سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے


میں سمجھتی ہوں میرا اپنی زبان سے تعلق اور اس میں دلچسپی میری ماں کی وجہ سے ہے کیونکہ ماں پہلی درسگاہ ہونے کے باعث جس زبان سے محبت کرتی ہے، اسے اپنے بچے میں شعوری اور لاشعوری طور پر منتقل کرتی ہے۔ میری ماں کو اردو زبان سے بہت محبت ہے اور انہوں نے ہمارے ساتھ اردو نہ صرف بولی بلکہ فرسٹ ائر تک پہنچتے پہنچتے اردو نظم اور غزل کی نصابی تیاری کے بہانے مجھے کوئی ڈیڑھ سو اردو اشعار ریفرنس کے لئے رٹوا ڈالے جس کا فائدہ مجھے اردو زباندانی میں بہت زیادہ ہوا، اور ساتھ ہی ساتھ پنجابی بول چال بھی اس حد تک سکھا دی کہ جب ہم گاؤں جائیں تو گاؤں والوں کو ہم سے اور ہمیں اپنے گاؤں والوں سے اجنبیت کا احساس نہ ہو۔

اردو جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ بر صغیر کی آزادی کے بعد سے اس زبان کی مقبولیب میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہندوستان کی اٹھارہ ( 18 ) قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ حالانکہ اس زبان پر عربی وفارسی کے اثرات ہیں لیکن عربی وفارسی کے برعکس یہ ہندی کی طرح ایک ہند آریائی زبان ہے جو برصغیر میں پیدا ہوئی اور یہیں اس کی ترقی ہوئی۔ لغوی سطح پر اردو نے مختلف زبانوں سے اتنا زیادہ مستعار لیا ہے کہ انگریزی کے الفاظ بالخصوص اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ بالعموم اس کا حصہ بن گئے ہیں جو اس کے زندہ ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ اردو دنیا کے کئی ممالک میں سمجھی اور بولی جاتی ہے، البتہ یہ کسی خاص علاقے یا قوم کی زبان نہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں اردو بولنے اور سمجھنے والے لوگوں کی تعداد 170 ملین ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو اردو کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے۔ یہ زبان شمال مغربی ہندوستان کی علاقائی اپ بھرنشوں سے رابطے کی زبان کے طور پر ابھری۔ اس کے پہلے بڑے عوامی شاعر عظیم فارسی دان امیر خسرو ( 1325۔ 1253 ) ہیں۔

دو قومی نظریہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ہندو اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے اور اس پر پابندی کی کوششیں کرتے رہے۔ اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے بھی اردو کو اپنی قومی قرار دیا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی مسلمان آئین ساز اسمبلی کی رکن شائستہ اکرام اللہ سہروردی اپنی کتاب ”پردے سے پارلیمنٹ تک“ میں لکھتی ہیں کہ آئین ساز اسمبلی کی اکثریت کی رائے تھی کہ اردو ہی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اور قائد اعظم اسمبلی کے صدر تھے۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنی کتاب ”اردو زبان ہماری پہچان“ میں دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان سٹڈی سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرزاق صابر بلوچستان کو اردو کا اصل ماخذ بتاتے ہیں۔ پروفیسر خاطر غزنوی ہندکو کو اردو کا ماخذ بتاتے ہیں۔ سید سلیمان ندوی اور پیر حسام الدین راشدی سندھ کو اردو کاموجد اور مسکن ٹھہراتے ہیں۔ حافظ محمود شیرانی اردو کو پنجابی کی ترقی یافتہ صورت قرار دیتے ہیں۔ 70 ء کی دہائی میں جب سرحد اور بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کی مخلوط حکومتیں تشکیل پائیں تو سردار غوث بخش بزنجو نے پہلے دن سے اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنایا۔ آج بھی بلوچستان اور سرحد میں سرکاری اور دفتری زبان اردو ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، وقت کے ساتھ ساتھ جہاں گورنمنٹ اسکولوں میں مسائل انتہائی درجے تک بڑھے، وہیں ہر گلی محلے میں کھلنے والے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں نے انگریزی کا تو جو برا حال کیا سو کیا، اردو کا تو بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ اور صرف اسکولوں کو ہی قصوروار کیوں ٹھہرایا جائے، کچھ والدین اور خاندان بھی تو نئی نسل میں انگریزی الفاظ اور بول چال کو پروان چڑھانے اور اردو کو پیچھے رکھنے میں برابر کے قصور وار ہیں۔

کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ اچھی انگریزی نہیں بول سکتا؟ کبھی کسی چائنیز کو اپنی زبان پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے؟ تو کیوں ہم بڑے فخر سے محفلوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ

”My Urdu is really bad“
میری والدہ میری چھوٹی بہن کو سکول داخل کرانے کے لئے گئیں تو داخلہ کرنے والی منتظم پوچھنے لگیں :
Can your child speak English?

میری والدہ نے جواب دیا کہ میں اپنی بیٹی کو سکول داخل کروانے کے لئے لائی ہوں نا کہ انگلش لینگویج انسٹیٹیوشن میں۔ رہی بات انگریزی سیکھنے کی تو وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ لے گی۔ میری بہن کا داخلہ پہلی جماعت کے تقریباً سال کے اخیر میں ہوا تھا اور وہ بہت پر اعتماد تھی، کچھ ہی مہینے بعد انگلش پوم ریسیٹیشن کمپیٹیشن ہوا جس کو اس نے محض میری انگلش پوم کی ریکارڈنگ کو سن سن کر سیکھ لیا اور جب گھر میں کپ جیت کر پر جوش انداز میں داخل ہوئی تو میری والدہ کو پتہ چلا کہ وہ یہ مقابلہ اپنے طور پر ہی جیت چکی ہے، سکول ٹیچر سے ملنے پر میری والدہ کو میری بہن کے بیسٹ انگلش اکسینٹ پر مبارکباد دی گئی۔

مجھے یاد ہے میرے سکول کے دنوں میں میری والدہ اردو مضمون میں میری کارکردگی کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہیں کیونکہ میں کیمبرج سسٹم میں تھی اور سکول کے کاریڈور میں بھی اردو بولنے سے منع کیا جاتا تھا مگر جدہ میں یہی سکول ہمارا واحد آپشن تھا۔ بہرحال انہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر اردو کو سیکھنے میں ہماری راہنمائی کی اور ہمیشہ صحیح ادائیگی پر زور دیا کہ انگریزی یا کسی دوسری زبان کا غلط استعمال اتنا قابل شرم نہیں مگر اپنی زبان سے ناآشنائی اور لاتعلقی اصل نالائقی ضرور ہے۔

محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“ صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں ’الگنی‘ بولتے ہیں۔ پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لئے چھوڑا جاتا ہے تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے ’دھنگنا‘ کہتے ہیں۔

گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ’اگاڑی‘ ’پچھاڑی‘ کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑی جاتی ہے وہ ’لگام‘ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جتے ہوں تو یہ رسی ’راس‘ کہلاتی ہے۔ اس لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ’یک راس گھوڑے کی قیمت‘ اور ہاتھی کے لئے ’یک زنجیر ہاتھی‘ استعمال ہوتا تھا۔

گھوڑے کو جب ٹریننگ کے لئے سائیں پھراتا ہے اور جسے ’کاوا پھرانا‘ بولتے ہیں۔ اس رسی کو جو سائیں اس وقت پکڑتا ہے اسے ’باگ ڈور‘ کہتے ہیں۔ پھر مرحوم نے کہا بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو ’ناتھ‘ بولتے ہیں (اسی لیے ایسے بیل کو ’نتھا ہوا بیل‘ بولتے ہیں۔ اس کے بعد ہی بیل کوہلو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام میں آتا ہے ) ۔ اونٹ کی ناک میں ’نکیل‘ ہوتی ہے اور کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے ’برت‘ یا ’برتھ‘ بولتے ہیں۔ چارپائی جس رسی سے بنی جاتی ہے اسے ’بان‘ اور چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو ’ادوائن‘ کہتے ہیں۔ پھانسی کے لئے استعمال ہونے والی رسی ’پھندہ‘ کہلاتی ہے۔

اردو کو پروان چڑھانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ خود کو انگریزی یا دیگر زبانوں سے دور کر لیا جائے۔ جتنی چاہے زبانیں سیکھیے، سمجھیے، بولیے، پڑھیے ؛ لیکن ساتھ ساتھ اردو کو بھی یاد رکھیں۔

گزشتہ چند عشروں سے ہماری قوم میں تنزلی کے جو آثار نمودار ہوئے ہیں، اردو سے دوری اور اپنی زبان پر شرمندگی بھی ان آثار کا ایک حصہ ہے۔ اردو زبان ہمارے نصاب کا حصہ تو ہے مگر شاید ہماری توجہ سے سب سے زیادہ محروم ہے۔

پاکستان کی تخلیق کا تو حوالہ ہی اسلام اور اردو تھا، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ لوگ تو اب اردو کے ساتھ ساتھ اسلام سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments