ہمیں خود کو بدلنا ہے



پاکستانی ہونے کے ناتے اگر ہم اپنے کسی بھی ادارے کے خلاف بات کریں گے تو بدنامی صرف اس ادارے کی نہیں ہوگی بلکہ باہیس کروڑ عوام کی ہو گی۔ ہماری زباں سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی کا کام کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے ملک کے کسی ادارے کے خلاف بغاوت کرے گے تو اسی طرح ہمارے ملک کی عزت اور ناموس کا دنیا مذاق بنائے گی۔ جیسا کہ موجودہ حالات اس بات کی عکاسی کر رہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں کروڑں لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جس میں فیس بک، یو ٹیوب اور طرح طرح کی سوشل ایپ ہیں۔

ان ہی اپلیکشن کی مدد سے ہم روزانہ کی بنیاد پر دنیا کو اپنا کیا پیغام بھیجتے ہیں یہ ہم جانتے ہیں۔ ہر روز ہر بندہ اگر دو پوسٹ بھی لگاے تو مثال کے طور پر اگر پانچ کروڑ اکاؤنٹ بھی ہو تو دس کروڑ پوسٹ بنتی ہیں۔ ہر بندہ اپنی رائے رکھتا ہے یہ الگ بات ہے۔ لیکن میں یہاں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت حکومت مسائل کا شکار ہے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ (Covid 19 ) کا ہے جو گزشتہ سال سے چلا آ رہا ہے۔ ان حالات میں حاکم وقت جیسا بھی ہو سوائے خاموشی کے کچھ کر نہیں سکتا۔

گزرے سال کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ قانون قدرت ہے ہر چیز نے اپنے مقررہ وقت پر آنا ہوتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور اس وقت رمضان الکریم کے حوالے سے چھوٹی سی بات ہمارے ضمیر میں آگ لگا دے گی۔ میں کافی دنوں سے سوشل میڈیا پر دیکھ اور سن رہا ہوں۔ لوگ طرح طرح کے پروپیگنڈا کر رہیں ہیں۔ کچھ لوگ تو نا اہلی کی حد پار کر گے ہیں اور کہتے ہیں کہ وقت حاکم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ عوام مساجد میں جائے اور ایک ساتھ نماز ادا کر سکے۔

اور خصوصی رمضان کی تراویح نماز پر تو بے حد مکالمے ہو رہیں ہیں۔ کیا ہمارا ضمیر اس قدر مردہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں ہونے والی اموات ہمیں نظر نہیں آتی۔ جو اس (Covid۔ 19 ) کی وجہ سے ہوئی۔ حکومت کے ہر کام ہر ایس او پی کو عوام اپنے لیے وبال جان سمجھتے ہیں۔ کیا یہ ایک منفی سوچ نہیں کیا ایک قسم کی جہالت نہیں۔ ہمیں ہماری سوچوں کو بدلنا ہوگا ہماری سوچ بدلے گی ماحول بدلے گا اگر ماحول بدلے گا تو پاکستان روشن خیالی کی طرح گامزن ہوگا۔

عوام کے بنا حکومت کسی کام کی نہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ اکیلے کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمارے اندر انسانی جذبہ اور شعور کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک عوام ایک ساتھ مل کر حکومتی پالیسیوں کا خیرمقدم نہیں کرے گی۔ اس وقت تک ہمارے حالات ویسے کہ ویسے ہی رہے گے۔ بے شک ہمارے اوپر ہزاروں (Lock down) لگا دیے جائے پھر بھی یہ موذی وبا ہماری جان نہیں چھوڑے گی۔ ہم لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں کیا جو حالات اب لاہور کے ہیں وہ مذاق ہیں۔

اگر ہم تھوڑا سا سوچنے میں کامیاب ہو گئے تو مسائل حل ہوتے جائے گے۔ اگر ہمارے اندر اتنی چاہت و تڑپ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پہلے کی طرح رمضان المبارک کو محسوس کر سکے تو لگاؤ ہر روز پوسٹ عمل کرو اور ثابت کروں دنیا میں کہ بے شک لاک ڈاؤن ہے ہم مساجد میں ایک ساتھ نماز نہیں پڑ ہ سکتے ہیں مگر پھر بھی دنیا اس بات کا اقرار کرے کہ پاکستانی عوام وہ واحد قوم ہیں جو لاک ڈاؤن میں ہوتے ہوئے بھی دین و اسلام کا بول بالا اونچا کر رہیں ہیں۔

مگر افسوس ہماری تنگ نظر سوچ نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ ہمیں اپنے فائدے سے پہلے نقصان کی فکر ہوتی ہے۔ جب تک ہمارے اندر کا انسان ہم زندہ نہیں کرے گے تب تک دنیا میں ہم کچھ نہیں کر پائے گے۔ ہم تو اپنے مالک کی عطاؤں کو بھول چکے ہیں۔ کیا یہ کافی نہیں کہ مالک دو جہاں نے ہمیں بے عیب پیدا کیا ہے۔ ہمیں ہمارے اس نایاب اور قیمتی دماغ سے انسانیت کی بھلائی اور اچھائی کے لے سوچنا چاہیے۔ دماغ سے سوچے گے الفاظ اور دل سے کیے گے فیصلے ایسے ہونے چاہئیں جس میں دین و اسلام، معاشرتی زندگی اور انسانیت کی فلاح ہو۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس بات کو جان سکے کہ ہمارا مذہب ہمیں کس بات کی تلقین کرتا ہے۔ اور دنیا میں ہمارا حقیقی مقام کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments