امرجلیل تو امر ہے


پرویزعلی ہود بھائی نے ”مسلمان اور سائنس“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : امام احمد بن حنبل کے پوتے عبدالسلام نے فلسفہ میں دلچسپی ظاہر کی تو اس کے دشمنوں نے اسے برباد کر دیا۔ خانہ تلاشی کے دوران اس کے گھر سے اخوان الصفا کے رسالے، جادو، جوتش اور نجوم پر کتابیں اور سیاروں کے لئے دعاؤں کے کتابچے برآمد ہوئے۔ یہ سب عبدالسلام کے ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے۔ اس نے یہ بہانہ کیا کہ میں ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتا اور میں نے تو یہ سب کتابیں ان کا رد لکھنے میں مدد کے لئے نقل کی تھیں۔

یہ سب کتابیں اور تحریریں علماء اور قاضیوں وغیرہ کی موجودگی میں خلیفہ کی مسجد کے صحن میں ڈھیر کی گئیں اور پھر مسجد کے منبر سے یہ کتابیں فاضل عمائدین کے سامنے آگ میں پھینکی گئیں۔ یہ منظر اس بڑے ہجوم نے بھی دیکھا جو مسجد کے سامنے جمع ہو گیا تھا۔ ایک شخص ہرکتاب کا عنوان پڑھ کر عبدالسلام کی موجودگی میں کہتا تھا کہ اس کتاب کے لکھنے اور اس پر یقین رکھنے والوں پر خدا کی لعنت ہو۔ ہجوم میں شامل لوگ بھی لعنت بھیجتے تھے۔

ابن الصلاح (وفات 1250 ) سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا فلسفہ اور منطق کا مطالعہ جائز ہے تو اس نے اپنے فتوے میں فلسفے کے متعلق کہا کہ: ”یہ حماقت کی بنیاد اور ہر قسم کے انتشار، اغلاط اور کفر کا سبب ہے۔ جو شخص اس کے مطالعہ میں مصروف ہوتا ہے وہ مذہبی قانون کے حسن کو نہیں دیکھ سکتا۔ جہاں تک منطق کا تعلق ہے، یہ فلسفہ تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ کسی خراب چیز تک رسائی کا ذریعہ بھی خراب ہوتا ہے۔ جن اشخاص کے بارے میں یہ شہادت ملے کہ وہ فلسفہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں، ان کو دو میں سے ایک چارہ کار کے انتخاب پر مجبور کیا جائے، یا ان کا سر قلم کیا جائے یا وہ اسلام قبول کریں تاکہ زمین کا تحفظ کیا جاسکے اور ایسے لوگوں اور ان کی سائنسوں کا نام و نشان بھی مٹا دیا جائے“ ۔

سائنس کی طرف بڑھتے رجحان کو دیکھ کر ایک نوجوان کی سرزنش کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں : ”ا ے نوجوان! کتنی راتیں تم نے سائنس کے ورد اور کتابیں پڑھنے میں جاگ کر گزاری ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کا مقصد کیا تھا۔ اگر اس کا مقصد دنیاوی وسائل کا حصول، اور اس کے جاہ وتکبر کی تحصیل، اپنے ہم عصروں پر فوقیت حاصل کرنا یا ایسی ہی دیگر چیزیں ہیں، تو تم پر لعنت، بار بار لعنت“ ۔

آج سے کئی صدیاں قبل جب دانشوروں اور روشن خیال لوگوں نے اپنے نظریات کا اظہار کیا تو اس کا ردعمل کیسا آیا، اس بارے میں پرویز ہود بھائی نے چند شخصیات کا تذکرہ کیا ہے :

”عربوں کے فلسفی“ ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی نے جب اپنے نظریات کا پرچار کیا تو خلیفہ اس بات کا قائل ہو گیا کہ اس فلسفی کے عقائد خطرناک ہیں۔ الکندی کے ذاتی کتب خانے ”الکندیہ“ کو ضبط کرنے کا حکم دیا گیا۔ 60 سالہ فلسفی کو سرعام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ ہر کوڑے پرہجوم خوشی سے نعرہ لگاتا تھا۔

محمد ابن زکریا الرازی اسلامی دنیا کے بڑے طبیب تھے اور انہیں ”جالینوس عرب“ کہا جاتا ہے۔ ان کے نظریات کے بدلے بخارا کے قدامت پسند خاندان کے ایک امیر نے حکم دیا کہ الرازی کے سر کو اس کی کتاب سے اتنا مارا جائے کہ یا تو اس کا سر یا کتاب ٹوٹ جائے۔ اس کی وجہ سے الرازی کی بینائی ضائع ہو گئی۔

تیسری شخصیت ابن سینا کی ہے، جنہوں نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور 17 سال کی عمر میں ایک نامور طبیب بن گئے تھے۔ وہ عقلی استدلال کی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ وہ جب امیر ہمدان کے وزیر تھے تو ایک دفعہ فوج کے افسروں سے ان کی بحث ہوئی۔ افسر اتنے ناراض ہوئے کہ ان کے قتل کا مطالبہ کیا گیا۔ ابن سینا کو دوست کے گھر میں چھپ کر جان بچانا پڑی۔ ان کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ انہیں جب بدعتی قرار دیا گیا تو انہوں نے اس الزام کا دفاع ایک نظم میں یوں کیا:

”مجھے بدعتی قرار دینا اتنا آسان اور اتنی چھوٹی بات نہیں ہے۔ مذہب میں مجھ سے زیادہ راسخ العقیدہ کوئی نہیں۔ اگر میں بھی بدعتی ہوں تو میں دنیا کی عجیب و غریب شخصیت ہوں۔ اگر میں بھی بدعتی ہوں تو دنیا میں کہیں بھی کوئی مسلمان نہیں ہے“ ۔

ابن سینا کی مسلسل وضاحت کے باوجود قدامت پسند مذہبی علماء ان کی شخصیت پر اپنی پسند کا لیبل چسپاں کرتے رہے، یہاں تک کہ امام غزالی نے بھی ابن سینا کے بارے فرمایا: ”ارسطو کے فلسفے کی اشاعت و ترویج کی وجہ سے ہمیں دو فلسفیوں ابن سینا اور الفرابی نیز ان کے پیروکاروں کو منکر قرار دے دینا چاہیے“ ۔

اس کتاب میں جس آخری شخصیت کا تذکرہ ہوا ہے وہ ابن خلدون ہیں۔ ابن خلدون کے مخالف اسے ”جاہل“ کہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد سمیع شوکت (عراق میں شعبہ تعلیم کا ڈائریکٹر جنرل) نے ایک تقریر بعنوان ”موت کا پیشہ“ کرتے ہوئے کہا کہ ”ابن خلدون کی قبر کو کھود کر مسمار کیا جائے اور تمام عرب دنیا میں جہاں کہیں بھی اس کی کتابیں ہوں ان کو جلایا جائے“ ۔

اب کتاب کو تھوڑی دیر ایک طرف رکھ کے حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں، جس نے یہ ثابت کرنے میں مدد فرمائی ہے کہ ہم جسمانی طور پر تو اس صدی میں رہ رہے ہیں مگر عقلی اور شعوری لحاظ سے کئی سو سال پیچھے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ 2017 میں سندھ کے ادیب اور کالم نگار امر جلیل کی طرف سے لکھے گئے ایک افسانہ پر سوشل میڈیا نے شور برپا کر دیا۔ اس کے ردعمل میں دو گروہ تشکیل پائے ایک وہ جو امر جلیل کو ٹھیک قرار دینے لگے اور دوسرے ”سر تن سے جدا“ کا نعرہ لگانے لگے۔

دوسرے گروہ کو متحرک کرنے میں سب سے اہم کردار جمیعت علماء اسلام صوبہ سندھ کے سرکردہ رہنما مولوی راشد سومرو نے ادا کیا۔ اس سے پہلے اسی راشد سومرو نے سندھ کی ایک خاتون دانشور کے خلاف بھی ”توہین“ کا شور برپا کیا اور بالآخر انہیں ویڈیو کی صورت میں اس مولوی کے سامنے ”وضاحت نامہ“ پیش کرنا پڑا۔ اس لیے مولوی صاحب کے حوصلے بلند تھے اور فرمایا ”ہم نے امر جلیل کے قریبی احباب سے ویڈیو کلپ بارے وضاحت طلب کی ہے“ ۔ اس کے بعد خدائی فوجدار میدان میں اتر آئے۔ سندھ کے علاقے محراب پور میں مذہبی جماعتوں کی طرف سے ایک جلوس نکالا گیا، جس کی قیادت علماء نے کی۔

اس جلوس میں شامل تمام افراد کے پوسٹرز پر امرجلیل کا نام ”امر ذلیل“ درج تھا اور ایک نعرہ کچھ یوں تھا:

امرذلیل پہ لعنت، بے شمار بے شمار

اتنی دیر میں ایک مولانا صاحب مائیک سنبھالتے ہیں اور لوگوں کو اپنے اہل ایمان ہونے کا ثبوت دینے کے واسطے ایک اور نعرہ زور سے لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ نعرہ کچھ یوں ہے :

امر جلیل، کتا کتا

سندھ کے ایک دوسرے علاقے دادو میں جمعیت اہلحدیث کی جانب سے ایک ریلی نکالی گئی۔ جس میں ”ملعون“ امر جلیل کو فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ریلی میں بھی ”سر تن سے جدا، سر تن سے جدا“ کا نعرہ دوہرایا گیا۔ اس ریلی میں ایک مولانا صاحب خطاب میں سوال اٹھاتے ہیں کہ روز محشر خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟

سندھ سے ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں اور اقبال سومرو جیسے لوگ بھی میدان میں اتر آئے۔ عبدالحفیظ صاحب کا ایک ویڈیو بیان میں کہنا ہے کہ ”اگر آج انہیں سزا نہ دی گئی تو اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں روک سکتا“ ۔

اس کے بعد ڈاکٹر عبدالحفیظ کی ہی زیر نگرانی سندھ کے علاقے بدین میں ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں امر جلیل کو گرفتار کر کے پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ سب سے خطرناک بات یہ کہی گئی کہ اگر قانون انصاف میں دیر کرے گا تو پھر کوئی نوجوان حتمی قدم اٹھائے گا۔ کیا ڈاکٹر عبدالحفیظ معاشرے کو ایک اور ”قاتل“ دینا چاہتے ہیں؟

اسی طرح ایک معروف عالم دین نے امرجلیل پر ایف آئی آر درج کرانے کا مطالبہ کیا اور صوفے جلانے میں مہارت رکھنے والے مولوی عبدالعزیز نے امر جلیل کے خلاف فتوی جاری کرنے کی دھمکی دی۔ ڈاکٹر آصف جلالی نے امر جلیل کو ”ابوجہل“ سے بدتر انسان قرار دیا اور محبوب مرشد حسین شاہ نے ”معراج النبی کانفرنس“ میں انہیں ”لعنتی“ قرار دیا۔

اس سارے عمل میں سب سے گھناؤنا کردار سندھ کے مقامی اخباروں نے ادا کیا۔ کراچی اور خیرپور سے شائع ہونے والے اخبار بنام ”ہمارا سماج“ (چیف ایڈیٹر اے۔ کے۔ چوہان) نے امرجلیل کے خلاف مظاہروں میں سکول کے اتنے چھوٹے بچوں کی تصویریں بھی شائع کیں کہ جنہیں شاید یہ بھی علم نہ ہو کہ ہوا کیا ہے۔ آخر ہم بچوں کے دماغوں میں کیا بھرنا چاہتے ہیں؟ کراچی سے شائع ہونے والے ایک اور اخبار بنام ”آزاد ریاست“ (چیف ایڈیٹر سید قیصر محمود) نے بھی اسی طرح کا کردار ادا کیا۔

کراچی کے ایک اور اخبار بنام ”امت“ نے 31 مارچ کی اشاعت میں امر جلیل کی تصویر لگا کر ساتھ لکھا ”ملعون امرجلیل“ ۔ اسی اخبار نے دو اپریل کی اشاعت میں مفتی محمد طاہر مکی کا بیان شامل کیا جس میں مفتی صاحب کہتے ہیں ”سندھی علماء و مفتیان کرام کو چاہیے کہ وہ امر جلیل کو قتل کرنے کا فتوی جاری کر کے ثابت کریں کہ انہیں دین اسلام عزیز ہے نہ کہ زبان اور لسانیت“ ۔

اب ”سر تن سے جدا“ کا نعرہ لگانے والوں سے چند سوال اور کچھ گزارشات ہیں : امر جلیل کے خلاف جس طرح مذہب کو بری طرح استعمال کیا گیا، کیا ایمان کا ثبوت دینے کے لیے اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ امر جلیل کو ملعون کہو اور سر تن سے جدا کرنے کے نعرے لگاؤ؟

دادو میں ایک مولانا نے لوگوں کے جذبات ساتھ کھیلنے کے لئے سوال اٹھایا کہ روز محشر خدا کو کیا منہ دکھاؤگے؟ مولانا صاحب شاید بھول گئے کہ روز محشر انہیں ہرگز امر جلیل کے ”اعمال“ کا حساب نہیں دینا ہے۔ یہ بات کہ ”اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں روک سکتا“ تو حضور بات عقل میں پڑتی نہیں، اگر امر جلیل کے ایک افسانہ سے عذاب آئیں گے تو غیر مسلم ممالک جو ”شرک“ میں بھی مبتلا ہیں وہ عذابوں سے محفوظ کیوں ہیں؟ وہ نیست و نابود کیوں نہیں ہوئے؟

کون اچھا مسلمان ہے اور کون برا، اس کو ماپنے کے لیے مولوی نے کون سا پیمانہ ایجاد کر لیا ہے؟ کون کافر؟ کون مسلمان؟ اس فیصلے کا اختیار خدا پر چھوڑ دیں۔ دوسرے کے ایمان کا ٹھیکہ مولوی کو کب سے مل گیا؟

ایک کلمہ گو آدمی سے اختلاف ضرور کریں مگر کسی سلیقے کے ساتھ، دنیا میں خود کو طالب علم سمجھیں طالبان نہیں۔ کیونکہ جتنا خدا ایک مولوی کا ہے، اتنا ہی امر جلیل کا بھی ہے۔ دنیا میں خدا کسی کا ذاتی نہیں ہے۔ اگر کٹر ملا اس وہم میں مبتلا ہیں تو ”امت“ کو لکھ بھیجیں، شائع کر دیں گے کہ نعوذبا اللہ ”خداکے جملہ حقوق مولوی کے پاس محفوظ ہیں۔ خدا کے بارے میں بات (چاہے جس بھی نوعیت کی ہو) کرنے سے پہلے مولوی سے باقاعدہ اجازت لیں“ ۔ اس ”شور“ میں سندھ اپنے روشن خیال ہونے کی لاج رکھنے میں کامیاب ہوا ہے اور شاہ محمد مری صاحب (بلوچستان) کے الفاظ میں سندھ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے کہ:

امر جلیل سندھ ہے، سندھ امر جلیل ہے۔
پاکستان بھر کے ادیبوں، دانشوروں اور روشن خیال لوگوں کا فیصلہ شاید کچھ یوں ہو کہ:
”امرجلیل تو امر ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments