سوشل میڈیا کا محتاط استعمال اہم ہے


انسان کی لاتعداد ایجادات ایسی ہیں جن کا نفع نقصان یا اچھا برا ہونے سے از خود کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ان کا استعمال مثبت اور منفی، دونوں انداز میں بالکل برابر کا ہوتا ہے۔ ایسی ایجادات کو اپنی ذات یا انسانیت کے لئے جتنا منافع بخش بنایا جا سکتا ہے، اتنا ہی اپنی ذات یا انسانیت کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لاؤڈ اسپیکر سے لے کر ریڈیو، ٹی وی، موبائل فونز یا کمپیوٹرز ہوں یا ہتھیاروں کی صورت میں بنائے گئے بے شمار آلات، سب کے سب مثبت اور منفی کاموں میں بکثرت استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی سوچ اور اس کا کردار ان ایجادات کی اچھی اور بری شہرت کا سبب بنتا ہے اور یہی اچھی بری سوچ انسانی ایجادات کے متعلق ایک حتمی رائے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

فی زمانہ کمپیوٹرز یا موبائل فونز کا استعمال اس قدر عام ہو گیا ہے کہ پوری دنیا اس کے فوائد اور نقصانات کے اچھے برے ثمرات کی زد میں ہے۔ بے شک ان ایجادات سے علم اور علم کی مسلسل طلب رکھنے والے اپنے لئے بہت ساری اچھائیاں سمیٹ رہے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات بھی موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور اگر ان گھنٹیوں کی آوازوں پر کان نہ دھرے گئے تو آنے والے دور میں کئی ایسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں جن کا تدارک مشکل سے مشکل تر ہوتے جانے کے امکانات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

آج کل کمپیوٹر اور موبائل فونز پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بہت دھوم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب ذرائع ایسے ہیں جس میں ہر عام و خاص، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی کونے، زبان اور نسل سے ہو، براہ راست اس میں شریک ہو کر اپنی رائے یا اپنی مرضی کی ہر بات کا اظہار بنا کسی ہچکچاہٹ کر سکتا ہے۔ ان ذریعوں میں یہ سہولت بھی موجود ہے کہ وہ اس میں اپنی تحریر، آواز یا تصاویر و ویڈیو کے ذریعے اپنی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کر سکتا ہے اور اپنے ہاتھوں اس میں سب کچھ شائع کر کے دنیا کے کونے کونے میں پہنچا سکتا ہے۔

سماجی میڈیا کی دو شاخیں، فیس بک اور ٹیوٹر ایسی ہیں جن کی دھوم پوری دنیا میں ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شاید ان کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ ان تک رسائی اتنی سہل ہے کہ جو بھی ان میں شمولیت اختیار کرنا چاہے نہ صرف بلا روک ٹوک کر سکتا ہے بلکہ اپنی ہر بات کا اظہار  بھی بلا خوف و خطر کر سکتا ہے۔

سماجی ویب سائٹس بنانے والوں نے جس طرح سب کے لئے سارے آپشن کھلے چھوڑ دیے ہیں، جہاں بڑی خرابی کا سبب بنتے جا رہے ہیں وہیں ان کو مثبت استعمال کرنے والے سماجی ویب سائٹس کو مفید سے مفیدتر بنانے میں بھی رات دن مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ویب سائٹس ہر قسم کے مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں اور کی بھی جا رہی ہیں۔ ان سے بے اندازہ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور نقصان بھی۔ ہر قسم کی سوچ رکھنے والے اپنی اپنی عقل و سمجھ کے مطابق اپنے پاکیزہ و مذموم مقاصد کے لئے ان کو استعمال میں لائے ہوئے ہیں۔

کسی زمانے میں ہوتا یہ تھا کہ دنیا بھر میں اپنے مقاصد کے لئے انسانوں کو تلاش کرنا ایک امر محال تھا۔ کچھ کاموں کی نوعیت تو ایسی ہوتی ہے جو قانونی بھی ہوتے ہیں اور جن کو انجام دینے میں کسی قسم کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہوتا جو کسی پریشانی کا سبب ہو ، اس لئے ان کے لئے اپنی طلب کو مشتہر کیا جا سکتا تھا لیکن کچھ کام بالکل ہی خلاف قانون ہوں یا اس میں کسی قسم کی اور کوئی رکاوٹ درپیش ہو، ان کے لئے انسانوں کو اس انداز مین تلاش کرنا کہ راز الم نشرح ہونے کا کوئی خدشہ بھی نہ ہو، جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔

سوشل میڈیا پر اب ایسے افراد کو ڈھونڈ کر ان کا مکمل ڈیٹا حاصل کرنا کوئی دشوار کام نہیں رہا۔ مقاصد نیک ہوں یا تخریب کارانہ، اپنے مقاصد کے مطابق ہر فرد و بشر کا ریکارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کس فرد کو کس ملک اور ریاست میں کن کن نیک و بد کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، سب معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

مجھ سمیت ہر وہ فرد جو ان سماجی سائٹس سے وابستہ ہے، سب کا ریکارڈ ایک تو خود اس کی اپنی ”پروفائل“ میں جمع ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری جانب کئی اور جگہ ایک ایک فرد کو پڑھا جا رہا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہر فرد ایک ایسی کھلی کتاب بنتا جا رہا ہے جسے جب اور جہاں چاہے با آسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ یہی وہ خوبی اور خرابی ہے جسے ہر گروہ اپنے اپنے نیک و بد مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے اور ایسے افراد کو ڈھونڈ لینے میں کامیاب ہے جن کو وہ اپنے مقاصد کے لئے اکٹھا کر سکتا ہے۔

سماجی ویب سائٹس استعمال کر نے والوں کو یہ بات خوب اچھی طرح اپنے پلو میں باندھ لینی چاہیے کہ وہ ان کو غیرمحتاط انداز میں کبھی استعمال نہ کریں۔ ہر بات لوڈ کرنے سے پہلے ایک ایک پہلو کا خوب اچھی طرح جائزہ لئے بغیر کسی بات کو ہواؤں کے حوالے کرنا کسی وقت بھی کسی بڑی مصیبت اور آزمائش کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور سے ان نوجوان بچوں اور بچیوں کے لیے یہ میڈیا بہت ہی خوفناک صورت اختیار کر سکتا ہے جن سے کسی بھی قسم کی احمقانہ بات سرزد ہونے کا امکان ہو۔

لہٰذا یہ کھلی کتابیں استعمال ضرور کی جائیں لیکن ان کے مضمرات کو اچھی طرح سامنے رکھ کر ، ان میں داخل ہوا جائے۔ بہ صورت دیگر کسی کے ساتھ کیا ہو جائے، اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔ امید ہے کہ سماجی میڈیا استعمال کرنے والے غیر محتاط رویوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر پریشانی سے بچائے رکھنے کا رویہ اپنائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments