کورونا کی تیسری لہر، لاک ڈاؤن اور مہنگائی



دو رائے ہیں، ایک کہتی ہے کہ ملک بھر میں کورونا کی شدید ترین لہر کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن کر دیا جائے، دوسری رائے یہ ہے کہ بھلے کورونا کی یہ لہر شدید ترین ہے، اگر لاک ڈاؤن کریں گے، تو ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ بے روزگار ہو جائے، ہم مہنگائی کے اس دور میں اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے۔  یہ دونوں آراء ٹھیک ہیں۔

اب آتے ہیں زمینی حقائق پر، جو کہ تشویش ناک حد تک خراب ہیں، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، ہسپتالوں میں کورونا وارڈ بھر جانے کے بعد دھڑا دھڑ دوسرے وارڈز کو خالی کروا کر مریض وہاں ایڈجسٹ کروائے جا رہے ہیں، پرائیویٹ ہسپتال کورونا کے علاج کے منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں ، اس کے باوجود بھی ان کے ہاں بھی مزید مریضوں کے علاج کے لیے مزید بیڈز میسر نہیں۔ ان حالات میں اگر لاک ڈاؤن اگر نہ لگایا گیا تو عید کی آمد پر، جیسے عوام نے شاپنگ کے لیے ٹوٹنا ہے، تو کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہی ہونا ہے (جیسا کہ پچھلے سال عید پر ہوا تھا) ۔

اب اگر لاک ڈاؤن حکومت لگاتی ہے، تو دیہاڑی دار طبقے نے متاثر تو ہونا ہے ہی، ساتھ مڈل کلاس کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا (جس کا عملی مظاہرہ ہم پچھلے لاک ڈاؤن میں دیکھ چکے)

تو حکومت لاک ڈاؤن لگانے سے رہی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میرے اپنے گاؤں کے کافی لوگ اس وبا کا شکار ہو رہے اور روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، شہروں میں اس کی شرع ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ لوگ ڈر یا ضد کی وجہ سے علامات آنے کے باوجود بھی ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔ جس کی وجہ سے نئے کیسیز کم رپورٹ ہو رہے۔ ہاں اگر ٹیسٹنگ کا عمل تیز کر دیا جائے تو ان کیسز میں غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

اب مشکل یہ ہے کہ لاک ڈاؤن لگاتے ہیں تو پھر بھی مرتے ہیں، لاک ڈاؤن نہ لگنے کی وجہ سے لوگ مر تو پہلے ہی رہے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عوام پھر بھی اس وبا کو سیریس لینے کو تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن لگانا یا نہ لگانا تو دور کی بات، اس حکومت میں قوت فیصلہ کا سخت فقدان ہے، جو کہ صورتحال کو مزید سنگین تر کر رہا ہے۔

اس معاملے کا حل تھا کہ ہم مہذب شہری ہونے کا حق ادا کرتے، ایس او پیز پر عمل کرتے، کم از کم ماسک ہی لگا لیتے، تو ثابت ہوا کہ ہم مہذب شہری نہیں ہیں، ہم قوم تو ہرگز نہیں،  اب تو کوئی معجزہ ہی ہمیں اس آفت سے بچا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس معجزے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments