بھارت سے تجارت اور کشمیر


انسان کی تمام تر زندگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کی ساری زندگی ذریعہ معاش اور معیشت کے درمیان گول چکی کی طرح گھومتی ہے۔ تخلیق کائنات کے آغاز میں جب انسان کی آباد کاری میں فقدان تھا، انسان کی تگ و دو محض لقمہ حیات کی تلاش تک تھی۔ رفتہ رفتہ جیسے جیسے انسان آباد ہوتا گیا، اہل و عیال کے لیے ذمہ دار بنا دیا گیا اور یوں اس کی دوڑ اپنے لیے دو نوالوں کے حصول سے بڑھ کر آٹھ دس اور بارہ لوگوں کی زندگی بنانے اور سنوارنے تک بڑھ گئی۔

جوں جوں انسان پروان چڑھا اس نے ریاست کا تصور دیکھا۔ جیسے وہ اپنے اہل خانہ کو پالنے کا ذمہ دار تھا ریاست اس سمیت کئی خاندانوں کو پال پوس کر بڑا کرتی ہے اور بدلے میں ان سے تابعداری کے لیے ایک سوشل کانٹریکٹ پر دستخط کروا لیتی ہے جس سے انسان ریاست کے ذمے ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سرحد کے اندر ریاستی قانون کو ماننے کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔

ریاست چونکہ ماں ہوتی ہے اور وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے دنیا کی دیگر ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاہدات کرتی ہے۔ اس امر میں حطے کی دیگر ریاستیں جن کے ساتھ سرحدیں ملتی ہوں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اور اگر ان ہی ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ عالاقائی تنازعات کی موجودگی دو طرفہ یا کثیرالجہتی تجارت کی راہ میں روڑے اٹکاتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ ہی کچھ صورتحال برصغیر پاک وہند میں ہمیشہ دکھائی دیتی رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ سے متعدد معاہدات طے پاے مگر دفاعی وجوہات کی بناہ پر کبھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ہمیشہ گلے کی ہڈی بنا رہا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے اس معاملے نے زور پکڑا جب بھارت نے ریاستی دہشگردی سے غیرقانونی بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوجی کرفیو لگا کر اس کی متنازعہ خیثیت کو ختم کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی۔

اس سب نے دونوں ممالک کے درمیان تمام سرکاری و نیم سرکاری معاملات کو روک دیا۔ اب اچانک سے پاکستان کے وزیراعظم و آرمی چیف نے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا عندیہ دیا اور دونوں ممالک میں پیش رفت کا آغاز ہو گیا۔ ان غیر معمولی پیشرفتوں میں پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن کا دورہ بھارت اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یوم پاکستان کی مبارکباد کا خط شامل ہیں۔

بلاشبہ دو نیوکلیر آرچ راؤلز کے درمیان مثبت پیغامات کا تبادلہ ہی بذات خود ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ مگر ای سی سی کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کا اعلان انتہائی قبل اذوقت اقدام ہے۔ حماد اظہر نے وزارت مال کا عہدہ سنبھالتے ہی تجارت بحالی کا اعلان کر دیا۔ جس کو سن کر نہ صرف حکومتی کابینہ کی صفوں میں بلکہ ملک بھر میں کہرام مچ گیا۔ سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر لوگوں نے اس اقدام کو کشمیر کاذ کے ساتھ دھوکہ اور کشمیر بیچنے کہ مترادف ٹھہرا دیا۔ اس سے اگلے ہی روذ کابینہ اجلاس میں یہ گتھی سلجھی کے ای سی سی نے وزارت انسانی حقوق اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ کیا تھا۔

کچھ ماہر معاشیات اس کو اہم اور مثبت پیش رفت ٹھہراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بھارت سے چینی کو درآمد کرنے سے ملک بھر میں چینی کی قلت کو دور کیا جا سکتا ہے اور بھارت میں چونکہ چینی 15 سے 20 روپے سستی ہے تو اس سے چینی کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کو بھی لگام دی جا سکتی ہے۔ کاٹن کے حوالے سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر پاکستان دنیا بھر سے بھارت کی مہر لگی پراڈکٹس براستہ دبئی خرید سکتا ہے تو اس میں کیا ممانعت ہے کہ پاکستان براستہ بھارت ہی وہ مصنوعات خرید لے۔ ان سب دلائل میں چین اور تائیوان کے مابین تجارت کی بلند و بلا پتنگ کا بھی ذکر کیا جاتا۔

یہ سارے دلائل قابل فہم ہیں اور بلاشبہ بھارت کے ساتھ ڈائریکٹ تجارت دونوں ممالک کے لیے خوشخالی کا سبب ہے۔ مگر کیا ان کشمیری مجاہدین اور کرفیو میں پروان چڑھتے نوجوانوں اور بھارت کی فسطائیت میں عمر بسر کرنے والی کشمیری عوام کی قربانیوں کو بھول جانا چاہیے؟ ان لوگوں نے تو پاکستان کو بڑا بھائی بنایا تھا اور فیصلے کی کنجی آپ کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ بھارت نے آپ کے کیے ہوئے شملہ معاہدے کو توڑا ہے۔ کیا اتنا آسان ہے کہ آپ اپنے ہی بیانیے پر کمپرومائز کر لیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا وزیراعظم صاحب نہ تو آپ کے چوک میں 30 منٹ ٹھہرنے سے کشمیر آزاد ہوا اور نہ ہی ماضی کی جنگوں سے۔ مگر اپنے موقف پر تو قائم رہیے۔ ماضی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے اور ماضی کے معاہدات کی پاسداری نہ کرنے والے تجارتی پارٹنر سے نئے معاہدات پر دستخط سے قبل پرانا حساب ضرور لے لیں۔

اس کے علاوہ اس قسم کی پیش رفت انتہائی قبل از وقت ہے۔ کہیں اس سب سے ہمارے ہمسائے کو یہ تاثر نہ چلا جائے کہ بھارت سے زیادہ پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے تجارت نہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔

مزید بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اس کو عوامی راے کا اندازہ کرنے کے لیے ”فلائنگ کائٹ“ (flying kite) کا نام دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments