قتل ( افسانہ)


لوگ کردار مار دیتے ہیں لیکن سچائی زندہ رہتی ہے۔ کردار مارنے کے بھی دو طریقے ہیں ایک آلۂ قتل سے مارنا اور دوسرا آدمی جب کسی زبردست روحانی رشتے سے الگ کر دیا جاتا ہے اور وہ اس جدائی کا عادی نہیں ہو پاتا تو خود بخود مر جاتا ہے۔ آدمی کی اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی چیز کا عادی نہ ہو پائے اور جو لوگ کسی چیز کے عادی نہیں ہو پاتے تو انسانوں کی آبادی میں گھوڑوں کی طرح لاتعلق ہو جاتے ہیں۔

رابعہ بیرون ملک ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد عارضی طور پر وطن واپس آئی تھی۔ رابعہ سسرال کی بجائے اپنے بھائی کے گھر ٹھہری تھی۔ ویسے بھی سسرال کم ہی رہی شادی کے ایک سال بعد اٹلی چلی گئی اور وہ ایک سال بھی نئی دلہن کی طرح کبھی میکے، کبھی سسرال دعوتیں کھاتے، گھومتے پھرتے ہرن کی بچے کی طرح چوکڑیاں بھرتے گزر گیا۔

جب وہ پہلی بار اٹلی کے لیے روانہ ہو رہی تھی تو اس کے دماغ میں تھا کہ اپنے شوہر کے ساتھ وہ تمام خواب پورے کرے گی جو اس نے فریدالدین کی آٹھ سالہ محبت میں دیکھے تھے۔ لیکن اٹلی کی کساد بازاری کے باعث نہ تو گنڈولے پر سوار ہو کر غروب آفتاب کے وقت وینس کے سائز برج کے نیچے سینٹ مارکس گرجا گھر کی بجتی گھنٹیوں کی گونج میں بوسہ لے سکی اور نہ ہی جزیرہ کیپری جا سکی۔ ایک بار جرمنی بھی گئی تھی لیکن فرینکفرٹ میں دریائے مائن پر بنائے گئے آئرن برج پر نہ شوہر کے گلے ملی اور نہ ہی محبت کا تالا لگا سکی۔ اٹلی پہنچتے ہی عائشہ اور دو سالوں بعد موسیٰ پیدا ہو گیا۔ دو بچوں کی پرورش، شوہر کی محدود آمدنی، اٹلی کی کسادبازاری اور غیر ملکی ثقافت نے حافظے سے سب کچھ چھین لیا جو وہ یہاں سے چھپا کر لے گئی تھی۔

وقت چیتے کی طرح دوڑتا ہے اور چیزوں کو اوپر نیچے کرتا گزر جاتا ہے۔ رابعہ کا یہی خیال تھا کہ جب وطن واپس لوٹے گی تو ائرپورٹ پر استقبال ہو گا، میکے گھر سکھیوں کی چنڈال چوکڑی پہلے کی طرح جمے گی اور سکھیاں فریدالدین کا تذکری چھیڑیں گی، لیکن حالات یکسر مختلف تھے۔ نہ ائر پورٹ پر استقبال، نہ سکھیوں کی چنڈال چوکڑی اور نہ فریدالدین کا ذکر۔

ان دنوں محلے میں ایک پاگل آدمی کا تذکرہ تھا جو حلیے سے سکھ معلوم ہوتا لیکن کلمہ محمدی پڑھتا تھا۔ آدمی کے پاگل ہونے میں یہ سہولت ہے کہ ہر قسم کے مذہب، فرقہ اور برادری سے آزاد ہو جاتا ہے۔ رشتوں کے جھمیلوں سے آزاد اور آدمیوں کے بیچ آدمیوں سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ نہ اس کا کوئی نام ہوتا ہے نہ کردار بس پاگل ہوتا ہے۔ محلہ عطار پور کا پاگل دن بھر بوہڑ والے چوک میں پڑا رہتا جب یکسانیت بڑھ جاتی تو دن میں محلے کی ایک دو گلیوں میں چکر کاٹتا اور پھر مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا۔

رات کو اس کھوکھے پر جا کر چائے پیتا جہاں دن بھر کے تھکے ہارے مزدور آ کر بیٹھتے اور گپ شپ کرتے۔ مسجد کا خادم رات جب مسجد بند کرتا تو پاگل آدمی سیڑھیوں پر جا کر لیٹ جاتا اس کو کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں تھا بوہڑ والا چوک، مسجد کی سیڑھیاں یا پھر مولوی فضل دین کی گلی جہاں بیٹھ کر لوگوں کو منہ چڑھاتا تھا۔ کبھی کبھی دیوانگی بڑھ جاتی تو بوہڑ والے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگتا جیسے ایک بہت بڑا مجمع اس کا سامع ہو۔

کبھی بازوں کو ہوا میں لہراتا کبھی جسم کو خم دے کر گھماتا اور خدا کو للکارتا۔ پھر بڑے تشکر آمیز لہجے میں ہوا میں شکریہ ادا کرتا جیسے بہت سے لوگ اس کے ہم خیال ہوں اور وہ خدا سے لڑنے کے لیے اس کے لشکر کا حصہ ہوں۔ کبھی کبھی تقریر لمبی ہو جاتی تو تقریر کرتے ہوئے چلانے لگتا اور سانس اکھڑ جاتی۔ وہ لوگ جو اس پر ہنس رہے ہوتے ترس کھا کر پکڑ لیتے، پانی پلاتے، پیار دیتے تو پاگل آدمی خاموش ہو جاتا۔

بھابی نے رابعہ کو پاگل آدمی کے بارے بتایا تو بہت حیران ہوئی لیکن ہر حیرت کی ایک میعاد ہوتی ہے۔ اگلے ہی روز رابعہ صبح کی نماز پڑھ کر لیٹی تھی۔ گلی سے پاگل آدمی کی آواز سنائی دی۔ بھابی نے بتایا اکثر دن چڑھتے اس گلی سے گزرتا ہے۔ رابعہ دروازے میں جا کھڑی ہوئی پاگل آدمی گاتے چلاتے چلا آ رہا تھا ”مجھے ناشتے میں اونٹ چاہیے“ مجھے ناشتے میں اونٹ چاہیے ”یہ سن کر رابعہ خوف زدہ ہوئی اور ایک دم دروازہ بند کر دیا۔ پاگل آدمی دروازے سے آگے گزر گیا تو باہر نکل کر پیچھے دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ پاگل آدمی دوسری گلی مڑ گیا اور اس کی آواز آنا بھی بند ہو گئی۔

دوپہر کو جب سورج سر پر تھا اور سایہ پاؤں میں تو گلی سے پھر آواز آئی ”میرے لیے ایک چوہا کافی ہے“ میرے لیے ایک چوہا کافی ہے ”رابعہ پھر دروازے پر آ کھڑی ہوئی۔ جیسے ہی پاگل آدمی دروازے کے قریب پہنچا تو دروازہ بند کر کے چھپ گئی اور پھر دور تک پیچھے دیکھتی رہی۔

اگلے روز رابعہ لاہور اپنی بہن کے پاس چلی گئی۔ ہفتے بعد جب واپس آئی تو شام ہو چکی تھی۔ پاگل آدمی کے بارے اس کی حیرت قائم تھی اور بار بار ذہن میں اس کا خیال آ رہا تھا لیکن اس وقت گلی میں کوئی آواز نہیں تھی۔ آدھی عمر گزر جائے تو انسان ویران سرائے کی طرح ہو جاتا ہے کوئی آیا نہ گیا۔ ایسی سرائے جو جوانی کے دنوں میں آباد ہوتی ہے۔ آدھی عمر کے بعد سرائے ویران اور اداس ہوتی ہے۔ دیواروں پر لکھے نام مٹ جاتے ہیں اور چھتوں پر پچھتاوے جالے بن کر لٹکنے لگتے ہیں۔

طویل خاموشی میں انگلیوں سے کھیلتی رہی ساتھ لیٹا شوہر اجنبی محسوس ہو رہا تھا نیند پر عجیب سی بے چینی کا آسیبب طاری تھا۔ آدھی رات کے بعد گلی سے پاگل آدمی کے چیخنے کی آواز آنے لگی۔ رات کی گہری خاموشی، پاگل آدمی کی خوف ناک چیخیں اور رابعہ جو ایک ویران سرائے تھی۔ کئی بار سوچا اٹھ کر چھت پر جائے اور پاگل آدمی کو دیکھے لیکن اعصاب نے ساتھ نہ دیا اور خوف کے ساتھ لیٹی رہی۔ آہستہ آہستہ چیخیں کم ہونے لگی رابعہ کی لمحہ بھر آنکھ لگ گئی۔

تھوڑے ہی وقت بعد جسم میں ایک شدید جھٹکا لگا آنکھ کھل گئی لیکن اس وقت بالکل خاموشی تھی کہیں سے بھی پاگل آدمی کی چیخ سنائی نہیں دی۔ رابعہ اٹھی اور چھت پر گئی۔ کمرے کی کھڑکی کھولی تو سورج ایک کمزور سی کرن سیدھی چھاتی پر آ لگی۔ رابعہ نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو گلی کی نکڑ پر پاگل آدمی کا جسم پڑا تھا۔ اس کے سر سے نکلنے والا خون آنکھوں اور چہرے پر جم چکا تھا۔ دو کوے سر پر بیٹھے آنکھیں نوچ رہے تھے۔ پاگل آدمی کا جسم لاش کو ملنے والی توجہ کا منتظر تھا۔ رابعہ سیڑھیوں سے اتر کر گلی میں آئی تو چند نمازی پاگل آدمی کے گرد کھڑے تھے۔ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا مر گیا ہے۔ دوسرے آدمی نے آنکھ کے اشارے سے تصدیق کی اور کہا بے چارہ لاوارث ہے۔

رابعہ ایک دم بولی کوئی تو وارث ہو گا؟

اتنے میں ایک نمازی نے پاگل آدمی کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک شناختی کارڈ اور چند کاغذ کی پرچیاں جن پر کچھ لکھا تھا۔

سب سے پہلے شناختی کارڈ پڑھا گیا ”فریدالدین والد نبی بخش محلہ لاری اڈا گلی نمبر 4 مکان نمبر 16

ایک دم رابعہ کی چیخ نکلی اور پاگل آدمی کے چہرے پر جھک گئی لیکن آنکھوں اور چہرے پر جمے خون نے شناخت مٹا دی تھی۔ پھر کاغذ کی پرچی پڑھی گئی جس پر لکھا تھا:

مجھے مرنے کے بعد ماں کے ساتھ دفن کرنا۔ کم بخت ساری زندگی یہی سوچتی رہی کہ فریدو میرا نہیں کسی اور کا ہے۔ جب ماں کے پاس جاؤں گا تو کہوں گا ماں تیرا فریدو آ گیا ہے۔

دوسری پرچی پڑھی گئی جو ایک وراثت نامہ تھی

میرے باپ کے پاس دو پنجرے تھے ایک میں وہ شیر تھا جسے میرا باپ نینوا کے صحرا سے پکڑ لایا تھا اور دوسرے میں ایک چڑیا جو گیت گانے سے قاصر تھی

یک دم رابعہ کی آنکھیں رک گئی۔ چیخ حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر اندر کی طرف بھاگی مگر گر گئی۔ جب ہوش آیا تو اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹی تھی۔ اس کی بھابی سرہانے بیٹھی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے سہلا رہی تھی۔ اس نے بھری ہوئی آنکھوں سے بھابی کی طرف دیکھا اور پوچھا فریدالدین کو کیا ہوا؟ بھابی نے اس کے ہاتھوں کو دو تین مرتبہ تھپتھپایا اور اس کے ماتھے پر سے بال ہٹاتے ہوئے بولی ابھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کو کسی نے قتل کیا ہے یا خودکشی کی ہے۔

پولیس کی رائے یہ ہے کہ پاگل آدمی تھا خود کشی کی ہوگی۔ رابعہ ہچکچاتی آواز میں بولی وہ پاگل نہیں تھا مگر بدقسمت تھا اس کی زندگی میں دکھ کی دھوپ دور تک پھیلی ہوئی تھی جہاں چھاؤں کا کوئی کونہ یا کنارا نہیں تھا۔ وہ بچوں کی طرح جھوٹے وعدوں پر بہل جایا کرتا تھا۔ اس وقت رابعہ کے ذہن میں وینس کے سائز برج کے نیچے سینٹ مارکس گرجا گھر کی بجتی گھنٹیوں کی گونج میں فریدالدین کا نہ ملنے والا بوسہ اٹک گیا اور اس کی آنکھوں میں مہنگے برینڈ کا پینٹ کوٹ پہنے نوجوان فریدالدین گاڑی سے اتر رہا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments