میری کورونا کہانی- میں موت کے منہ سے کیسے واپس آئی


مجھے آج بھی یاد ہے پچھلے برس مارچ میں جب کورونا کی وبا نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا۔ خوف کاوہ عالم طاری ہوا کہ لگتا تھا ہر شے کے ساتھ وائرس چپکا ہوا ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اس وائرس کے بارے میں سائنسی تحقیق اپنی ابتدائی مراحل میں تھی اور کچھ واضح حکمت عملی موجود نہیں تھی۔ محض مفروضات کی بنیاد پر احتیاط اور علاج کے عمل دہرائے جانے لگے۔

لگتا تھا ہر شاپنگ بیگ کے ساتھ، ہر نوٹ کے ساتھ کورونا وائرس چپکا ہوا ہے اور ہر شخص جس کو غلطی سے بھی ہاتھ چھو گیا کورونا منتقل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

ہم جو لوگ اپنی مہمان نوازی، گرم جوش محبتوں، گلے ملنے اور دیر تک ہاتھ تھامنے کی عادی تھے، ڈرنے ہمیں اکیلا اور اپنے گھروں میں مقید کر دیا اور گرم جوش جذبوں نے سوشل ڈسٹینس جیسے عمل سیکھنے شروع کیے۔

مارچ کے اوائل میں ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ جسم درد سے ٹوٹ رہا ہے اور ہلکا بخار ہے۔ کورونا کا خوف ایسا کہ ہر علامت پر لگتا تھا کہ بس کورونا زدہ ہوچکے۔ میں نے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کیا مگر میرے ڈاکٹر نے مجھے پابند کیا کہ میں اس وقت تک ہسپتال نہ جاؤں اور نہ ہی ٹیسٹ کراؤں جب تک وہ مجھے نہ کہیں اور احتیاطاً مجھے سیلف کورنٹین کرنے کا کہا۔ میں نے دوست اقارب میں ہرطرف کہا کہ مجھے لگتا ہے مجھے کورونا ہو چکا، دوست احباب کے احساس بھرے پیغامات ملے، مگر جس بات پر میں پابند رہی۔ وہ ڈاکٹر کی نصیحت کہ جب تک میں نہ کہوں ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔

یہ کرتے کرتے میرے ڈاکٹر نے 14 دن گزار لیے اور میں سیلف کورنٹین کرنے کے بعد یہ مان کر میں نے تو کورونا بھگت لیا، دوست احباب کو بتایا کہ میں تو بچ گئی اور زندگی پھر سے رواں دواں ہو گئی۔ مگر اپنی ہیئت سے کہیں ہٹ کر، خاموش، مقید، تنہا، احتیاط پسندی، لاک ڈاؤن، ماسک، سینی ٹائزر، دستانے یہ سب زندگی کا حصہ بن گئے۔

مگر پھر ایک دن دسمبر 2020 کو مجھے اپنی جامعہ میں بیٹھے کافی پیتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ مجھے آج کافی کی مہک اور ذائقہ محسوس نہیں ہو رہا، سوچا وہم ہوگا۔ گھر آ کر معمول کے امور سر انجام دیے۔ رات کے کھانے پر پھر لگا کہ ذائقہ محسوس نہیں ہو رہا، وہم بڑھا، اٹھ کر اپنا پرفیوم لگایا مگر خوشبو محسوس نہ ہوئی۔

ایک دم اپنا فون اٹھایا اور ڈاکٹر کو ملایا کہ خوشبو اور ذائقہ محسوس نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر نے فوراً اًس بار کہا کہ ٹیسٹ کرانے کا وقت ہو گیا۔ کل فوری طور پر ٹیسٹ کراؤ اور ابھی سیلف کورنٹین کرو۔ میں نے احتجاجاً کہا مگر ڈاکٹر جو مارچ میں ہو چکا۔ ڈاکٹر بولا وہ کورونا نہیں تھا۔ کل ہسپتال آئیں تو بات ہوگی۔

وہ رات جیسے تیسے گزری اور اگلے دن میں نے ہسپتال لیبارٹری میں ٹیسٹ دیا اور ٹیسٹ کے دوران آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرتے آنسو۔ لیب والے نے پوچھا کیا سیمپل لینے کا عمل تکلیف دہ تھا۔ میں نے کہا نہیں بس دل اس بار بہت ڈر چکا تھا۔ 24 گھنٹوں میں رپورٹ آئی اور اس پر لکھا تھا ”detected“ ۔

ڈاکٹر ٹھیک تھا میں کلینکلی کورونا مثبت ہوئی۔

مجھے یاد ہے اپنی رپورٹ پکڑ کر میں ڈاکٹر کے کمرے کے باہر کھڑی تھی کہ اندر کیسے جاؤں، ڈاکٹر کی آواز آئی تشریف لائیں۔

مگر ڈاکٹر میں تو کورونا پوزیٹو ہوں۔

جی میں جانتا ہوں اندر تشریف لائیں اور مجھے یاد ہے میں کرسی پر نہیں بیٹھی تھی۔ ڈاکٹر نے فوری ایکسرے کرنے کا لکھا۔ اگلے مرحلے میں ایکسرے کیا گیا۔ کچھ دیر میں وہ رپورٹ بھی آ گئی۔ میں نے ڈاکٹر کا چہرہ دیکھا، تشویش زدہ تھا۔ اس نے رپورٹ کو روشن بورڈ پر لگایا تو میں نے دیکھا میرے سینے پر جیسے گہرا سایہ سا پھیل چکا تھا۔ مجھے ایکسرے میں اپنے سینے کی ہڈیاں نظر نہیں آئیں۔

ڈاکٹر اب کیا کرنا ہے۔
دیکھیں فرح کورونا کی تو کوئی دوا نہیں وہی اینٹی بائیوٹک جو ہم سب کو لکھ رہے ہیں وہی آپ کو کھانی ہے۔
پھر آکسی میٹر تجویز ہوا کہ سانس کی رفتار پر نظر رکھنی ہے۔

مجھے یاد ہے اب کی بار کا سیلف کورنٹین کس قدر اعصاب شکن تھا۔ اب تو کلینکل طور پر ثابت ہو چکا تھا کہ میں کورونا کی مریض ہوں۔ تنہائی میرے انتظار میں تھی۔ میرے بچے مجھے بہت دور سے دیکھتے تھے کہ ڈاکٹر نے فیملی کو اس کمرے میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ میری چھوٹی بیٹی سوال کرتی تھی۔ مما! اب اور کتنے گھنٹے باقی ہیں آپ کو مصافحہ کرنے کے لیے اور میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک ملازمہ مجھ پر متعین کی گئی کہ اس کا کام مجھے وقت پر کھانا دینا تھا میرے لئے ڈسپوزیبل برتن لائے گئے اور کھانا کمرے سے باہر رکھی میز پر دھر دیا جاتا تھا جسے لے کر برتن ضائع کرنا ہوتے تھے۔

اب کی بار جب میں کلینکلی کورونا مثبت ہوئی تھی میں نے کسی دوست احباب سے شیئر نہیں کیا تھا۔ بلکہ قید تنہائی میں ہر طرح کا سوشل میڈیا بھی بند کر دیا۔ ایک نتھنگ نیس کے احساس نے مجھے ہرطرف سے گھیر لیا تھا۔

اس تنہائی میں یہ سوچتے ہوئے وقت گزرتا تھا کہ ہم ساری عمر جن رشتوں میں انویسٹ کرتے ہیں، ساری عمر جن کے لئے تگ و دو کرتے ہیں، پیسہ لگاتے ہیں، جذبات لگاتے ہیں۔ اپنے جذبوں کو اپنی کوششوں بھرپور رکھتے ہیں۔ ان سب کی حقیقت کیا ہے اور مجھے جو اب نہ ملتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ سانسوں نے دھوکہ دینا شروع کیا۔ ڈاکٹر کی کال آتی تھی۔ فرح ہمت رکھو۔ بس اس پیمائشی آلے پر سانسوں کی مقدار 90 سے نیچے نہیں جانی چاہیے اور مجھے یاد ہے کہ کس طرح وہ 80 سے بھی نیچے گر جاتی تھی۔

آکسیجن سلنڈر کا انتظام ہوا۔ پتہ چلا کہ وہ سانسیں جو ہم مفت میں دن رات کھینچتے ہیں، پیسہ دے کر خریدیں تو ہماری اوقات کیا ہے اور پھر ایک دن ڈاکٹر بولا ہسپتال داخل ہونا پڑے گا۔ زندگی کی امید کبھی کھوتی ہوئی نظر آتی اور کبھی بنتی ہوئی۔

میرے اپنے، میرے رشتہ دار کئی فٹ دور کھڑے ہو کر سانسوں سے میری جنگ کو دیکھتے تھے۔ چاہتے تو ہوں گے میرے پاس آئیں اور مجھے تسلی دیں مگر کر نہیں پاتے تھے۔

اور میرے آس پاس وینٹی لیٹر آن ہوئے تو لگتا تھا کہ جیسے موت نے باری مقرر کر لی ہے۔ بیڈ نمبر 1، پھر بیڈ نمبر 2 اور پھر بیڈ نمبر 3 پہ کہیں میری باری نہ آ جائے۔ میں نے سنا ڈاکٹر مجھ پر متعین اسٹاف کو کہا ہے تھا دیکھو اتنے وقت کے بعد آکسیجن بند کر دینی ہے کہ آکسیجن میرے پھیپھڑوں سے لیک کر کے میرے جسم میں بھرنا شروع ہوجاتی تھی۔ آکسیجن بند کر دی جاتی تھی۔ مجھے پھر سانسوں کی تنگی ہوتی تو پھر لگادی جاتی تھی۔

میں نے دیکھا میری زندگی کے لئے میری سانسیں چلتی رہی، پیرامیڈیکل اسٹاف ہمہ وقت کوشش کرتا تھا۔ ایکسرے کرنے والا ہر رپورٹ جو خراب ہو رہی تھی، کے بعد مجھے آ کر کہتا پہلے سے امپروومنٹ ہے۔

میرا ڈاکٹر اسی تگ و دو میں تھا کہ زندگی کی کشش میں مجھ میں ختم نہ ہو جائے۔ میری ملازمہ کھانا دے کر کہتی، باجی میں باہر بیٹھی ہوں، گھبرانا نہیں اور پھر مجھے اپنے جواب ملنا شروع ہوئے۔ زندگی اور زندگی کے معنی ہم جتنے محدود کر چکے ہیں زندگی اس سے کہیں وسعت اور اعلیٰ درجے پر فائز شے ہے۔

کئی احباب کو اپنے اردگرد کہتی سنتی ہوں کہ ان کا دل کرتا ہے خودکشی کر لیں یا یہ کہ ان میں سوسائیڈل ٹینڈنسی ہے۔ مجھے ہنسی آتی تھی کہ آؤ اور دیکھو ایک ایک سانس کے لیے مشین کو کس طرح کھینچ کر اپنے اندر سانس کو بھرنا پڑتا ہے۔ جن رشتوں کے پیچھے ساری عمر بھاگتے ہو نہ ساری عمر تگ و دو کرتے ہو، چاہ کر بھی پاس نہیں آسکتے کہ زندگی اور موت کے چناؤ میں سب کو اپنی ہی زندگی چننی ہے۔

تو پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب کون ہیں۔ میرے اردگرد یہ تو میرے کچھ نہیں لگتے، لیبارٹری والا، مجھے آکسیجن لگانے والا، دوا دینے والا، گاہے بگاہے حالت کے لیے پریشان ڈاکٹر، کھانا وقت پر پہنچانے والی ملازمہ، آکسیجن سیلنڈر تبدیل کرنے والا، مجھے ایمبولینس میں اٹھانے والا، یہ سب میرے کچھ نہیں لگتے اور لگاتار لگے ہوئے ہیں کہ میری سانس بنی ر ہے، جڑی ر ہے۔ کبھی بہت پریشان تو کبھی قدرے مطمئن، ہسپتال اور ہسپتال کا عملہ اس وقت میرا بہترین تعلق تھا۔ کسی دوست کو کسی خاندان والے کو خبر نہ تھی جب میں سانسوں کی لڑائی لڑتی تھی۔ ہاں یہ کہ فلاں دعا پڑھ لو یا فلاں دیسی ٹوٹکا۔

اور پھر میرے خیرخواہ عملے کی جیت ہوئی۔

میرے سینے سے کورونا کے بادل چھٹنا شروع ہوئے اور مجھے یاد ہے جس دن میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی وہ عملہ کس قدر خوش تھا کہ انہوں نے انسانی زندگی کو بچانے میں کامیابی حاصل کی۔

اور پھر میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اپنے ڈاکٹر کو ماسوائے شکریہ کے کہنے کے میرے پاس کوئی الفاظ نہ نکلے۔

مجھے یاد ہے جب کورونا مثبت نکلا میرے آنسو کہیں جم گئے تھے اور پھر رپورٹ آئی کورونا منفی اور اس دن جیسے سارے بندھ ٹوٹ گئے۔ وہ آخری بار تھا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر روئی۔
اپنی زندگی کے لئے قدرت کا شکریہ ادا کیا۔
ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے میری سانسوں کو چلتا رکھنے کے لئے دن رات ایک کیا۔

آج میں کورونا کے خلاف ویکسین کی دونوں خوراک لے چکی ہوں۔ اردگرد اب بھی لوگوں کو کورونا کو سیریس نہ لیتے ہوئے دیکھتی ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ افواہیں اور من گھڑت کہانیاں سنتی ہوں تو دل کرتا ہے ان سے کہوں کوئی اپنا کھویا ہوتا تو پتہ چلتا تم کو۔
”اپنا“ ۔ مگر اپنا ہے ہی کون، اپنا کی تعریف بہت وسیع ہے۔ وہ رشتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

زندگی کو بند مٹھی میں جکڑنے والے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اختیار ہی اختیار ہے۔ مگر وہ ریت کی طرح سے ہماری مٹھی سے پھسلتی ہے۔

کورونا نے ہم سب کو بدلا، مجھے بھی۔ اب بہت بہادر ہو چکی ہوں۔ موت کو قریب سے دیکھ لیا تو زندگی خوبصورت لگتی ہے۔ جیسے صبر سا آ جاتا ہے کہ زندگی کی بہتی روانی کے ساتھ کتنے سکون سے بہتے چلے جانا ہے اب کسی کی چاہ یا تڑپ باقی نہیں رہی۔ کسی بھی شے کہ تمنا یا حصول ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔

ہمارے محدود خانوں سے کہیں وسعت بھری ہے زندگی جس میں کئی تعلق ہیں اور وہ غیرارادی طور پر آپ کی مدد کو کہیں نہ کہیں سے آ پہنچتے ہیں اور وہ سچے تعلق ہیں۔
کئی ملین لوگ کہیں زیادہ ایڈوانس ملکوں میں ایڈوانس ٹیکنالوجی رکھتے ہوئے، بہت قابل ذہین لوگ دنوں میں اس کورونا کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ گئے۔ اور میں بچ گئی۔

میرے لیے نفع۔ نقصان۔ لڑائی جھگڑا۔ میرا تمہارا۔ اچھا برا۔ حاکمیت۔ اختیار۔ سب اس سوچ کے سامنے ہیچ ہوچکے ہیں کہ
بس! سانس چلتی رہی۔ باقی ستے خیراں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments