گمنام گاؤں کا آخری مزار


روف کلاسرا صاحب اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ”اس کتاب میں شامل سب عام کہانیاں ہیں۔ اگر آپ بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ کتاب آپ کے کام کی نہیں۔ میں نے اس کتاب میں عام انسانوں کے دکھوں اور غموں کی آواز بننے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے سب کردار عام لوگ ہیں۔ وہ عام لوگ ہی میرے ہیروز ہیں۔ وہی میرے رول ماڈل ہیں۔“

ہمارے ہاں عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اکثر ایسی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں جن میں امیر بننے کے راز ہوں، یا کامیابی کے گر بتائے گئے ہوں یا پھر وہ کتاب دنیا کی کسی بڑی اثرانداز ہونے والی شخصیت کی زندگی پر مبنی ہو۔ لیکن روف کلاسرا صاحب کی یہ کتاب ان سب سے بالکل منفرد اور الگ ہے کیونکہ اس میں عام پاکستانی یا لوئر مڈل کلاس جو کہ ہمارے ملک کی غالب آبادی پر مشتمل ہے ان کے دکھ، درد اور مشکلات کے بارے میں ذکر شامل ہے۔

آپ کے ذہن میں کبھی یہ سوال ضرور آیا ہوگا یا پھر کسی نے آپ سے دریافت کیا ہوگا کہ کیا خوشی کا تعلق پیسوں سے ہے؟ اس کا جواب شاید ہر کوئی نہ دے سکے کیونکہ ہر ایک انسان ہر ایک گھر، ہر ایک معاشرہ کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے خوشی یہ ہوگی کہ دو وقت کی روٹی مل جائے جبکہ دوسری جانب کہیں خوشی کا معیار کچھ اور ہوگا یعنی ترجیحات الگ الگ ہو سکتی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ٹی وی پر کسی کلپ میں آپ کسی دیہات میں موجود لوگوں کی زندگی کی مشکلات کے بارے میں سنیں تو آپ اس کو اسی طرح محسوس کریں جس طرح وہ لوگ خود اس تکلیف کی کیفیت سے گزرے ہوتے ہیں

اس کتاب میں موجود ہرسچی کہانی پڑھنے کے بعد آپ چند لمحات کے لئے کتاب کو ایک طرف رکھ کر اس کہانی کے کرداروں کے بارے میں سوچ کر پریشان ضرور ہوں گے اور ان کے درد کو آپ ضرور محسوس کریں گے اور پھر خود سے سوال کریں گے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے طبقہ کی ترجمان ہے اگرچہ اس میں کسی وزیراعظم یا صدر جیسے بڑے لوگوں کی کہانی نہیں مگر یہ کتاب ہر بڑے آدمی کو ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ ان کو دکھوں کا ادراک ہو سکے۔

مجھے کلاسرا صاحب کی یہ دوسری کتاب پڑھنے کا اتفاق ہو رہا ہے اس سے پہلے ان کا ترجمہ شدہ ناول ’تاریک راہوں کے مسافر ”پر بھی اظہار خیال کر چکا ہوں۔

مجھے خوشی ہے کہ یہ کتاب پڑھنے کا تجربہ ہوا، میں سوچ رہا ہوں اگر یہ کتاب نہیں پڑھتا تو شاید ایک بہت بڑی ذمہ داری یعنی احساس کے بارے میں جاننے سے محروم رہ جاتا۔ انسانوں کی بنیادی خاصیت ہی رحم دلی اور احساس ہے، یہی انسانی معاشرے کی خوب صورتی ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر ہمیں اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں یہ کتاب کسی بھی عہدے پر فائز انسان کو ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ ایک عام آدمی کی زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا ہو سکے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری کو اس معاشرے میں موجود غیر مراعات یافتہ طبقے کی مشکلات اور اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور میرے نزدیک کسی لکھاری اور اس کی تحریر کا یہ بہترین انداز ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments