دین کی از سر نو شناخت


قدیم علم طبیعات کے مطابق کائنات کے چار بنیادی عناصر آگ، پانی، مٹی اور ہوا، تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی قدیمی علم طبیعات کے اندر ماہرین نے تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بنیادی عناصر صرف چار نہیں ہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور آج بھی اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے روایتی اور رائج علوم سے ہٹ کر سوچنے کی پاداش میں ہی گلیلیو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کے اس تحقیقی و اجتہادی روش نے آج انسان کو ترقی کے آسمان پر پہنچا دیا ہے اور انسان کی موجودہ مادی ترقی اسی سوچ کی مرہون منت ہے کہ رائج و روایتی طرز تفکر اور نظریات کے اندر تحقیق و اجتہاد ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔

امام خمینی نے بھی علوم دین اور رائج دین شناسی کا از سر نو جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کے حقیقی اسلام اور رائج اسلام میں بہت بڑافاصلہ موجود ہے۔ کیونکہ رائج دین کے اندر فقہی احکامات، عقائد، اخلاق کی بہت باریک نکات پر ابحاث تو موجود تھیں لیکن کہیں بھی نظام دین کا تصور موجود نہیں تھا۔ جب کہ امام خمینی کی دینی شناخت کے مطابق نظام اولین اور اہم ترین ضرورت ہے، باقی تمام علوم اور نظریات در حقیقت اسی نظام کے برپا ہونے سے ہی عملی ہو سکیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی دینی مدرسے کے اندر بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ ”اسلام گمشدہ است“ (اسلام گم ہو چکا ہے ) ۔

رائج دین کے حامل اس وقت کے فقہا کو تیل کی لوٹ کھسوٹ نظر آتی تھی، اقتصادی بدحالی نظر آتی تھی، یا زیادہ سے زیادہ عورتوں کی بے پردگی پر کڑہتے تھے۔ ان مسائل کے حل کے لیے اصلاحی اقدامات بھی کرتے تھے اور فقط انہی اقدامات کو ہی اپنا حقیقی وظیفہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، موجودہ حالات پر عدم رضائیت انقلاب کی بنیادی ترین شرط ہے لیکن یہ عدم رضائیت کسی آیئڈیالوجی کے تحت پیدا ہونی چاہیے۔ بغیر آیئڈیالوجی کے اقتصادی بدحالی پر ابھرنے والا جذبہ اقتصادی حالت ٹھیک ہوتے ہی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ عدم رضائیت کسی آئیڈیالوجی سے نکلی ہو تو بہترین اقتصادی حالات میں بھی انقلابی جذبہ ٹھنڈا نہیں پڑتا۔

یہ رائج اور روایتی دین شناسی کا ہی نتیجہ ہے کہ امام حسین کے قیام عاشورہ کی اہم ترین وجہ یزید کے مطالبہ بیعت کو قرار دیا جاتا ہے اور یہی اس تجزیہ و تحلیل کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ امام حسین کا قیام اس لیے نہیں تھا کہ یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا، اگر یزید کی طرف سے بیعت کا مطالبہ نہ بھی ہوتا تو امام حسین پھر بھی یزید کی فاسد حکومت کے خلاف قیام کرتے کیونکہ امام حسین نے خود فرمایا کہ افضل ترین جہاد سلطان جائر کے خلاف کلمہ حق کہنا ہے۔

امام حسین کا قیام کسی رد عمل کے طور پر ہرگز نہیں تھا بلکہ اس دینی آئیڈیالوجی کے تحت تھا جو انسان کو ظالم کے سامنے جھکنے نہیں دیتی۔ اسی طرح حضرت موسی کا فرعون کے خلاف قیام، حضرت ابراہیم کا بت خانے میں جا کر بتوں کو پاش پاش کر دینا، کسی جذباتی رد عمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس الہی آیئڈیالوجی کی خاطر تھا جس کے مطابق طاغوتی طاقتوں کے خلاف قیام واجب ہے۔

امام خمینی کے مدنظر بھی روز مرہ کے مسائل کی اصلاح نہیں تھی بلکہ شہنشاہیت کا خاتمہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام خمینی نے انقلاب آفرین دینی آیئڈیالوجی کی تبلیغ شروع کی تو مدارس کے اندر ہی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑے بڑے نامور فقہا امام خمینی کے مخالف ہو گئے کیونکہ جو دین انہوں نے سمجھا تھا اس کے لیے کسی نظام کی ضرورت نہیں تھی، ۔ ظاہر ہے کہ احکامات، عقائد، اخلاقیات تک محدود دین انسان کو انقلابی نہیں بناتا اور نہ ہی اس دین کے اندر انقلاب کا تقاضا جنم لیتا ہے۔

اسی روایتی دین کے پیروکار علما و فقہا کا کہنا تھا کہ ہمارے روز مرہ کے مسائل حل ہو رہے ہیں، درس و تدریس جا ری ہے، نماز روزہ بھی چل رہا ہے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے حکومتی معاملات اور سیاست میں دخل اندازی کی، بلکہ وہ انقلاب و انقلابی اقدامات کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے، شاہ ایران کے لیے دعائیں کرواتے تھے کہ خدا اس شہنشاہ کا سایہ تا قیامت ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ رائج دینی تفکر کے مقابلے میں جب ایسا دینی تفکر پیش ہوا جس کے اندر مکمل اور جامع نظام موجود تھا، جس کے مطابق طاغوتی حکومتوں کے پاس حکومت کا کوئی جواز موجود نہیں ہے اور یہ تفکر تب تک چین سے نہیں بیٹھنے دے گا جب تک اس سرزمین سے فاسد حکومت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، ایسے میں ہر طرف سے امام خمینی کی مخالفت شروع ہو گئی لیکن امام مسلسل اس انقلاب آفرین آئیڈیالوجی کی طرف عوام اور خواص کو متوجہ کرتے رہے اور یوں انقلابی تحریک عملی طور پر پہلے مرحلے میں داخل ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments