بلدیاتی انتخابات: تاخیر کا شکار کیوں؟


چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے لئے یکساں قانون سازی مکمل نہ ہونے کے باعث بروقت بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوپاتے۔ بلدیاتی انتخابات کرانا آئین کا منشا ہے کیونکہ ملک میں آمریت نہیں جمہوریت ہے، لہذا صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے لئے مزید تاخیر سے گریز کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن اپنے ایک بیان میں کہہ چکا تھا کہ منتخب بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہو نے کے بعد ، قانون کے مطابق 120 روز میں الیکشن کرانے ہیں، کیونکہ بلدیاتی انتخابات، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے کہیں زیادہ بڑے ہیں، لیکن مدت ختم ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات بروقت نہیں کرائے جاتے۔

کرونا وبا کوکبھی ایک سبب قرار دیا گیا تو دوسری جانب قانون سازی کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی گرین سگنل نہیں ملا۔ سندھ و بلوچستان حکومتوں کی جانب سے 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات کے باعث حلقہ بندیوں پر اتفاق پیدا نہیں ہورہا، مردم شماری پر شہری حلقوں، خاص طور پر کراچی کی آبادی کم ظاہر کیے جانے پر بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سندھ و بلوچستان کی حد تک معاملات مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیاں کے باعث تاخیر کا شکار ہیں، صوبہ خیبر پختونخوا، بلدیاتی انتخابات کرانے کا عندیہ دے رہی ہے لیکن کرونا وبا کی تیسری لہر نے تمام صوبوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں بلدیاتی اداروں کی مدت 27 اگست 2019، سندھ میں 30 اگست 2020 کو ختم ہوئی تھی، جب کہ پنجاب میں بلدیاتی محکموں کو تحلیل کر دیا گیا جس کے بعد یکم جنوری 2020 کو مدت ختم ہوئی۔

پنجاب تین مرحلوں میں انتخاب کرانے کے لئے شش و پنج کا شکار ہے، تو تحریک انصاف پنجاب کے بلدیاتی نظام کو بھی تبدیل کرنے کی خواہاں ہے، نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے لئے مقامی حکومتوں کا قیام عمل ناگزیر ہے، ماضی میں بھی ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کو تاخیری حربے استعمال کر کے بروقت الیکشن نہیں کرائے جاسکے اور کسی نہ کسی جواز کے تحت بلدیاتی الیکشن تاخیر کا شکار ہوتے رہے۔ ، بلدیاتی روڈ میپ کا تعین صوبائی، قومی اور سینیٹ انتخابات کی طرح طے شدہ ہونا چاہیے، کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اگر کسی صوبے میں اکثریتی جماعت کی حکومت بھی ہو، تو وہ بھی بلدیاتی انتخابات کرانے میں پس و پش سے کام لیتی ہے، لیکن اختیارات بالخصوص مالیاتی طور پر خود مختار نہ ہونے کے سبب نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل ہونے میں دقتوں کا سامنا رہتا ہے۔

جمہوریت میں بلدیات ایک اہم نظام ہے، مسائل گھر کی دہلیز پر حل کرنے کے اقدامات اٹھانے کا دعویٰ قریبا ہر حکومت کرتی آئی ہے، لیکن بلدیاتی انتخابات کو جتنا زیادہ موخر رکھا جاتا ہے اس سے بلدیاتی انفراسٹرکچر کو اتنا ہی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد بہت مشکل اور عملی طور پر دشواریاں بھی درپیش ہوتی ہیں لیکن لوکل گورنمنٹ کے قانون میں صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اس قدر کمزور بنا دیتی ہیں کہ عوام کے کلیدی مسائل حل کرانے میں بلدیاتی نمائندوں کے کس بل نکل جاتے ہیں، عوام کے درمیان رہنے کی وجہ سے بلدیاتی نمائندے اپنے علاقے کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، اس لئے انہیں مسائل کے حل کے لئے فنڈز کی ضرورت رہتی ہے، لیکن دیکھنے میں یہی آیا کہ صوبائی حکومتیں اپنے منتخب نمائندوں کو نوازنے کے لئے ایسے اقدامات بھی کرتی ہیں جس سے دیگر علاقے سیاسی مخالفت کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ قومی انتخابات میں ووٹرز کا رجحان حاصل کرنے کے لئے بلدیاتی نظام، تمام سیاسی جماعتوں کی بیک وقت طاقت و کمزوری بھی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی حکومتوں کا معاملہ بگاڑنے کے بجائے انہیں یکساں بنانے کی جانب پیش رفت کو عملی جامہ پہنایا جائے، بلدیاتی انتخابات کے عدم انعقاد کی بنیادی وجہ جاگیردارنہ اور وڈیرانہ طرز سیاست و فیوڈل ذہنیت کا مزاحمت کرنا ہے، جس کی وجہ سے مقامی حکومتوں کی بحالی میں رکاؤٹیں ڈالے جانا روایت سی بن گئی ہے، درحقیقت مین سٹریم سیاست کا کافی بوجھ مقامی حکومتوں کے شانوں پر آ جاتا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران و سینیٹرز کو قانون سازی کے لئے بہت سا وقت بھی مل سکتا ہے، مگر حیرت و افسوس کا مقام ہے کہ بلدیاتی الیکشن کرانے کا کریڈٹ ہمیشہ آمروں کو ہی ملا، کیونکہ انہیں عوامی ردعمل سے بچاؤ کا راستہ بلدیاتی نظام ہی نظر آیا، اگر سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کو درست طریقے سے اپنا لیں تو انہیں قومی دھارے میں درپیش مسائل سے نبرد الزما ہونے سے بہتر حکمت عملی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاحال بلدیاتی انتخابات کے لئے صوبائی حکومتوں کے تمام تر بلند بانگ دعوؤں کے باوجود عمل اقدامات کا نہ ہونا بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔

ماضی میں بھی صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کی قانون سازی کے عمل میں تاخیر کی، الیکشن کمیشن کو چاروں صوبوں میں انتخابات کی تیاریاں کرنے میں کم ازکم تین ماہ درکار ہوتے ہیں، علاوہ ازیں کنٹونمنٹ میں بھی قانون سازی کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لئے 60 روز درکار ہوتے ہیں۔ عوام تاحال صوبائی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کرانے کے کسی حتمی لائحہ عمل سے آگاہ نہیں۔ گو کہ موجودہ سیاسی حالات کسی دوسری نہج پر جا رہے ہیں، مملکت میں صدارتی نظام کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ پارلیمانی نظام کو ناکام ثابت کرنے کے لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صدارتی نظام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، غالب امکان یہی ہے کہ وفاقی حکومت و صوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام کو ریلیف نہ ملنے و روز بہ روز بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ بلدیاتی مسائل گمبھیر مسئلہ بنتے جا رہے ہیں، عوام کو جواب دہ نہ ہونے والے بیورو کریٹس کی وجہ سے کئی علاقے کئی دہائیوں سے مسلسل نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں، ساری صورتحال صوبائی حکومتوں سے اس امر کا سنجیدہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ بلدیاتی الیکشن نے جلد انعقاد کو یقینی بنائیں، یہ گراس روٹ سیاست کی بنیادی اینٹ ہے، عوام کو جن روزمرہ مسائل کا سامنا ہے وہ بلدیاتی ہی ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی حتمی تاریخ متعین و تحفظات کو جلد از جلد دور کیا جائے، روڈ میپ تیار ہو تاکہ تمام صوبے آئین کی بالادستی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments