وہ خواتین جو چین کے خلاف بولنے کی قیمت ادا کر رہی ہیں


جن خواتین نے گذشتہ ماہ چین کے حراستی مراکز میں ریپ اور جنسی زیادتی کے الزامات عائد کیے تھے انھیں اب ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کی عزت نفس کو مجروع کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کا کہنا ہے کہ ان خواتین پر یہ منظم حملے چین کی جانب سے ان کی آوازوں کو دبانے کی ایک جارحانہ مہم کا حصہ ہیں۔

کویلبنر سیڈک اس وقت ناشتہ بنا رہی تھیں جب انھیں ایک ویڈیو کال موصول ہوئی۔ یہ کال ان کی بہن کی جانب سے کی جا رہی تھی اور سکرین پر اپنی بہن کا نام دیکھ کر سیڈک پریشان ہو گئی تھیں۔ ان کو آپس میں بات چیت کیے ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ بہن کو تو چھوڑیے درحقیقت سیڈک کو چین میں موجود اپنے خاندان کے کسی بھی فرد سے بات کیے ہوئے کئی مہینے گزر چکے تھے۔

سیڈک اس وقت ہالینڈ میں واقع اپنے عارضی گھر میں موجود تھیں جہاں وہ دیگر بہت سے پناہ گزینوں کے ساتھ کمرہ شیئر کر رہی تھیں۔ ان پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقہ سے تھا۔

دو ہفتے پہلے انھوں نے اور تین اور خواتین نے بی بی سی گفتگو میں سنکیانگ کے علاقے میں چین کے خفیہ حراستی مراکز میں مبینہ ریپ اور تشدد کے حوالے سے بات کی تھی۔ ایسے ہی ایک کیمپ میں سیڈک بطور استاد کام کرتی تھیں۔

اب ان کی بہن انھیں فون کر رہی تھی۔

انھوں نے کال کا جواب دیا لیکن ویڈیو کال پر دوسری جانب سے جو تصویر ابھری وہ ان کی بہن کی نہیں تھی بلکہ ایک پولیس اہلکار کی تھی اور یہ سنکیانگ میں ان کا آبائی علاقہ تھا۔

پولیس اہلکار نے مسکراتے ہوئے انھیں کہا کہ ’کویلبینر آپ کیا دیکھ رہی ہیں، آپ کس کے ساتھ (بات کر رہی) ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

سنکیانگ کی کپاس نہ خریدنے والی کمپنیاں یہاں سے پیسہ نہیں کما سکیں گی: چین کی وارننگ

جو بائیڈن کا چینی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، اویغور مسلمانوں کا معاملہ بھی زیر بحث

اویغوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر چین کے حکومتی اہلکاروں پر پابندیاں

یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ اس پولیس افسر نے ان کی بہن کے فون سے کال کی ہو۔ اس بار سیڈک نے سکرین شارٹ لے لیا۔ سیڈک کہتی ہیں کہ سکرین شاٹ کی آواز سننے پر پولیس افسر نے اپنی یونیفارم کی جیکٹ کو اتار دیا۔ تو پھر انھوں نے ایک اور سکرین شاٹ لے لیا۔

چینی اہلکار اور کویلببنر سیڈک

آپ کو بہت احتیاط سے سوچنا ہو گا

بی بی سی سے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران 22 ایسے لوگوں نے بات چیت کی جو سنکیانگ چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔ انھوں نے دھمکیوں، ہراساں کیے جانے اور کردار پر حملوں کے طریقہ کار کو بیان کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سب انھیں اپنے ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی زیادتیوں پر بات کرنے سے باز رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق چین نے دس لاکھ سے زیادہ اویغوروں اور دیگر مسلمانوں کو سنکیانگ میں قید کر رکھا ہے۔

چینی ریاست پر وہاں متعدد زیادتیوں کا الزام عائد کیا جا رہا ہے جس میں بشمول جبری مشقت، تشدد، ریپ اور نسل کشی کے الزامات ہیں۔ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کیمپس ’دوبارہ تعلیم‘ اور دہشت گردی سے نمٹنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ہیں۔

سنکیانگ سے بھاگ نکلنے والے چند افراد نے ان ذیادتیوں پر کھل کر بات کی ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں جنھیں سیڈک کی طرح پولیس افسر یا حکومتی اہلکار نے ان کے خاندان میں سے کسی فرد کے گھر سے فون کال کی یا پھر ان کے کسی رشتہ دار کو پولیس سٹیشن طلب کیا گیا۔

کبھی کھبار ان فون کالز میں ان لوگوں کو سنکیانگ میں اپنے خاندان کی بہتری کے لیے ایک ’مبہم مشورے‘ کو ملحوظ خاطر رکھنے کو کہا گیا اور کبھی کبھی ان کے عزیزو اقارب کو حراست میں لیے جانے اور سزا دیے جانے کی براہ راست دھمکی دی جاتی۔

دیگر کو عوامی سطح پر پریس کانفرنسز میں یا سرکاری میڈیا پر ویڈیو کے ذریعے رسوا کیا جا رہا ہے یا ان کے فون پر براہ راست ہیکنگ کی کوشش کی جا رہی ہے۔

(گذشتہ ہفتے فیس بک نے کہا تھا کہ اسے چین کی جانب سے بیرون ملک موجود چینی کارکنوں کی ہیکنگ کے لیے ایک انہتائی ٹارگٹڈ آپریشن کا پتہ چلا ہے۔)

ان میں سے کچھ لوگوں نے بی بی سی کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، ناروے، نیدرلینڈز، فِن لینڈ، جرمنی اور ترکی سے بات کی۔ انھوں نے بی بی سی کو واٹس ایپ، وی چیٹ، فیس بک پر آنے والے پیغامات کے سکرین شاٹس فراہم کیے ہیں۔

دیگر افراد نے فون کالز اور ویڈیو کالز کی تفصیلات بتائی ہیں۔

ان تمام لوگوں نے سنیانگ میں موجود اپنے خاندان کے افراد کو پولیس کی جانب سے یا پھر ریاستی سکیورٹی افسران کی جانب سے ہراساں کیے جانے یا پھر قید کیے جانے کے طریقہ کار کی وضاحت کی ہے۔

وکیشنل سکلز ایجوکیشن سینٹر

سنکیانگ میں اس کیمپ کا دروازہ جسے سرکاری سطح پر ’وکیشنل سکلز ایجوکیشن سینٹر` کہتے ہیں۔

جب کویلبنر سیڈک نے اس صبح اپنی بہن کے فون سے پولیس اہلکار کی جانب سے کی جانے والی کال کو دوبارہ بیان کیا تو وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر رونے لگیں۔

انھوں نے بتایا ’اس نے کہا تم یہ اپنے دماغ میں اچھی طرح بیٹھا لو کہ تمھارے تمام خاندان والے اور عزیز و اقارب ہمارے ساتھ ہیں۔ تمھیں اس حقیقت کے بارے میں بہت احتیاط سے سوچنا چاہیے۔’

وہ بتاتی ہیں کہ اس نے بہت مرتبہ اس پر زور دیا پھر اس نے کہا „ تم کچھ عرصے سے اب باہر رہ رہی ہوں، یقیناً تمھارے بہت سے دوست ہوں گے۔ کیا تم ہمیں ان کے نام دے سکتی ہو۔’

جب انھوں نے انکار کیا تو پولیس افسر سیڈک کی بہن کو فون پر لے کر آیا۔

ان کی بہن ان پر چلانے لگی۔

’بکواس بند کرو! تمھیں اب سے منھ بند رکھنا چاہیے۔’

اس کے بعد توہین کا سلسلہ جاری رہا۔

سیڈک کہتی ہیں کہ میں اس لمحے اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائی۔ ‘میرے آنسو بہتے رہے۔’

سیڈک کہتی ہیں کہ فون رکھنے سے پہلے پولیس افسر نے انھیں بہت بار کہا کہ وہ چینی سفارتخانے میں جائیں تاکہ وہاں موجود سٹاف ان کے چین محفوظ واپسی کے لیے انتظامات کر سکے- یہ اس قسم کی کالز میں دی جانے والی ایک عام ہدایت ہوتی ہے۔

پولیس اہلکار نے انھیں کہا „اس ملک تمھارے لیے اپنا اسلحہ کھولتا ہے۔’

عورتوں سے نفرت انگیزی ابلاغ کا سٹائل

اس قسم سے خوفزدہ کرنے کی رپورٹس نئی نہیں ہیں لیکن اویغور کارکنوں کا کہنا ہے کہ چین سنکیانگ میں مبینہ طور پر حقوق کی پامالی کے خلاف ردعمل میں بڑھتے ہوئے غم و غصے کی وجہ سے زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ چینی حکومت نےحالیہ ہفتوں میں عوامی سطح پر ان خواتین کو بطور خاص نشانہ بنایا جنھوں نے مبینہ جنسی زیادتی کے بارے میں بارے کی تھی۔

ایک حالیہ پریس کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ نے وانگ وین بن نے اور سینکیانگ کے ایک افسر گوئزیانگ نے ان خواتین کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جنھوں نے حراستی مراکز میں جنسی حملے کے بارے میں بتایا تھا۔ ان افسران نے انھیں „جھوٹی’ کہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ’اخلاقی طور پر برا ‘ کہا اور ’کمتر کردار’ اور دوسری کو ناجائز جنسی تعلق رکھنے کا الزام لگایا۔

ایک خاتون کے سابق شوہر کی بظاہر فلمائی گئی ویڈیو میں انھیں ’برے اخلاق کی حامل کتیا’ کہا گیا اور اس ویڈیو کو سرکاری میڈیا پر چلایا گیا۔

دوسری خاتون کو چینی حکام کی جانب سے ’بچوں سے زیادتی کرنے والی’ اور بری خاتون کہا گیا۔

چینی اہلکار

یہ گذشتہ ماہ بیجنگ میں لی گئی تصویر ہے جس میں وانگ وینبن نے چینی گواھوں کی تصاویر اٹھا رکھی ہیں جن کے نام زمرات داوات اور ٹرسنے ضیاودن ہیں

وانگ جو کہ وزارت خارجہ کے ترجمان ہیں نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس نجی میڈیکل ریکارڈ ہے۔ انھوں نے ایک خاتون کی جانب سے یہ کہنے کہ زبردستی ان کی بچہ دانی میں آئی یو ڈی رکھے جانے کے الزام کو رد کیا۔

ان نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جسمانی طور پر تشدد کے بجائے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں نے ان حراستی مراکز کی سابقہ قیدیوں جو اب امریکہ میں مقیم ہیں میں افزائش کے عمل میں مسئلہ پیدا کیا۔

حکام کی جانب سے اس حوالے سے بہت سا پروپیگنڈا مواد بھی پیش کیا گیا ہے اور ان خواتین کو „اداکارائیں’ کہا گیا ہے۔

ٹرسنے ضیاودون جو اس کیمپ کی سابقہ قیدی ہیں اور اب امریکہ میں ہیں وہ ان خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں حکام کی جانب سے پریس کانفرنس میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

جب انھوں نے یہ سب دیکھا تو انھیں اس بات پر سکون کا احساس ہوا کہ وانگ نے ان کے خاندان کا نام نہیں لیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان کی جانب سے باقی جو بھی کہا گیا اس پر „بہت رنجیدہ’ ہیں۔

ضیادون نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ انھیں سنکیانگ میں سنہ 2018 میں ریپ کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس پریس کانفرنس کے بعد فون پر اپنے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ مجھ پر ڈھائے جانے والے تمام مظالم کے بعد وہ اتنے ظالم اور بے شرم کیسے ہو سکتے ہیں کہ وہ عوامی سطح مجھ پر حملہ کریں۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں چینی تاریخ کے شعبے میں پروفیسر جیمز مالوارڈ کہتے ہیں کہ ضیادون اور دیگر پر حملے سے پتہ چلتا ہے کہ چین عوامی ابلاغیات میں خواتین کو نشانہ بنانے کا طریقہ اپنا لیا ہے۔ ۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بہت سی خواتین سامنے آئی ہیں اور وہ بہت مصدقہ کہانیاں بتا رہی ہیں کہ کیسے ان سے زیادتی کی گئی۔

’اور ردعمل سے پتہ چلتا ہے مکمل طور پر بہرے پن کا اور غلط فہمی کا کیسے جنسی حملے اور جنسی صدمات کو سمجھا جاتا ہے اور اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ خوفناک ہونے کے ساتھ یہ مکمل طور پر چینی ریاست کے متضاد ہے۔’

لندن میں چینی سفارتخانے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ چین اپنے اس دعوے پر قائم ہے کہ ان خواتین کی جانب سے ریپ اور جنسی زیادتی کے بیانات جھوٹے ہیں اور وہ بطور ثبوت ان کے نجی میڈیکل ریکارڈ کو شائع کرنے کا ذمہ دار ہے۔

دو خواتین جنھوں نے بی بی سی سے بات کی کو بظاہر اعلی پیمانے پر تیار شدہ ویڈیو میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس ویڈیو کو چین کے سرکاری میڈیا نے شائع کیا ہے جس میں ان خواتین کے خاندان والے اور دوست ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے پیسے چوری کیے ہیں اور جھوٹ بولا ہے۔

گذشتہ ماہ امریکہ میں اویغوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کی جانب سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ چین نے کم ازکم 22 ایسی ویڈیو بنائی ہیں جن میں لوگ کو مبینہ طور زبردستی پہلے سے لکھے گئے بیانات کو پڑھنے کو کہا گیا اس میں اکثر اپنے خاندان کے لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور انھیں جھوٹا اور چور قرار دیتے ہیں۔

عزیز عیسیٰ الکون برطانیہ میں خو ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بوڑھی ماں اور بہن سے کئی برس سے رابطہ نہیں کر پائے۔ اس وقت انھوں نے سرکاری ٹی وی پر ویڈیو میں انھیں جھوٹا اور خاندان کے لیے باعث شرم قرار دیا تھا۔

الکون کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اویغوروں کی سنکیانگ میں موجود قبروں کی تباہی کی جانب توجہ مبذول کروائی تھی۔ ان قبروں میں ان کے والد کی قبر بھی شامل تھی۔

الکون کا کہنا ہے کہ „آپ کہ سکتے تھے کہ وہ جو کہہ رہے تھے وہ ساتھ سکرپٹڈل/ طے شدہ تھا۔ لیکن چینیوں کی پروپیگنڈہ فلم میں اپنی ماں کو دیکھنا بہت زیادہ تکلیف دہ تھا۔

کیلبنر سیڈک کہتی ہیں کہ وہ پریشان ہیں ایسی ہی ایک ویڈیو کے بارے میں جو ان کے شوہر کے بارے میں ہے اور وہ کسی بھی دن ریلیز ہو سکتی ہے۔

ان کے شوہر نے انھیں گذشتہ برس کے آخری عرصے میں فون پر کہا تھا چینی حکام نے سنکیانگ میں ان کے گھر میں آئے تھے اور ان سے زبردستی وہ لائنز پڑھوائی تھیں جن میں انھوں نے انھیں جھوٹا کہا تھا۔

ان کے شوہر کہتے ہیں کہ انھوں نے بہت کوشش کی کہ وہ ان لائنوں کو درست طریسے سے ادا کر سکیں اور اس ویڈیو کلپ کو فلمانے میں انھیں چار گھنٹے لگے۔

’شاید ہم تعاون کر سکتے ہیں

بی بی سی سے بات کرنے والوں نے ہراساں کیے جانے کے ایک اور طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے اویغور ساتھیوں اور ان اداروں کی جاسوسی کریں جو چین پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بدلے میں انھیں اکثر اوقات خاندان کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے، عزیزو اقارب کی حفاظت کی گارنٹی دینے یا ویزا یا پاسپورٹ تک رسائی کی آفر دی جاتی ہے۔

برطانیہ میں اویغور شہری جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کا کہنا ہے کہ انھیں سنکیانگ میں جانے کے موقع پر اور واپسی پر خفیہ اداروں کے اہلکار کی جانب سے متعدد بار ہراساں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کہا گیا کہ وہ اویغور گروہوں کی جاسوسی کریں اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل میں بطور رضاکار شمولیت اختیار کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا انھیں اپنے بھائی کی جانب سے متعدد بار کال کی گئی اور ان کی منت کی گئی کہ وہ ایسا کریں۔

جیولان شرمیمٹ جو کہ سنکیانگ سے ترکی جا کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں نے بی بی سی کو ان فون کالز کی ریکارڈنگ دی ہے جو انھیں کچھ میہنے پہلے اس وقت موصول ہوئی تھیں جب انھوں نے سنکیانگ میں موجود اپنے خاندان کے لوگوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھیں۔

فون کرنے والے نے انھیں بتایا کہ وہ انقرہ میں چینی سفارتخانے سے بات کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ „سنکیانگ سے نکلنے کے بعد سے آپ نے جس جس سے رابطہ کیا ہے ان کے کانٹیکٹ نمبر لکھیں۔’ „اپنے معمولات کی تفصیل’ ای میل کریں تاکہ ملک شاید آپ کے خاندان کی صورتحال پر نظر ثانی کرے۔’

ترکی میں موجود ایک اور اویغور نے بھی ایسی ہی ایک کال اسی سفارتخانے کی جانب سے موصول کیے جانے کے بارے میں بتایا۔

مصطفیٰ اکسو جن کی عمر 34 برس ہے اور وہ امریکہ میں موجود کارکن ہیں اور ان کے والدین سنکیانگ میں قید ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو اپنے ایک ایسے سکول فرینڈ کے تحریری اور صوتی پیغامات دکھائے جو اب چین میں پولیس افسر ہیں۔ اکسو کہتے ہیں کہ وہ ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ انھیں اویغور کارکنوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’شاید ہم تعاون کر سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ تم اپنے والدین کو بہت یاد کرتے ہو۔’

جیولان شرمیمٹ

جیولان شیرمیمیٹ نے اپنی والدہ کی رہائی کے لیے عوامی سطح پر احتجاج کیا

ترکی میں ایک اویغور طالبہ نے کہا کہ ہر کوئی ان درخواستوں کو رد نہیں کر سکتا۔

„جب میں نے کہا کہ نہیں، تو وہ میرے چھوٹے بھائی اور بہن کو فون پر لے آئے اور مجھے کہا کہ یہ کرو۔’

انھوں نے بی بی سی کو پولیس کی جانب سے کیے جانے والے پیغامات کے سکرین شاٹس مہیا کیے۔

ان کا سوال تھا کہ میرے پاس کیا چوائس ہے؟

کچھ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اب اپنے تحفظ کے لیے یہ طریقہ نکالا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ رابطہ کرنے کے ذرائع کو ختم کر رہے ہیں۔

ناروے میں مقیم اویغور ماہر لسانیاتعبدلاولی ایوب نے بی بی سی کو بتایا کہ آپ اپنے فون کو پھینک سکتے ہیں اور نمبر کینسل کر سکتے ہیں۔

’مگر آپ اپنا نمبر کینسل کرتے ہیں اور وہ آپ سے فیس بک پر رابطہ کرتے ہیں، آپ فیس بک کو ڈیلیٹ کرتے ہیں اور وہ آپ سے ای میل پر رابطہ کرتے ہیں۔’

دیگر ایسے لوگ ہیں جو رابطہ کرنے کی امید میں کوشاں ہیں۔

نیدر لینڈ میں موجود ایک اویغور لڑکی نے بتایا کہ اپنا نمبر بلاک ہو جانے کے چار سال بعد وہ اب بھی اپنے چھوٹے بھائی اور والدین کو تصاویر اور ایموجیز بھجواتی ہیں۔

وہ پر امید ہیں کہ ’شاید ایک دن وہ دیکھیں گے۔’

بی بی سی کو آزاد ذرائع سے ان لوگوں کی شناخت کی تصدیق نہیں ہو سکی جو کہ اسے انٹرویو دینے والے بہت سے افراد کو فون کرنے اور پیغام بھجوانے کے پیچھے تھے۔ لیکن اویغوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کے لیے جاسوسی کرنے پر اویغوروں کو مجبور کیا جانا عام ہے۔

رحیمہ ماحمت برطانیہ میں موجود اویغور کارکن ہیں وہ کہتی ہیں کہ ’یہ پہلے ایک پیشکش کے طور پر آتا ہے۔‘ آپ کو ویزے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی، یا ’ہم آپ کے خاندان کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی چیزیں۔’

’بعد میں یہ دھمکی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔’

برطانوی محکمہ خارجہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ „ان رپورٹس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ برطانیہ میں مقیم اویغور طارکینِ وطن کو چینی حکام کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے’ اور اس حوالے سے „خدشات کو لندن میں چینی سفارتخانے کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔’

لندن میں چینی سفارتخانے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس کہانی میں لگائے جانے والے الزامات „مکمل طور پر غلط’ ہیں اور وہ „حیران ہے کہ بی بی سی اتنی آسانی نے اس بات پر یقین کر رہا ہے جو بھی „مشرقی ترکستان’ کے چین سے باہر موجود عناصر کی جانب سے کہا جا رہا ہے۔ مشرقی ترکستان سنکیانگ خطے کے لیے استعمال ہونے والی ایک اور اصطلاح ہے۔

اویغور مظاہرین

گذشتہ ماہ ترکی کے شہر استنبول میں اویغور احتجاج کرتے ہوئے۔ انھیں یہ خدشتہ ہے کہ انھیں چین بھجوا دیا جائے گا۔

سنکیانگ میں مبینہ زیادتیوں پر عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کے باوجود عوامی سطح پر آواز اٹھانے والے لوگوں کی تعداد قید میں لیے جانے والوں کی تعداد کے حوالے سے لگائے گئے تخمینے کے مقابلے میں کم رہ گئی ہے۔ نورے ٹرکل جو کہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن میں بطور کمشنر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں کا کہنا ہے کہ چین کو لوگوں کو خوفزدہ کر کے خاموش کرنے میں بہت زیادہ کامیابی مل رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوں کیمپوں میں غائب کیا گیا ہے اور ابھی ہمارے سامنے بہت ہی کم اویغور ہیں جو اپنے پیاروں کی قید کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

’کیوں؟ اس لیے کیونکہ وہ خوفزدہ ہیں۔’

کچھ اویغور جنھوں نے چین پر تنقید کی ہے وہ اپنے پیاروں کے ساتھ کم رابطہ قائم کرتے ہیں۔ فرکت جاودت امریکہ میں ایک نمایاں کارکن ہیں۔ قید سے رہائی کے لیے مہم چلانے کے بعد سے وہ اب اپنی ماں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ وہ گھر میں نظر بند ہیں اور ان کو کی جانے والی فون کالز کی نگرانی کی جاتی ہے لیکن اس کال کے دوسری جانب فرکت ہوتی ہیں۔ ہزاروں لوگ جو کہ ایک دوسرے سے جدا ہیں ان کے لیے یہ بے رحمانہ اور بلا جواز محسوس ہوتا ہے۔

یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کچھ اویغوروں کو ہراساں کیوں کیا جاتا ہے اور دیگر کو نہیں کیا جاتا، کچھ کو اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے کی اجازت ہے اور کچھ کو نہیں۔ کچھ لوگوں کا اندازہ ہے کہ چین اے/ بی ٹیسٹنگ کر رہا ہے، یعنی اس پر کام کر رہا ہے کہ کیا خوفزہ کرنا زیادہ کارآمد ہے یا نرمی برتنا۔

جوادت جانتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی ماں کے مرنے سے پہلے انھیں دوبارہ دیکھنے کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے جب وہ دونوں فون پر بات کرتے ہیں تو بہت احتیاط سے بات چیت کرتے ہیں۔

انھوں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ایک بار چین کے سرکاری میڈیا نے ان کی ایک ویڈیو نشر کی تھی جس میں وہ اپنے بیٹے سے کہتی ہیں کہ وہ ان کی وجہ سے شرمندہ ہیں۔

ان کی والدہ نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ وہ کچھ دن پہلے ان کی فلم بنانے آئے تھے۔ انھوں نے مذاق کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے پوچھا ’میں کیسی لگ رہی تھی۔‘ پھر انھوں نے خطرہ مول لیتے ہوئے جوادت سے کہا کہ وہ ان پر فخر کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ورژن سکرپٹ کے بغیر تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp