آں کتاب زندہ، قرآن حکیم


صاحب (ص) قرآن کی ذات اقدس کے ساتھ ساتھ قرآن مقدس بھی زمانہ نزول سے ہی منکرین اور معاندین حق کی طعن و تشنیع کا شکار ہوتا رہا ہے۔ دراصل جہل مرکب کے مریضوں نے سیدالانبیاء (ص) کے اعلان بعثت کے ساتھ ہی اپنے آپ کو علم کے زعم باطل میں صرف اس وجہ سے مبتلا کیا کہ نور حق سے ان کے دلوں کا انشراح تو نہ ہوسکا، لیکن ان کی آنکھیں ضرور چندھیا گئیں۔ حسد و عناد نے ان کے سینوں کو کچھ اس طرح سوختہ کیا کہ وہ اسی آگ میں اندر ہی اندر جل بھن گئے۔

نور حق نے جہاں اپنی ضیاء پاشی سے ان گنت لوگوں کی راہوں کو روشن کیا وہاں عقل کے ان اندھوں کی بصارت اسی روشنی سے صلب ہو گئی! جہاں آوازہ حق کی گونج نے اوروں کی راہنمائی کی وہاں ان کی سماعت اسی آواز سے ختم ہو گئی اور یہ لوگ دھرے کے دھرے رہ گئے! قرآن کی رو سے ان کی حالت ان چوپایوں کی ہو گئی جو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ دی گئی ندا کا بھی صرف شور سنتے ہیں جبکہ اس کے معنی تک پہنچنا ان کے لئے ناممکن ہوجاتا ہے۔

ایک سطح پر دیکھا جائے تو کسی بھی انسان کو حق کی آواز سن کر تلملا اٹھنا زیب نہیں دیتا، کیوں کہ رب کائنات نے ہر انسان کو عقل سے بھی نوازا ہے اور نطق کی صلاحیت بھی عطا فرمائی ہے۔ عقل کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت انسان کو ہر بات پر اپنا ردعمل دکھانے سے قبل اس پر بھر پور غور فکر کرنا چاہیے تھا، تاکہ حق کے تئیں اس کا تبصرہ مبنی بر حقیقت ہوجاتا اور اس کا رویہ چوپایوں اور جانوروں سے کچھ مختلف ہوتا۔ لیکن ہوا و ہوس اس کو اس قدر گھمنڈ میں مبتلا کردیتا ہے کہ وہ حق کے آگے اکڑ دکھاتا ہے اور ایسا جھگڑالو بن جاتا ہے کہ اس سے حق پہچاننے کی تمیز جاتی رہتی ہے۔ قرآن کی رو سے :

”بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کردیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے، حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے۔ اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کردیتا ہے۔“ (البقرہ: 204، 206 )

دراصل حق کی بے لاگ آواز ہونے کی وجہ سے قرآن ایسے انسان کے جھوٹ، جو اس نے منافقت کے پردے میں چھپائے رکھا ہوتا ہے، کا پول کھول دیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو بالکل برہنہ پاتا ہے۔ اب جہاں تک جھوٹ کا تعلق ہے تو وہ صرف بات، بیان اور کلام کا جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ وہ عمل اور رویے کا جھوٹ ہوتا ہے جو ایسے انسانوں کی شخصیت کا جزو لاینفک بن گیا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے جھوٹ کو، جو کسی کی شخصیت کے ساتھ گھل مل گیا ہو، اس شخص سے الگ کرنا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔

جھوٹ ان اشخاص کا اس طرح اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے کہ یہ لوگ اسی کے سہارے معاشرے پر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ان کی سماج پر چودھراہٹ بھی اسی جھوٹ کی مرہون منت ہوتی ہے۔ جب حق کی آواز جھوٹ کے اس قصر پر گرج اور چمک بن کر گرتی ہے تو جھوٹ کے یہ دعویدار اپنے آپ کو بے یارومددگار پاتے ہیں!

بالکل یہی معاملہ قرآن کی مقدس آواز اور مختلف انواع و اقسام کے جھوٹوں کا ہوتا ہے۔ سیدالانبیاء (ص) نے جوں ہی اعلان نبوت فرمایا تو سرداری کے جھوٹے دعویدار ٹڈی دل کی طرح اس آواز کو دبانے پر تل گئے۔ انہوں نے اگرچہ ہر طرح کے حربے آزمائے، لیکن جو حربہ ان لوگوں نے مسلسل اور متواتر بروئے کار لایا وہ قرآن اور صاحب (ص) قرآن پر طعنہ زنی کا اوچھا حربہ تھا۔ قرآن کے اولین مخاطبین کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ قرآن جس حق کا اعلان ہے تو صاحب (ص) قرآن اسی اعلان کے وجود مجسم ہیں۔ اس بات کا ثبوت قرآن کے ورق ورق سے جھلکتا۔ اس سلسلے میں قرآن اور نبی (ص) کو مجموعی طور پر ”بینہ“ یعنی ”ایک واضح نشانی یا دلیل“ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

”اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہ تھے۔ (وہ دلیل یہ تھی کہ) اللہ تعالٰی کا رسول جو پاک صحیفے پڑھے۔“ (البینہ: 1، 2 )

سیدہ عائشہ (رض) نے بھی رسول اللہ (ص) کے اخلاق کے بارے میں ”کان خلقہ القرآن“ فرما کر قرآن اور صاحب (ص) قرآن کے تعلق کی بین الفاظ میں تشریح فرمائی۔ آپ (ص) قرآن عظیم کے عملی نمونے کے طور پر اخلاق کے عظیم درجے پر فائز تھے۔ تاہم اپنے بڑے پن کے زعم باطل میں مبتلا سرداران عرب، بالخصوص قریش قرآن کے اعجاز کو ہضم کرپارہے تھے اور نہ آپ (ص) کو اللہ کی طرف سے بخشی گئی عظمت ہی ان کو برداشت ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کو جادو اور کہانت سے تعبیر کر رہے تھے اور جادوگر اور کاہن کہہ آپ (ص) کی تحقیر اور تضحیک کے مرتکب ہو رہے تھے۔ اسی لئے ان لوگوں نے نبی (ص) کے سامنے اللہ تعالٰی کے لئے مطالبات کی ایک لمبی فہرست رکھی تھی۔ ان مطالبات میں ایک عجیب مطالبہ یہ بھی تھا کہ یہ رسول (ص) دو بڑے شہروں (مکہ اور طائف) کا کوئی بڑا آدمی کیوں نہیں ہے! قرآن کے الفاظ میں :

”اور کہنے لگے، یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا۔“ (الزخرف: 31 )

ان لوگوں کا یہ بھی الزام تھا کہ کوئی عجمی یعنی غیر عرب آپ (ص) کو صبح اور شام یہ قرآن سنارہا ہے! عقل کے ان کوروں کو یہ بات نہیں سوجھتی تھی کہ کوئی غیر عرب فصیح و بلیغ عربی کلام کیونکر تخلیق کر سکتا ہے۔ کبھی یہ لوگ قرآن کو ماننے کے لئے یہ شرط بھی رکھتے تھے کہ آپ (ص) کو قرآن براہ راست آسمان سے مجلد صورت میں پیش کیا جائے۔ کبھی یہ کہتے تھے کہ فرشتہ براہ راست آپ (ص) سے ہمکلام ہو اور اس مکالمے کو یہ لوگ بھی ملاحظہ کرسکیں۔ کبھی یہ لوگ آپ (ص) کے بشر ہونے کو قرآن کی تکذیب اور استہزاء کے لئے ایک بہانہ بناتے تھے۔ ان کے ہر طرح کے اشکالات کا جواب اللہ تعالٰی نے زبان رسالتمآب (ص) سے بڑے ہی مدلل اور تسلی بخش انداز سے دلوایا۔ بشریت اور رسالت کے جواز کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

”آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بناکر بھیجتے۔“ (بنی اسرائیل: 95 )

اسی طرح جب انہوں نے آپ (ص) کے مافوق الفطرت ہو کر اللہ کی طرف سے روزمرہ کی ضروریات زندگی کے بلاواسطہ حصول کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالٰی نے جواباً فرمایا:

”ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا۔“ (الفرقان: 20 )

شیطان کے ان چیلوں نے قرآن کو شعر اور فضول بات کہنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسے شیطانی مداخلت سے پاک ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ ان سارے شکوک و شبہات اور لایعنی الزامات کا قرآن نے نہایت تسلی بخش اور دلائل سے پر جواب دیا اور ان معاندین کی ناک میں دم کر دیا:

”نہ تو ہم نے اس پیغمبر کو شعر سکھائے اور نہ یہ اس کے لائق ہے۔ وہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے۔“ (یس: 69 )

جب یہ لوگ قرآن کے اعجاز کے منکر ہوئے تو انہیں اس جیسا کلام پیش کرنے کو کہا گیا۔ ظاہر ہے کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ یہ لوگ کچھ کر تو نہیں سکتے تھے، اس لئے اس للکار (challenge) کو کم کرتے ہوئے انہیں چند سورتیں، ایک سورت یا چند آیات پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ جب یہ ایسا کچھ بھی نہ کرسکے تو انہیں ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی:

”پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کر سکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔“ (البقرہ: 24 )

غار حرا کے مقدس ماحول میں وحی کی پہلی کرن پھوٹنے سے لے کر نبی (ص) کی زندگی کے آخری رمضان میں مسجد نبوی کے نورانی ماحول میں جبریل (ع) کے ساتھ ”العرضہ الآخرہ“ (Last Presentation) تک قرآن کے منکرین اور معاندین کے سامنے یہ دعوت موجود رہی لیکن انہوں نے منہ کی کھائی۔

قرآن کی بلاغت، قرآن کے اسلوب اور قرآن کے اعجاز کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہ ماضی میں تھی نہ حال میں ہے اور نا ہی مستقبل میں ہو سکتی ہے۔ البتہ ان کی طرف سے ایسی حماقتیں ہوتی رہیں ہیں، ہوتی رہتیں ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے سے یہ لوگ جیسی بھی کوششیں کریں گے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا ہی نصیب ہوگا۔ اس سلسلے میں شیخ طنطاوی نے اپنی تفسیر میں ایک انوکھا واقعہ بیان کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ زمانہ جدید میں معروضیت (objectivity) کے علمبرداروں نے بھی قرآن کے خلاف محاذ کھول کر آزماکر دیکھا لیکن ان کو بھی قرآن کے اعجاز کے سامنے جھکنا پڑا۔

شیخ طنطاوی نے رامل گیلانی اور امریکی مشتشرق، فنکل کے درمیان ایک مکالمہ نقل کیا ہے۔ فنکل نے قرآن کی بلاغت کا مقابلہ کرنے کے لئے ”وسعت“ کے تصور کو مختلف عربی عبارتوں سے ادا کیا۔ رامل گیلانی نے اسی تصور کی ادائیگی کے لئے قرآن کی یہ آیت پیش کی: ”جس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کیا تو بھر چکی؟ وہ جواب دے گی کیا کچھ اور زیادہ بھی ہے؟“ (ق: 30 ) ”وسعت“ کا یہ تصور پڑھ کر فنکل، جو ایک ماہر عربی دان تھا، ہکا بکا رہ گیا!

یہ اور اس طرح کے لاتعداد واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ، چاہے وہ الفاظ کا ہو، معانی کا ہو یا پھر فصاحت بلاغت و اعجاز کا، خود خدائے بزرگ و برتر نے لیا ہے۔ اس لئے کوئی عربی ہو یا عجمی، یا آج کے حالات میں کوئی ”بر صغیری متعصب ابن الوقت“ ہی کیوں نہ ہو، قرآن کا نور کسی کی پھوکوں سے بجھنے والا نہیں کیوں کہ اللہ تعالٰی نے اعلان فرمایا ہے : ”ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔“ (الحجر: 9 )

اور بقول علامہ اقبال:
حرف او را ریب نے، تبدیل نے
آیہ اش شرمندہ تاویل نے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments