کشمیر: یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا


2019 کی بات ہے کہ امریکہ میں موجود تھا۔ امریکی انتظامیہ اور تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد سے گفتگو کے دوران یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ امریکہ جنوبی ایشیا اور اس سے منسلک علاقوں کے حوالے سے کچھ حتمی اقدامات کی جانب بڑھنا چاہتا ہے اور امریکہ میں اگر کوئی سیاسی تبدیلی چاہے رونما ہو بھی جائے مگر ان اقدامات کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو گا ، یہ تمام گزارشات میں نے امریکہ سے واپسی کے بعد اس وقت تحریر کر چکا ہوں۔

امریکہ میں اس وقت جو سوچ چل رہی ہے ، ان اقدامات کا محور بھارت ہے کیونکہ چین کے اثر و نفوذ کو مقابلہ بازی کر کے محدود کرنے کے لئے بھارت ایک اہم مہرے کے طور پر اس بساط پر ابتدا سے موجود ہے اور چین کے مقابلے میں بھارت کو استعمال کرنے کی غرض سے تیار کرنے کے لئے سوچ یہ ہے کہ بھارت کے پاکستان سے معاملات بھارت کی خواہشات کے مطابق حل کروا دیے جائے اور حل طلب امور میں حقیقی مسئلہ صرف کشمیر کی درد بھری کہانی ہے۔

خیال رہے کہ یہ کوئی تازہ سوچ نہیں کہ بھارت کو اس طرح چین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ کونسل فار فارن ریلیشنز سے وابستہ ایک دوست نے میرے سامنے نیویارک ٹائمز کا تیرہ اپریل انیس سو چونسٹھ کا ایک شمارہ رکھ دیا کہ جس میں ایک مضمون چھپا ہوا تھا۔

مضمون کا عنوان Solutions for Kashmir تھا۔
اس مضمون میں چین بھارت جنگ کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ:

One reason for Chinese communist success the last time was the crack troops were kept out of the battle to guard the Indian- held part of Kashmir against Pakistan. India ’s military capacity has been strengthened by American aid, but unless India is able to concentrate her forces against the Chinese.

1964 کے اس اقتباس سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کا استعمال اور اس کا طریقہ استعمال برسوں سے زیر بحث رہا ہے۔ اور کشمیر کا وہ حل جو بھارتی خواہشات کے مطابق ہو یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد مانتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر لیا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں بھارت کی اہمیت دوچند ہو جائے گی بلکہ بھارت کو درپیش دیگر علیحدگی پسند تحریکیں کو بھی غیر معمولی نقصان پہنچے گا، حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔ علاقے کا تھانے دار اور نکا پہلوان بننے کی بھارتی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔

ان تمام بھارتی خواہشات کے آگے بند پاکستان کی موجودگی نے باندھا ہوا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع پاکستان کی بہت مدد کرتا ہے۔ پھر چین سے ہماری دوستی تو بہت پرانی ہے مگر سی پیک کی صورت میں دوستی کو معاشی دوستی میں تبدیل کر دینے سے معاملات اور آگے بڑھ گئے ہیں حالانکہ اس دوستی کو معاشی دوستی میں تبدیل نہ ہونے دینے کے لیے بہت ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا گیا اور ابھی تک لگایا جا رہا ہے لیکن بہرحال یہ ہو گئی۔

اب اس بند کو توڑنے کے لئے بھارت کو ہلا شیری دی گئی اور اس طرح بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی جانب سے قضیہ حتمی طور پر سمیٹ دیا۔ اس میں نہ صرف کہ اس کو بین الاقوامی حمایت حاصل تھی بلکہ باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اپنوں کی بھی خاموش رضا مندی شامل تھی۔ اس میں کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو تمام حقوق دینا چاہیے مگر اس معاملے کو استعمال کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کی جانب بڑھتے قدم درحقیقت پاکستان کے کشمیر پر موقف کے تبدیل کرنے کی جانب بڑھتے اقدامات ہیں۔

اسی طرح یہ امکان ہے کہ آزادکشمیر کے انتخابات کے نتائج گلگت بلتستان کے نتائج کی مانند حاصل کر کے آزاد کشمیر کی بھی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی اور اس کے بعد قصہ ختم کہ یہ ”خون خاک نشیناں تھا سو رزق خاک ہوا“ مگر اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ سب سے اہم پہلو ہے کہ کیا کشمیریوں کی آزادی کی تحریک صرف اس وجہ سے قائم ہے کہ پاکستان اور انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس پر گئے تھے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان بس ایک جغرافیائی تنازعہ ہے یا یہ ایک قوم کا تصفیہ طلب معاملہ ہے کہ جو کہ کشمیری ہے اور اس میں سب سے اہم فریق ہے اور انہوں نے ہی سیاسی جدوجہد سے لے کر گردن کٹوانے تک سے اپنی جدوجہد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ کشمیریوں کی قربانیوں نے ہی اس جدوجہد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر کوئی بھی ایسا اقدام کیا گیا جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے متصادم ہوا تو چاہے کاغذوں پر کچھ بھی معاہدہ کر لیا جائے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار صرف سیاسی چہرہ نہیں ہوگا بلکہ زیادہ ذمہ داری حقیقی فیصلہ سازوں پر عائد ہو گی جیسے کہ آج کوئی یاد نہیں کرتا کہ شوکت عزیز کے دور میں کیا ہوا،  سب کو یہی یاد ہے کہ مشرف کے دور میں کیا کیا ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments