عوام کو کب کس نے جانا؟


کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت، عوام کے لیے نہیں اپنے لیے ہے کیونکہ ابھی تک وہ یہ نہیں ثابت کر سکی کہ اس کے دل میں غریب لوگوں کا درد ہے۔ آئے روز تکلیف دہ احکامات صادر کیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی پر اس کا ذرا بھی کنٹرول نہیں۔ پچھلی حکومتوں کے ادوار میں بھی مشکلات تھیں مگر اس طرح نہیں جس طرح آج ہیں۔

کوئی کلیہ قاعدہ نہیں کوئی اصولی و ضابطہ نہیں بس اندھا دھند حکمرانی کی جا رہی ہے۔ آج کچھ پروگرام ہے تو اگلے روز کوئی اور، اسی لیے اسے ”یوٹرنی حکومت“ کہا جاتا ہے۔ سوچنا اور غور کرنا اس کے نزدیک شاید ضروری نہیں۔

عوامی مسائل کسی قدر بڑھ رہے ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا ہے اس بارے کوئی حکمت عملی اور کوئی منصوبہ بندی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ بس یہی واویلا کیا جا رہا ہے کہ فلاں با اختیار تعاون نہیں کر رہے جبکہ یہ بات ایک حد تک تو تسلیم کی جا سکتی ہے بڑی حد تک نہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت نے ماسک استعمال کرانے کا ارادہ کیا تو مضافات میں بھی اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے گلی محلوں میں بھی غالب اکثریت قانون کا احترام کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت دانستہ مسائل کا خاتمہ نہیں چاہتی وہ عوام کو ذہنی طور سے مسائل کے الجھاؤ میں رکھنا چاہتی ہے اس دوران وہ کیا کرنے کا سوچتی ہے اس کا اندازہ اس کے ”بدلتے تیور“ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو قابل غور و فکر ہیں کہ ایک طرف وہ کہتی ہے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے قرضے ادا کرنا لازمی ہے مگر دوسری جانب اسی کو سٹیٹ بینک دینے کی بات کرتی ہے۔

اس کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کا عندیہ دیتی ہے جن کے اجرا کے بعد یہ بینک ریاست پاکستانی کے کسی ادارے کو جواب دہ نہیں ہو گا اس قانون کی منظوری کے بعد یہ قومی بینک ایک ایسا ادارہ ہو گا جو ملکی آئین اور قانون سے بالاتر ہو گا لہٰذا اس کے سربراہ کو نہیں ہٹایا جا سکے گا یعنی احتساب کے ادارے جو وزیراعظم کو بھی تفتیش کے ضمن میں بلوا سکتے ہیں۔ اس بینک کے کسی عہدیدار کو نہیں بلوا سکیں گے۔ مزید یہ بھی دیکھیے کہ اس وقت یہ بینک دیہی ترقیاتی، صنعتی اور گھروں کی تعمیر کے لیے جو قرضے دے رہا ہے ”خود مختار“ ہونے کے بعد ایسا نہیں کرے گا۔

ادھر حکومت کا موقف یہ ہے کہ اس بینک کی خود مختاری کے بعد مہنگائی کے اژدھے کو قابو کیا جا سکے گا۔ ملک میں مالی استحکام آ سکے گا اور اس کی معاشی پالیسیوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کی مدد کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ موقف سمجھ سے باہر ہے کہ جب یہ جواب دہ ہی نہیں ہو گا اور آئی ایم ایف کے زیر اثر ہو گا تو عوامی فلاح کے پروگرام کی کیسے حمایت کرے گا کیونکہ اب تک آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک انہوں نے عوام کو ریلیف دینے والے منصوبوں اور پروگراموں پر قرضہ نہیں دیا اور اگر دیا بھی تو عارضی منصوبوں پر جو بعد ازاں حکومت و عوام کے لیے سر درد بن گئے اور ان کا قرضہ سود در سود بڑھتا چلا گیا لہٰذا حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو اس حوالے سے بھرپور احتجاج کرنا ہو گا اور عوامی رائے کے لیے تحریک چلانا ہو گی وگرنہ صورت حال گمبھیر ہو جائے گی۔

بہرحال حکومت نے شاید عوام کو کچھ نہ دینے کی ٹھان رکھی ہے لہٰذا وہ ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان دنوں جب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے کی کوئی تک نہیں مگر بڑھ گئیں۔ دودھ جو نام کا ہوتا ہے فی کلو بیس روپے تک بڑھ گیا اسی طرح چھوٹا بڑا گوشت پچاس سے ایک سو روپے تک بڑھا دیا گیا۔ اس گوشت کو پانی سے خوب نہلایا جاتا ہے۔ چھچھڑے بھی ساتھ ہوتے ہیں جنہیں تولنے کے بعد الگ کیا جاتا ہے مگر محکمہ فوڈ چپ سادھے ہوئے ہے۔

اسی لیے ہم یہ کئی بار لکھ چکے ہیں اور کئی پروگراموں میں عرض کر چکے ہیں کہ علاقے کے تھانیدار کو یہ اختیار دے دیا جائے جو سوفیصد نہ سہی پچاس ساٹھ فیصد عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو کم کر سکتا ہے۔ وہ ایسا نہیں بھی کرتا مگر شکایت درج ہونے کی صورت میں دکاندار کو اچھی بھلی پریشانی ضرور لاحق ہو سکتی ہے اور وہ احتیاط برتنے پر مجبور ہو گا یہ جو صارف عدالتیں ہیں وہاں تک لوگ ایک فیصد بھی نہیں جاتے مگر تھانے میں جا سکتے ہیں لہٰذا یہ تجربہ حکومت کو کر لینا چاہیے اگر وہ تھوڑا سا بھی عوامی مفاد کا سوچتی ہے مگر اس کے اب تک کے اقدامات سے لگتا ہے کہ اسے عوام کو کوئی پروا نہیں اسے چند فیصد کو راضی رکھنا ہے لہٰذا وہ ان کے لیے مصروف عمل ہے اور غریبوں کی زندگیاں اجیرن ہو چلی ہیں۔

ادھر وائرس نے ایک خوف پھیلا رکھا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والوں کو تو یہ دن اور بھی خوف زدہ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنا پیٹ پالنا بے حد مشکل ہو گیا ہے حکومت ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ نہیں سوچ رہی اسے سوچنا بھی نہیں شاید، ثبوت اس کا یہ ہے کہ وہ انہیں مفت ویکسین نہیں فراہم کر رہی۔ تھوڑی بہت چین نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت جودے دی سو دے دی اگرچہ اس سے قیمتاً بھی لی جا رہی ہے مگر اس سے بائیس کروڑ عوام مستفید نہیں ہو سکتے لہٰذا وہ نجی کمپنیوں کی اجازت دے رہی ہے جو اسے لگوانے والوں سے منہ مانگے دام وصول کریں گی۔

کوئی مفلوک الحال کیسے جی سکتا ہے کہ اسے غذا نہ دوا اور نہ ہی انصاف مل رہا ہے مگر اہل اختیار و اقتدار عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے لیے ہر سہولت ہر آسائش موجود ہے ان کی دنیا میں الگ ہے اور نرالی ہے۔ یہ غریبوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے حقوق کو مانتے ہیں لہٰذا اب یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک لوگ خود آگے نہیں آئیں گے ان مافیاز کے نعرے لگانا نہیں بند کریں گے۔

ایک ایسا شخص جن کے بارے میں واضح ہوتا ہے کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا حامل ہے اسے کندھوں پر بٹھایا جاتا ہے اس کے مقابل عوام سے ہمدردی اور مثبت سوچ رکھنے والا آدمی قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا لہٰذا جہاں قصور اہل زر و اختیار کا ہے تو وہاں لوگوں کا بھی ہے ان کی زندگی میں زہر گھولنے والوں کو اپنا سیاسی رہنما قرار دے کر ان سے بھلائی کو توقع کرتے ہیں اور وہ جو نہی اقتدار میں آتے ہیں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔

اب تک یہاں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ نتیجتاً ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے جس کی بحالی کے لیے عام آدمی جیب پر ہاتھ صاف کیے جا رہے ہیں جس سے وہ بلبلا اٹھا ہے اور کچھ لوگ اس زندگی سے فرار کا راستہ ڈھونڈنے لگے ہیں مگر ہمارے حکمران سکون کی نیند سو رہے ہیں انہیں اور ان کے مخالفین کو اب بھی ذاتی تجوریاں بھرنے کی فکر ہے مگر کہتے ہیں کہ موسم بدلتے رہتے ہیں آج اگر خزاں کی زردی نے کمزوروں کے چہروں کو ڈھانپ رکھا ہے تو کل بہار کو بھی آنا ہے پھر گل بھی کھلیں گے اور خوشبوئیں بھی پھیلیں گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments