کوئی مک مکا ہو گیا اور ہم اس میزبانی کے شرف سے محروم رہے۔ بعد میں احسان سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی رہی۔ وہ پیپلز پارٹی میں ہی رہے مگر شاید پرجوش نہ تھے۔ لیکن نوے کی دہائی میں جب میں جنرل بس سٹینڈ کے سامنے اپنا کاروبار منتقل کر چکا تھا۔ اور وہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے کچھ عرصہ منسلک رہے تو تقریباً روزانہ ہی چائے کا کپ اور گپ شپ چلتے۔ اور بھٹو دور کی کئی دیکھی کہانیاں کبھی کبھی موڈ میں ہوتے۔ سناتے۔ جنہیں دہرانے کی بجائے بھول جانا اچھا۔

فیصل آباد سے چند دیگر رہنما بھی اس مخالف گروپ میں شامل تھے۔ جن میں سب سے زیادہ سرگرم مختار رانا تھے۔ باقی کا نام یاد سے محو ہو گیا پاکستان بھر میں یہی کچھ ہوتا رہا تھا۔ اس دور کے اکثر انتقامی کارنامے اشارے کنائے میں اخباروں میں شائع ہوتے رہے مگر آج انٹر نیٹ پہ موجود خزانوں میں شاید ہی کچھ تفصیل ملے۔ پاکستان کی مکمل تاریخ کا مثلہ کیا  جا چکا اور حقائق خرافات میں کھو چکے۔ بہت سے جلد کھر اور رامے کے امریکہ چلے جانے کے بعد معافی تلافی کراتے طوعاً و کرہاً بھٹو کے گن گانے لگے۔

کئی کسی اور ملک بھاگ گئے۔ مگر مختار رانا اور کراچی وغیرہ کے چند سوشلسٹ دماغ کارکنوں کا دماغ پھرا رہا اور وہ اس دور کے ساتھ ہی شروع ہوجانے والی دعوت ہائے شیراز (شاید پہلی سوزوکی کاروں کی تقسیم تھی) سے محروم تقریباً خالی ہاتھ ہی رہے کہ وہ سوشلزم سے اسلامی سوشل ازم اور روٹی کپڑا مکان کے نعروں پر عمل کرانے آئے تھے۔ مگر ادھر آگے زرداریوں، گیلانیوں اور مخدوموں کی بے نظیر راہیں ان کے نظریہ کو بدل نہ پائی تھیں۔

اگر کسی قاری دوست کو ان دھتکارے نظریاتی لوگوں کے نام یاد ہوں تو کمنٹ میں لکھ کر مشکور فرمائیں۔

بیس برس قبل ملک چھوڑ آنے سے قبل ہی بلکہ پچھلے چالیس پینتالیس سال پاکستان کی ساکھ کی ابتدا سے آج کی انتہا میں انتقام و نوازشات کی سیاست بھی میری نظر میں ایک کردار کی حامل ضرور رہی۔ اور بھٹو کھر پھڈا (بعد میں رامے بھی تھوڑا بہت) اس کی ایک ابتدائی جھلک تھی۔

ہاں سوچتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کا ممبر قومی اسمبلی ہی تھا مختار رانا۔ جو تہی دست مرا۔ اور افضل رندھاوا جس کے پاس بیس ہزار کا اندوختہ نہ تھا۔ اور آج کا ممبر ایک ووٹ کے لئے پانچ سات کروڑ کما جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments