جاوید جبار: تخلیق، تشہیر اور ترغیب کی دنیا کا باکمال مسافر



( کچھ پرانے کیلنڈرز کی تاریخوں میں ڈھکے، اوراق پلٹتے ہوئے : )

یہ دفتر کا استقبالیہ ہے۔ یہاں بہت ساری تصاویر اور فریم آویزاں ہیں مگر آپ کی توجہ دیوار پر لگے ایک سلو گن سے کسی طرح اوجھل نہیں ہوپاتی۔ اس کی وجہ سلوگن کے طویل اور نمایاں نقش سے زیادہ، سلوگن میں موجود دلچسپ اور معنی خیز تحریر ہے۔

سلوگن کے الفاظ یوں مخاطب ہیں ”ایک ایسا ملک جہاں 90 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسیر نہیں، وہاں اپنی 100 فیصد توانائی، ٹوتھ پیسیٹ کے اشتہار پر صرف کرنے کا کیا جواز ہے“

الفاظ اور پیغام، دونوں، اس خاصیت سے ہمکنار ہیں کہ پڑھنے ( اور سوچنے والے ) کو فوری طور پر اپنے سحر میں لے لیں اور ان کا اثر دیر تک قائم رہے۔

آج بھی دنیا میں کسی پیغام کی قبولیت کے یہی دو عوامل ہیں، جن کے لئے ساری تگ و دو برپا ہوتی ہے۔

آئیے اب اس دفتر کے ایک اور کمرے میں چلتے ہیں۔ جی آپ نے بالکل صحیح سنا، یہاں سے موسیقی کی دھیمی دھیمی آواز آ رہی ہے مگر نہ یہاں کسی رکارڈنگ کے آثار ہیں اور نہ ہی یہ کسی اشتہار چلنے کی آواز ہے۔ اس جگہ اس مدھم موسیقی کا مقصد، صرف اور صرف، اس کمرے میں موجود شخصیت کے تخلیقی فکری عمل کا ساتھ دینا ہے۔

اس کمرے میں، آپ کی حیرانی کا سامان، اور بھی ہے۔ جی ہاں! عام طور پر ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ عموماً دفاتر میں، صاحب دفتر کی کرسی دیوار سے لگی ہوتی ہے اور اس کے سامنے میز۔ یہاں معاملہ الٹا ہے۔ یہاں میز دیوار سے لگی ہوئی ہے اور کرسی دیوار کے مخالف سمت، یعنی میز کے اس طرف۔ گویا مہمان کے آنے پر کرسی کی پشت آپ کی طرف (مگر ریوالونگ ہونے کے سبب) مہمان سے روبرو بات چیت باآسانی ( اور بخوبی ) ممکن!

نشست کے لئے یہ منفرد بندوبست، شاید اس شخصیت کے مزاج کی آئنہ دار ہے جسے نہ کبھی عام ڈگر اختیار کرنا منظور رہا اور نہ ہی دفتر میں لاحاصل اور بے کار وقت ضائع کرنا، سو جب تک دفتر میں موجودگی ہے، دھیمی موسیقی اور مکمل یکسوئی کے ساتھ، تخلیقی خیالات، تیزی سے رواں، بائیں ہاتھ کی دلکش لکھائی سے، خوبصورت تحریر میں ڈھلتے رہتے۔

یہ وہ خوبصورت الفاظ، منفرد خیالات ( اور دل کش تصورات ) ہیں کہ، جب یہ اخبارات و جرائد میں نمودار ہوں یا سکرین کی زینت ہوں، دل میں اتر تے چلے جائیں، یا خوشگوار حیرت کے ساتھ چونکا دیں اور کبھی اپنی انفرادیت کے سبب، اتنے مقبول، کہ، زبان زد خاص و عام ہو جائیں!

جب اشتہاری دنیا میں کام کرنے والے ادارے خود کو ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کہلانے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے تب بھی انھیں اپنے راستے، منزل اور ارادے سے پوری آگاہی تھی۔ اور شاید وجہ وہی، ڈگر سے ہٹ کر کچھ کر دکھانے کی تڑپ! سو طے یہ ہوا کہ یہ معاملہ محض پیغام بنانے اور پھیلانے کا نہیں بلکہ، اصل ہدف، بات سلیقے سے پہنچانے اور طریقے سے منوانے، گویا ابلاغ کا ہے۔ یوں یہ عزم، (اور جذبہ) ادارے کے نام میں بھی نمایاں ہوا اور ایم این جے کمیونیکیشنز کا قیام عمل میں آیا۔

ان کی پرکشش شخصیت کی طرف توجہ مائل ہونے کی کئی ابتدائی وجوہات میں سے ایک وجہ، اپنے دور کے حساب سے ایک لاجواب کتاب ”اے مین ان دی کیو“ بنی، جس میں ان کی روایت شکن ترجیحات کے عین مطابق، نوجوانوں کو بھیڑ چال سے ہٹ کر، میلان اور رجحان کی پیروی پر اکسایا گیا کہ صلاحیت کا حقیقی نکھار اور ابھار اسی راستے سے ممکن ہے۔

پھر ان کی تخلیقی اڑان کا تاریخی فیصلہ ”بیانڈ دی لاسٹ ماؤنٹین“ کی صورت میں آیا۔ فلم اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں میں، اسے جرات مندی کی ایک مثال کے طور پر، کئی پہلووں سے اہم قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں اس فلم کی انوکھی پبلیسٹی خاص طور پر، ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

کراچی کے پہاڑی علاقوں پر اس فلم کے نام کی مناسبت سے، ایک نہایت اونچی اور بہت بڑی جگہ، اس کا اردو اور انگریزی نام اجاگر کیا جانا، جہاں فلم بینوں اور عام لوگوں کے لئے خصوصی توجہ اور غیر معمولی دلچسپی کا باعث تھا، وہاں ہماری فلمی تاریخ بھی، شاید اس نوعیت کی تشہیر کی کوئی اور مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہی انوکھا اور غیر روایتی انداز، اس کی اخباری مہم میں بھی اختیار کیا گیا۔

اور بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر تخلیقی مزاج اور علمی ذوق رکھنے والی شخصیت کے دفتری ماحول میں اس رنگ کی چھاپ نہ ہو۔

بک ریڈنگ اور فلم بینی، یہ وہ دو عمل ہیں جن کی حوصلہ افزائی نہایت فراخدلی اور تسلسل سے کی جاتی۔ بک ریڈنگ کا طریقہ کار کچھ یوں کہ کوئی بھی، کوئی بھی کتاب پڑھ کر آئے اور دیگر ساتھیوں سے اس کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرے اور ساتھی اس تبادلہ خیال میں، ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب جاننے کے خواہش مند ہوں تو گفتگو آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح فلم بینی کے لئے اکٹھے ہو کر کوئی سی منتخب فلم دیکھنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں نشست کے لئے یہ آزادی میسر کہ مارکیٹ میں موجود کوئی کتاب یا فلم لائی جائے اور اسے موضوع بحث بنایا جائے۔ سب سے اہم پہلو یہ کہ اگر مصروفیت حائل نہیں، تو اس دوران مکمل یا تھوڑے عرصے کے لئے خود بھی موجود!

سندھی سیکھنے اور سکھانے کے لئے تب خصوصی طور پر دفتری اوقات کے بعد ٹیوٹر کی سہولت بھی فراہم کی گئی اور سب کے لئے کھلی دعوت، جو اس سے استفادہ کا خواہشمند ہو!

شخصیت کے جتنے انداز، قابلیت کے جتنے رخ، سبھی دل موہ لینے والے۔ یہی وجہ ہے کہ ”راسکل“ کا تکیہ کلام کسی اور جگہ شاید ہی اتنا جچا ہو، جتنا اس لہجے اور اس اپنائیت میں بھلا لگتا، جو اس کرشماتی شخصیت کا خاصہ تھا ( اور ہے ) ۔ ہمارے ہاں کم شخصیات ہوں گی جنہیں علم، خطابت، ذہانت، اور قیادت کی خصوصیات کا یہ معیار میسر آیا ہو اور جو اس کے ساتھ ساتھ، اتنی ہی اعلی انسانی اقدار کی پاسداری کی شناخت بھی رکھتی ہوں۔

وہ جب تک اشتہارات کے میدان میں متحرک رہے، اس بارے میں، ہر حلقہ فکر میں اتفاق رائے پایا گیا کہ تخلیق کی بلند ترین چوٹی کے عقب میں موجود آخری امکان، سر کرلینے کی جستجو، کو اگر کسی نام سے پکارا جا سکتا ہے تو وہ نام، صرف اور صرف، جاوید جبار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments