”میں بھٹو ہوں“


یہ 15 دسمبر کا تاریخ ساز دن تھا جب پاکستان کی محبت میں گرفتار بھٹو نامی ایک جیالا سلامتی کونسل کے اجلاس میں یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑا۔

” پچھلے چار دنوں سے یہ کونسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، اب ہم وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں تمہاری کوئی پرواہ نہیں، میں شکست کی دستاویز پر دستخط نہیں کروں گا۔ تم پورے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرا لو، ڈھاکہ پر قابض ہو جاؤ، مغربی پاکستان پر تسلط قائم کر لو۔ تم کوئی تصفیہ نہیں چاہتے، ہمیں توپوں اور اسلحہ کے زور پر خاموش کرانا چاہتے ہو، تم جارحیت کو جائز قرار دینا چاہتے ہو، ناجائز قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے خواہش مند ہو، تم ہر اس عمل کو جائز قرار دینا چاہتے ہو جسے آج تک ہمیشہ ناجائز سمجھا گیا۔ ہم لڑیں گے، ہم نیا اور عظیم پاکستان بنائیں گے۔ یہاں بیٹھنا میری ذات اور میرے ملک کی توہین ہے، میں بائیکاٹ نہیں کر رہا لیکن ادھر بیٹھ کر ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میرا ملک مجھے بلا رہا ہے، میں جا رہا ہوں“ ۔

پاکستان کی سیاست کے اس دیو مالائی کردار کا نام تو ذوالفقار علی تھا لیکن دنیا اسے بھٹو کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ وہ بھٹو جس نے ایک قومی سیاسی لیڈر کی حیثیت سے عوام میں آگاہی اور شعور کے حوالے سے سیاست کو ایک نئی سمت دی۔ مزدور، کسان، ہاری اور دوسرے پسے ہوئے طبقات میں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کا حوصلہ پیدا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے کرتے اپنی آستینیں چڑھا کر پوچھتا۔

” میرا ساتھ دو گے، خدمت کرو گے، محنت کرو گے، لڑو گے، ، مرو گے، جدوجہد کرو گے، ایمان سے کرو گے، خدا کی قسم کرو گے“ تو ہر طرف سے ایک شور بپا ہوتا۔ ہاں، ہاں، ہاں۔

اور اسی ”ہاں“ کی لاج رکھتے رکھتے، لڑتے لڑتے وہ اپنے ایمان کی قسمیں کھاتا پھانسی چڑھ گیا۔ اور کیوں نہ چڑھتا کہ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں فرزانوں میں ایک ہی تو وہ دیوانہ تھا جسے تقدیر نے اپنے وطن اور اس کے غریب عوام کی خدمت کے صلہ جاوداں کے عوض رتبہ شہادت پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ طلسم تھا یا طلسم کدہ، تاریخ ابھی اس بلوغت کو نہیں پہنچی کہ اس کا تعین کرسکے لیکن اس کی گواہ ضرور ہے کہ اس ایک جیالے کی قربانی نے لاتعداد ایسے جیالے پیدا کیے جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے مگر اپنی ”ہاں“ کو ”ناں“ میں نہیں بدلا۔

یہ اس کی کرشماتی شخصیت کا خاصہ ہی تو تھا کہ وہ تھوڑے عرصہ میں ملک کا مقبول اور عوام کا محبوب ترین لیڈر بن گیا۔ 70 کے انتخابات میں اس کی پارٹی مغربی پاکستان میں واحد اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی۔ 1973 میں ملک کا پہلا وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین متفقہ طور پر منظور ہوا تو اس کا کریڈٹ بھی اسی ”شہید مظلوم“ کو جاتا ہے۔ اسی آئین کے تحت جب اس نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو پیپلز پارٹی کے منشور روٹی، کپڑا، مکان اور اسلامی سوشلزم کو حکومتی پالیسیوں کا محور بنالیا۔

اسی تناظر میں پیپلز پارٹی کا فلسفہ ”بھٹو ازم“ اجاگر ہوا۔ اپنی عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر 1977 کے انتخابات کا اعلان کیا تو ملک کی 9 دوسری جماعتوں نے اس کے مقابلہ پر پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابی اتحاد تشکیل دیا جو انتخابات کے بعد مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ایک تحریک میں تبدیل ہوا۔ اس تحریک نے ہی ملک پر جنرل ضیا الحق کو ماورائے آئین اقدام کے تحت مارشل لا کا راستہ دکھایا۔ جس نے 5 جولائی 1977 کو عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر خود اقتدار پر قبضہ جما لیا اور پھر بھٹو کو ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹانے کے لئے نواب محمد احمد خاں کے قتل کے داخل دفتر ہونے والے مقدمہ کو کھلوا کر اس کیس میں اس کی سزائے موت کا اہتمام کرا لیا۔

یہ بھی اسی شہید کا طرہ امتیاز ہے کہ اس نے پھانسی پر لٹکنا قبول کر لیا مگر جرنیلی آمریت سے مفاہمت نہ کی۔ یہاں تک کہ اپنی سزائے موت کے خلاف ضیا سے رحم کی اپیل کرنے سے بھی معذرت کر لی اور یہ تاریخی فقرہ ادا کیا۔ ”میں ایک آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس کی پھانسی قبول کر کے تاریخ میں امر ہونا پسند کروں گا“ ۔ یقیناً وہ تاریخ میں امر ہو چکا جبکہ اس کی سزائے موت سے متعلق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کی کہیں نظیر تک پیش نہیں کی جا سکتی۔

ذوالفقار علی بھٹو، اس عظیم وژنری پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی اور معمار تھا جو بھارت سے ہزار سال تک لڑنے کا عزم رکھتا تھا۔ جس نے آج تک بروئے کار افغان پالیسی کی بنیاد رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی شمع رسالت کا وہ پروانہ تھا جس نے جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل، شراب اور گھڑدوڑ پر پابندی اور ڈانسنگ کلب بند کروائے اور عوامی امنگوں کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کا تاریخ ساز اقدام اس کے لئے توشہ آخرت ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ پاکستان ترقی کرے، عظمتوں کو چھوئے اور آسمانوں کی رفعتوں کو پالے۔

اس عظیم مقصد کے لئے اس نے مستقبل میں بھارت سے پنجہ آزمائی کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔ اسے اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ بھارت کی طرف سے خطرات لاحق رہیں گے، اسی لئے اس نے اعلان کیا، ہم گھاس کھا لیں گے، بھوکے رہیں گے، لیکن اپنا ایک ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں اپنی قوم، اپنے ملک اور مسلم امہ کا درد تھا۔ 1974 میں اس نے لاہور میں اسلامک سمٹ کانفرنس کے نام پر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے نئی تاریخ رقم کی۔

وہ صرف اہم اور نمایاں قومی لیڈر ہی نہ تھا بلکہ ایسا مثالی مدبر سیاست دان بھی تھا جس نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد مایوس اور دلبرداشتہ قوم کو نئی زندگی اور حوصلہ بخشا اور نوے ہزار جنگی قیدیوں کو وطن واپس لایا۔ اسے بھارت کی ذہنیت کا بخوبی ادراک تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق رائے دہی کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے کے لئے کبھی تیار نہ ہوگا، اس کے لئے اس نے تمام عالمی فورمز پر آواز اٹھائی اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک ہی صورت ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے انہیں حق رائے دہی کی آزادی دی جائے۔

ایسا ملک جو کئی دہائیوں تک اپنے دستور تک سے محروم تھا، اس نے تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے قابل قبول آئین دیا۔ وہ پاکستان کا ہی کرشماتی سیاسی لیڈر نہ تھا بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کا سب سے بڑا داعی بھی تھا، تبھی تو دنیا میں آج مسلمان بھائی اور بہنیں پاکستان کو ”بھٹو کا پاکستان“ کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔ اس نے دنیا کے دوسرے ملکوں سے جہاں خیر سگالی کے تعلقات کی ابتدا کی وہاں چین کے ساتھ دوستی کی مضبوط اور پائیدار بنیاد بھی رکھی جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ یہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوئے جس کے ثمرات پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

آج کی نوجوان نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھٹو ایک انسان نہیں بلکہ نظریہ کا نام تھا اور جب اس نے شدید دباؤ اور عبرتناک مثال بنا دینے کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے اور روکنے کی بات نہ مانی تو پاکستان کے دشمن اس کی جان کے در پے ہو گئے، پھر اسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ سی آئی اے نے جنرل ضیا کی مدد سے اس کا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے پسندیدہ برانڈ کے اسلام کی روشنی میں انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو جہادیوں کے روپ میں پروان چڑھایا۔

ان تمام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو پاکستان لا کر امریکہ کی مدد سے ضروری تربیت اور تیاری کے بعد افغانستان میں کارروائی کے لئے بھجوایا گیا۔ جنرل ضیا نے اپنے امریکی آقاؤں کی آواز اور خواہش پر بھٹو کے عدالتی قتل کو یقینی بنایا اور ایسا کرتے ہوئے اسے اس امر کا مطلق احساس نہ ہوا کہ امریکیوں کے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد صدر ایوب خان کو کس ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ قدرت جنرل ضیا اور اس کی باقیات سے ہر اس سازش کا انتقام لے رہی ہے جس نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مکافات کا یہ عمل جاری ہے۔

کیا اب بھی کسی کو اس حقیقت کا انکار ہے کہ ملک میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی بنیاد بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ہی رکھی تھی۔ آج ملک میں سسٹم کو پھر ایسے ہی خطرات لاحق ہیں جو جنرل ضیا اور پھر جنرل پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقتدار پر منتج ہوئے۔ آمریت کے ان پے درپے حملوں نے آئین اور جمہوریت دونوں کو قتل کر ڈالا۔ 4 اپریل 1979 ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے جنرل ضیا اور اس کے چیلوں کا خیال تھا کہ بھٹو کی کہانی ختم ہو چکی لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ کہانی بھٹو کی ذات تک محدود نہیں بلکہ محروم طبقوں کے دلوں پر بھی نقش تھی۔

اسی لئے تو بھٹو کے لئے ہزاروں افراد نے جیلیں بھگتیں، کوڑے کھائے، عقوبت خانے کاٹے، خود سوزیاں کیں۔ نہتے عوام فوج سے نہیں لڑ سکتے لیکن وہ ہار مان کر اپنے گھروں میں بھی نہیں بیٹھے، ان کے پاس واحد ہتھیار اپنا اپنا ووٹ تھا۔ انہوں نے ووٹ کی پرچیاں اپنی مٹھیوں میں بند کر لیں تاکہ جب کبھی عام انتخابات ہوں، بھٹو کا قرض چکا سکیں۔ ان غریب اور کمزور طبقوں نے ”بھٹو ازم“ کو اپنا عقیدہ بنا لیا جسے وہ نجات کا راستہ سمجھتے ہیں، جو آج بھی زندہ ہے۔

آج بھی جمہوریت کے لبادے میں لپٹے آمریت زدہ اذہان اس مردہ بھٹو سے خوف زدہ ہیں جس کی آواز پورے پاکستان کے غریب عوام کی آواز بن چکی، جب بھی کوئی سازش رچی جاتی ہے تو ایک آواز ان کا تعاقب کرتی ہے، وہ خوف زدہ ہو کر اپنے ہی بھیانک چہروں سے ڈرتے اور سرپٹ بھاگتے ہیں، اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کر کے لیکن یہ آواز ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

”میں بھٹو ہوں۔ میں بھٹو ہوں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments