مونا لیزا کی مسکراہٹ والی اداکارہ دیبا


ساٹھ اور ستر کی دہائی کا عرصہ کئی اعتبار سے ہماری فلمی دنیا کا سنہری دور ہے۔ اس دور میں فلم نگر کے گلشن میں مختلف شعبوں میں نئے لوگ متعارف ہوئے جنہوں نے آگے جا کر اپنے اپنے میدانوں میں نئی تاریخ رقم کی۔ ایسا ہی ایک نام اداکارہ دیبا کا بھی ہے۔ حال ہی میں ان سے ایک نشست رہی جس کی کچھ دل چسپ باتیں قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں :

” فلم میں کام کرنا آپ کا شوق تھا یا حالات یہاں پر لے آئے“ ؟

” یہ اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ ہماری ضرورت تھی کیوں کہ بہن بھائی چھوٹے تھے اور گھر کا کوئی بڑا کام کرنے والا نہیں تھا۔ ہاں! اتفاق یہ ضرور تھا کہ میرے رشتہ کے بہنوئی باقر رضوی صاحب فلم ڈائریکٹر تھے ان کی وجہ سے مجھے کام مل گیا۔ یوں میں نے بچپن سے ہی فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ان کے ساتھ پانچ چھ فلمیں کیں“۔

” یہ فلمیں کراچی میں بنیں یا لاہور میں؟“۔

” یہ فلمیں میں نے کراچی میں کی تھیں۔ میں کراچی کی ہی رہنے والی تھی۔ لاہور بعد میں منتقل ہوئی۔ یہاں میری پہلی فلم“ دوشیزہ ”( 1962 ) تھی۔ ویسے“ چراغ جلتا رہا ”( 1962 ) میری پہلی فلم ہے۔ زیبا، محمد علی بھائی، کمال ایرانی صاحب اور طلعت حسین صاحب بھی اسی فلم سے متعارف ہوئے۔ اس فلم کے افتتاحی شو میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح شریک ہوئی تھیں“۔

” آپ کے کسی اور بہن یا بھائی نے فلموں کا رخ کیا؟“۔

” نہیں! میرے بہن بھائی اس میدان میں نہیں آئے۔ مجھے بھی قسمت اور مجبوری لے آئی ورنہ مجھے فلم انڈسٹری میں آنے کی کوئی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس وقت مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ آئندہ کیا کرنا ہے؟ ریڈیو ہو یا فلم جہاں بھی مجھے کام ملا میں نے کر لیا۔ یہ خیال تو دور دور تک نہیں تھا کہ مجھے فلموں میں کوئی عروج ملے گا۔ میں نے تو اللہ کے سہارے ہی کام شروع کیا تھا اور اسی نے مجھے عزت بھی دی“۔

” آپ کی وہ کون سی فلم تھی جو مشہور ہوئی اور آپ نے سوچا کہ ہاں اب بات بنی ہے!“۔

” وہ فلم تھی“ خاموش رہو ”( 1964 )۔ میں اس میں ہیروئن تھی اور میرے ساتھ محمد علی بھائی اور یوسف خان صاحب بھی تھے۔ وہ بڑی زبردست فلم تھی اور کامیاب بھی رہی۔ مجھے آج تک نہیں بھولتی۔ اس کی موسیقی بھی بہت اچھی تھی۔ اسی فلم سے مجھے اپنی پہچان ملی“۔

” فلم میں اداکار کو مختلف کام کرنا ہوتے ہیں جیسے کامیڈی، جوان سے بوڑھے کا کردار، رقص کا شعبہ وغیرہ۔ آپ کو سب سے زیادہ مشکل کہاں پیش آئی؟“۔

” جب تک اداکاری نہیں آتی تو سب ہی کچھ مشکل لگتا ہے۔ میں اپنا لطیفہ سناتی ہوں۔ فلم“ چراغ جلتا رہا ”میں مجھ پر ایک گانا فلم بند ہو رہا تھا : ’پڑا ہے مجھے کن بلاؤں سے پالا۔‘ وہاں صحافی بھی موجود تھے کیوں کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ نئی لڑکی متعارف ہو رہی ہے۔ مجھے اس منظر میں رونا تھا جو مجھے آ ہی نہیں رہا تھا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تمہیں اس شاٹ میں رونا ہے رو، اور میں کوشش کے باوجود رو ہی نہیں پا رہی تھی۔ پھر مجھے ایک تھپڑ مارا گیا تو حقیقت میں رونا آ گیا۔ یہ شروعات کی بات ہے جب مجھے کام نہیں آتا تھا۔ پھر یہ بھی صحیح بات ہے کہ کام آ جائے تو پھر یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ڈر رہتا ہے کہ صحیح نہیں ہوا تو کیا ہو گا؟ کام اتنا مشکل ہے کہ دیکھا جائے تو کبھی نہیں آ پاتا“۔

” آپ کا پہلا شاٹ کیا تھا جب پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کرنا پڑا؟“۔

” وہ شاٹ فلم“ چراغ جلتا رہا ”کا تھا۔ علی بھائی اس فلم میں میرے شوہر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ شاٹ یہ تھا کہ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں سے کھینچ رہے ہیں اور رد عمل میں مجھے چیخنا تھا۔ میری چیخ نہیں نکل رہی تھی۔ تب فضلی صاحب نے علی بھائی کے کان میں کہا کہ اسے سیڑھیوں سے دھکا دو۔ میں تو بڑے آرام سے کھڑی ہوئی تھی کہ انہوں نے مجھے دھکا دے دیا۔ میری وہ دلخراش چیخیں نکلیں!۔ بس کیا بتاؤں“۔

” کہا جاتا ہے کہ مذکورہ فلم کے فلمساز، مصنف اور ہدایتکار فضل احمد کریم فضلیؔ اپنی فلم کے لئے ریڈیو پاکستان سے فنکار لائے تھے۔ کیا آپ بھی ریڈیو کی دریافت ہیں؟“۔

” میں بچوں کے پروگرام میں حصہ لیتی تھی۔ پھر یہیں سے مجھے فلم“ مس 56 ”( 1956 ) میں اداکارہ شمیم آرا ء کے بچپن کا کردار کرنے کا موقع ملا۔ مینا شوری صاحبہ اور مجھ پر ایک گانا بھی فلم بند ہوا تھا: ’او ننھے راہی معصوم سپاہی، دنیا کا میلا۔‘

” شروع شروع میں جب اخبارات و رسائل میں آپ اپنی تصویریں دیکھتی تھیں تو کیسا محسوس ہوتا تھا؟“۔

” بہت اچھا لگتا تھا کہ لوگ میرا کام پسند کر رہے ہیں۔ یہ حوصلہ افزائی تھی۔ اس کے ساتھ یہ خیال بھی آتا تھا کہ اب مجھے اور زیادہ محنت سے کام کرنا ہو گا کیوں کہ دیکھنے والے بھی خوب سے خوب تر کی توقع رکھتے ہیں۔ اس طرح کام کرنے کی لگن بھی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ پھر میں نے اپنے آپ کو محض ہیروئن کے کردار کی حد تک محدود نہیں رکھا۔ میں سولہ سترہ سال کی ہی تھی جب جوانی سے بڑھاپے والا کردار باقر رضوی صاحب کی فلم“ روٹی ”میں ادا کیا“۔

ایک سوال کے جواب میں دیبا نے بتایا : ”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جس اداکار کے ساتھ میری جوڑی ہے اب اس کی بہن کا کردار ادا نہیں کروں گی۔ کبھی نہیں کہا کہ یہ کردار نہیں کروں گی وہ کردار نہیں کروں گی۔ میں نے اس وقت کے تمام ’ہیرو‘ کے ساتھ مختلف کردار ادا کیے۔ گولڈن جوبلی فلم“ بہن بھائی ”( 1968 ) میں تو تمام ہیر و میرے بھائی بنے ہوئے تھے۔ سنیما بین نے اس فلم کو بہت پسند کیا۔ بائیس سال کی عمر میں، میں نے“ شاہین ”( 1977 ) ،“ لاوا ”وغیرہ میں شادی سے پہلے ہی نوجوانی سے بڑھاپے کا کردار ادا کر لیا تھا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کیریکٹر ایکٹنگ ہی دیر پا ہوتی ہے ہیروئن کا تو پانچ دس سال ہی کا عرصہ ہوتا ہے“۔

” آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ پر نوجوانی سے بڑھاپے یا کسی بھی ایک کردار کی چھاپ نہیں لگی؟“۔ میں نے سوال کیا۔

” یہ اللہ کا کرم ہے کہ جو کردار بھی کیا اس نے عزت دی۔ حالانکہ مجھے ابھی تک بھی کام نہیں آیا۔ میرے ساتھی فنکاروں، اسٹوڈیو یا یونٹ کے کارکنوں نے میرا بہت ساتھ دیا“۔

” وہ کون سی فلم تھی جس میں آپ نے پہلی مرتبہ ایک بڑا کردار کیا؟“۔

” وہ شبابؔ صاحب کی فلم“ آئینہ ”( 1966 ) تھی۔ میرا محمد علی بھائی کے ساتھ اہم اور بڑا کردار تھا۔ اس دور کا مشہور ترین گیت : ’تم ہی ہو محبوب میرے میں کیوں نا تمہیں پیار کروں۔‘ مجھ پر فلمایا گیا تھا۔ ( یہ گیت فلم میں دو مرتبہ ہے ایک آئرین پروین کی آواز میں دیبا پر اور دوسرا مسعود رانا کی آواز میں محمد علی پر۔ پاکستان فلم ڈیٹا بیس کے مطابق اس فلم کے دو موسیقار ہیں : منظور اشرف اور تصدق حسین۔ مذکورہ گیت کے موسیقار کا نام تصدق حسین دیا گیا ہے۔ اسی طرح گیت نگار بھی دو ہیں شبابؔ صاحب اور خواجہ پرویز۔ مذکورہ گیت کے گیت نگار کا نام خواجہ پرویز ملتا ہے )۔ اس کے بعد“ سنگدل ”( 1968 )۔ یہ ندیم صاحب کی مغربی پاکستان میں پہلی فلم اور مسعود اختر صاحب کی بھی پہلی فلم تھی“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments