ممبئی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والی عشرت جہاں کون تھیں اور ان پر کیا الزام تھا؟


عشرت جہاں

سترہ سال پہلے ممبئی کے ایک کالج میں زیر تعلیم 19 سالہ لڑکی عشرت جہاں کو ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ 15 جون 2004 کا ہے۔ گجرات پولیس کی کرائم برانچ کے نزدیک عشرت جہاں اور ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے تین دیگر افراد دہشت گرد تھے۔

بدھ کے روز سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے عشرت جہاں ’جعلی پولیس مقابلہ کیس‘ میں آخری تین ملزمان کو بھی بری کر دیا ہے۔ تاہم عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گی۔ شمیمہ کوثر کے وکیل ورندا گروور نے بی بی سی سے اس بات کی تصدیق کی ہے۔

عشرت جہاں کیس سے انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کا نام بھی جوڑا گیا تھا جو اس وقت ریاست گجرات کے وزیر داخلہ تھے تاہم بعد میں سی بی آئی نے انھیں مناسب شواہد نہ ہونے کے بنیاد پر کلین چٹ دیدی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

عشرت جہاں ‘انکاؤنٹر’ فرضی تھا، ایس آئي ٹی

عشرت جہاں کیس:’امت شاہ کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں’

‘عشرت جہاں لشکر طیبہ سے وابستہ تھیں’

پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ لوگ ریاست کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ہلاک کرنے کے ارادے سے گجرات آئے تھے اور ان کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔ لیکن پولیس پر الزام یہ ہے کہ یہ مقابلہ جعلی تھا اور اس مقدمے میں ریاست کے کئی سینیئر پولیس افسران گرفتار کیے گئے تھے۔

عشرت جہاں

عشرت جہاں کی والدہ شمیما کوثر کی وکیل ورِندا گروور کا کہنا ہے کہ ’عشرت جہاں کو اغوا کیا گیا، غیر قانونی طور پر دو دن تک نظر بند رکھا گیا اور پھر اسے قتل کر دیا گیا۔ سی بی آئی کی جانب سے جمع کیے جانے والے فارنزک اور سائنسی ثبوت اور گواہوں کے بیانات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔‘

بدھ کے روز، سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج وی آر راول نے اس مقدمے کے ملزمان گجرات پولیس کے تین افسران جی ایل سنگھل، ترون باروت اور انجو چودھری کی رہائی کا حکم دیا۔

گجرات کی حکومت نے سی بی آئی کو ان تینوں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور اسی بنیاد پر ریٹائرڈ پولیس آفسر ترون باروت سمیت ان تینوں نے ڈسچارج کی درخواست دائر کی تھی۔

اس کے بعد عدالت نے ان کو اس معاملے میں بری کر دیا۔ اب اس معاملے میں کوئی ملزم نہیں ہے اور اس مقدمے کی مزید سماعت نہیں ہو گی۔

اس مقدمے میں آگے کیا ہو گا؟

عشرت جہاں کی والدہ کی وکیل ورِندا گروور نے بی بی سی نمائندے چنکی سنہا کو بتایا ہے کہ سی بی آئی کی عدالت کا یہ حکم جعلی مقابلے اور مقدمے سے قبل ضمانت حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے طے شدہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔

گروور نے کہا ’سی آر پی سی کے سیکشن 197 کے مطابق، سرکاری ملازم کے خلاف مقدمہ شروع کرنے سے پہلے ضمانت حاصل کرنے کا قانونی تحفظ اس معاملے میں لاگو نہیں ہوتا ہے کیونکہ سی بی آئی کی سخت تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا۔‘

’ریکارڈ میں موجود تمام شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے سی بی آئی عدالت نے گجرات حکومت کی جانب سے پیش کی جانی والی تفصیلات پر یقین کیا ہے۔ شروع سے آخر تک گجرات حکومت نے عدالت کے اندر اور باہر گجرات پولیس کے ملزموں کا دفاع کیا ہے۔‘

ورندا گروورنے کہا کہ عشرت جہاں کے کسی دہشت گرد گروہ یا سرگرمی سے تعلقات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا اس فیصلہ کے بعد یہ ’سمجھا جائے گا کہ جس کو ریاست اپنا دشمن یا مجرم سمجھتی ہے اسے ہلاک کیا جاسکتا ہے اور یہ ہم سب کے لیے باعثِ تشویش ہے، شمیمہ کوثر اس فیصلے کو چیلنج کریں گی۔‘

عشرت جہاں کا کیس ہے کیا؟

17 سال پہلے ہونے والے پولیس مقابلے میں ابھی بھی بہت سارے سوالات باقی ہیں، اس مقدمے میں ملزم پولیس اہلکار بغیر کسی عدالتی ٹرائل کے کیسے رہا ہوتے چلے گئے، کئی برسوں سے لوگوں کی رہائی جاری ہے تازہ ترین رہائی 31 مارچ 2021 کو ہوئی ہے۔

یہ معاملہ 2004 کا ہے، جب گجرات پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک پولیس مقابلے میں چار ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کیا تھا۔ یہ افراد جاوید شیخ عرف پرنیش پلائی، امجد علی اکبر علی رانا، ذیشان جوہر اور 19 سالہ عشرت جہاں تھے۔

عشرت جہاں کا تعلق ممبئی کے علاقے ممبرا سے تھا۔ گجرات پولیس نے الزام لگایا تھا کہ وہ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

اس معاملے میں پولیس افسران پر قتل کا مقدمہ شروع نہیں کیا جا سکا۔ اس معاملے پر سیاست شروع ہو گئی۔ ریاست کی بی جے پی کی حکومت نے مرکز کی کانگریس حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاملے میں نریندر مودی کو پھنسانے کی سازش کر رہی ہے۔

سنہ 2013 میں پیش کی جانے والی پہلی چارج شیٹ میں سی بی آئی نے سات پولیس افسران کو نامزد کیا تھا۔ ان میں پی پی پانڈے، ڈی جی وانزارا، این کے امین، سنگھل، باروٹ، پرمار اور چودھری شامل تھے۔

سنہ 2019 میں، ریاستی حکومت نے سابق پولیس افسران وانزارا اور امین کے خلاف مقدمہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی تھی جس کے بعد سی بی آئی عدالت کو انھیں رہا کرنا پڑا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp