پی ڈی ایم کا نیا سیاسی چیلنج


حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم داخلی انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ اس وقت بڑا چیلنج پی ڈی ایم کو سیاسی طو رپر زندہ رکھنا اور اپنے داخلی معاملات میں موجود سیاسی انتشار کو کم کر کے اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ نون میں بداعتمادی کے سائے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں جماعتیں جو جمہوریت، سول بالادستی اور موجودہ حکومت کے خلاف حتمی جنگ کے لیے سیاسی میدان میں موجود تھیں، لیکن اب یہ ہی دونوں جماعتیں حکومت کے مقابلے میں خود ایک دوسرے کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑی ہیں۔ یہ صورتحال یقینی طور پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں اور اس کا براہ راست فائدہ حکومت اور اس کا بڑا نقصان حزب اختلاف کی سیاست کو ہو رہا ہے۔

ماضی میں یہ دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ نون میں کئی حوالوں سے سرد جنگ رہی ہے۔ لیکن عمران خان کی سیاست میں غلبہ پر ان دونوں سیاسی جماعتوں میں سیاسی رومانس بھی دیکھنے کو ملا۔ بظاہر یہ ہی تاثر دیا گیا کہ دونوں جماعتیں جمہوریت، قانون کی بالادستی، فوجی سیاسی مداخلتوں اور بیانیہ کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ پی ڈی ایم میں عملی طور پر بڑا کردار یا اس اتحاد کی آنکھ کا سیاسی تارہ بھی یہ ہی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں تھیں۔

لیکن یہ بات تواتر سے مجھ سمیت بہت سے لوگ لکھتے رہے ہیں کہ اس اتحاد کا بڑا سیاسی نکتہ عمران خان دشمنی پر مبنی ہے۔ جیسے ہی جس جماعت کو بھی کوئی سیاسی موقع ملا تووہ اتحاد کے مقابلے میں اپنے جماعتی یا ذاتی مفادکو ترجیح دے کر کچھ لواو رکچھ دو کی بنیاد پر اپنے معاملات طے کر کے اتحاد کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔

پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ نون زیادہ دکھی ہے او راسے محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے سیاسی چال کھیل کر ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کے لب ولہجہ میں زیادہ تلخی اور بدگمانی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ احسن اقبال نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر پیپلز پارٹی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اسٹیبلیشمنٹ کے اشارے پر سینٹ چیرمین کے انتخاب میں سات ووٹ ضائع کر کے صادق سنجرانی کی جیت میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اب مسلم لیگ نے کھل کر پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ ا س پر جوابی وارکرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے بھی دھمکی دی ہے کہ ایسی صورت میں ہم بھی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پر مسلم لیگ نون کے بعد جے یو آئی بھی سخت نالاں نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم کی یہ دونوں جماعتیں مسلم لیگ نون او رجے یو آئی پیپلز پارٹی پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کی بی ٹیم کا حصہ بن گئی ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو اس وقت نواز شریف اور مریم نواز کے زیادہ قریب پائے جاتے ہیں کا بڑا چیلنج پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں موجودگی کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا ہے۔ کیونکہ اس وقت پی ڈی ایم کے پاس دو ہی سیاسی حکمت عملیاں ہیں۔ اول وہ تمام تر سیاسی بگاڑ کے باوجود پیپلز پارٹی کو ساتھ لے کر چلے۔ ایسی صورت میں پی ڈی ایم کو یقینی طور پر پیپلز پارٹی کے مفاہمتی ایجنڈے پر سیاسی سطح پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

دوئم پی ڈی کی جماعتیں پیپلز پارٹی کو مائنس کر کے پی ڈی ایم کے اتحاد کو برقرار رکھے او رحکومت مخالف تحریک میں آگے بڑھے۔ لیکن پیپلز پارٹی کو باہر نکال کر پی ڈی ایم خود کو کتنا مضبوط رکھ سکے گا یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایسی صورت میں یقینی طور پر حزب اختلاف تقسیم ہوگی او رہمیں دو حزب اختلاف کا سامنا ہوگا۔ دونوں خود کو حقیقی اور دوسرے کو اسٹیبلیشمنٹ کی بی ٹیم کا سیاسی طعنہ دے کر اپنی تقسیم کو اور زیادہ متنازعہ بنائے گی۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ نون نے سیاسی عندیہ دیا ہے کہ وہ عید کے بعد لانگ مارچ کریں گے اور اگر ان کو یہ لانگ مارچ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی کرنا پڑے تو گریز نہیں کیا جائے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا لانگ مارچ ممکن ہے جو حکومت کے خاتمہ کا سبب بن سکے اور اس وقت تک لانگ مارچ جاری رہے جب تک حکومت گھر نہیں جاتی۔ مسئلہ محض پیپلز پارٹی کا نہیں بلکہ خود مسلم لیگ نون کے اندر بھی جو عملاً شہباز شریف گروپ ہے وہ بھی مزاحمت کے مقابلے میں مفاہمت کے سیاسی کارڈ کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے وہ بھی لانگ مارچ کی بنیاد پر ٹکراو کی سیاست کا حامی نہیں۔

یہ مفاہمتی گروپ لانگ مارچ کا حامی ہے لیکن ایک دن سے زیادہ نہیں او راس کی بنیاد حکومت کی ناکامی او رمہنگائی کی بنیاد ہونی چاہیے۔ اگر اگلے کچھ عرصہ میں ہمیں مسلم لیگ نون کی سیاست میں مریم نواز کے مقابلے میں شہباز شریف یا حمز ہ شہباز سرگرم نظر آتے ہیں تو پھر مولانا فضل الرحمن میں بھی مایوسی پیدا ہوگی۔ کیونکہ وہ جو ایک بڑی سیاسی مہم جوئی کا ایجنڈا رکھتے ہیں اس پر یقینی طور پر شہباز شریف یا حمزہ شہباز حمایت نہیں کریں گے۔ استعفوں کے معاملے میں بھی اختلاف محض پیپلز پارٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ عملی طو رپر مسلم لیگ نون میں بھی اس پر سیاسی تقسیم موجود ہے۔

پی ڈی ایم نے ابتدائی طور پر جو سیاسی اٹھان اٹھائی تھی ا ور جس انداز سے اس اتحاد کو لے کر آگے بڑھے تو ابتدائی طور پر یقیناً حکومت کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج بنے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا پی ڈی ایم طاقت ور بننے کی بجائے اپنے داخلی مسائل او رمختلف جماعتوں کے اپنے ایجنڈوں کی بنیاد پر اسے کمزوری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حالیہ پی ڈی ایم وہ پی ڈی ایم نہیں جو چند ماہ پہلے کی تھی او رنہ ہی اب یہ حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔

دراصل پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ نون دونوں نے اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے پی ڈ ی ایم کو بطور سیاسی ہتھیار کے طو رپر استعما ل کیا۔ پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی او رمسلم لیگ نون کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کیونکر مسلم لیگ نون یا جے یو آئی کے ایجنڈے پر دیوار سے ٹکرمارے او ربلاوجہ اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو کاماحو ل پیدا کرے۔ اس لیے عملی سیاست میں یقینی طور پر پیپلز پارٹی نے وہی راستہ اختیار کیا جو اس کے جماعتی مفاد میں تھا۔

پی ڈی ایم کو اب اگر مولانا فضل الرحمن یا مریم نواز نے چلانا ہے او رمزاحمت کا رنگ بھی دکھانا ہے تو یہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا اور اس کے لیے بھی پہلے ان کو اپنے داخلی محاذپر موجود چیلنج سے ہی نمٹنا ہوگا۔ کیونکہ خارجی محاذ پر جنگ داخلی محاذ کے مسائل سے نمٹ کر ہی موثر انداز میں لڑی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ نون کے بیانیہ میں شہباز شریف او رحمزہ شہباز بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ کیونکہ ان کی اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف خاموشی سے خود پی ڈی ایم او رنواز شریف یا مریم نواز کے سیاسی بیانیہ کو ہی نقصان کا سامنا ہے۔

یہ جنگ محض جذباتی نعروں یا سیاسی بڑھکوں کی بنیاد پر نہیں جیتی جا سکتی۔ یہ ایک جمہوری جنگ ہے تو اس کے لیے حکمت عملی میں جمہوری طور طریقے او رہر سطح پر مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ نواز شریف کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ باہر سے بیٹھ کر جنگ لڑنا ممکن نہیں او ران کی عدم موجودگی او راب عملاً پیپلز پارٹی کی مزاحمتی تحریک میں عدم دلچسپی کے بعد یہ تحریک کوئی بڑی تحریک کا منظر پیش نہیں کرسکے گی۔ اب دیکھنا ہوگا کہ نواز شریف، مریم نواز او رمولانا فضل الرحمن ایسا کیا جادو دکھاتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کے مردہ جسم میں نئی سیاسی جان ڈال سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments